فلسطین اور یوم نکبہ
فلسطین کے 22 فیصد علاقوں پر فلسطینیوں کے حق کو اوسلو معاہدے کے ذریعے تسلیم کیا گیا تھا.
دنیا میں عام تاثر یہ ہے کہ فلسطین اور فلسطینیوں کی تاریخ میں محض ایک ہی دن آفت و مصیبت یعنی نکبہ کا دن تھا یعنی صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام کا دن۔ لیکن حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو فلسطین کی تاریخ میں یوم نکبہ کا پہلا مرحلہ مئی 1948 سے مئی 1967 تک کے سارے ایام پر محیط تھا اور جون1967 سے نکبہ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا جو تا حال جاری ہے۔ جون 1967 کی 6 روزہ جنگ میں بھی اسرائیل نے کم قیامت نہیں ڈھائی تھی۔ مئی 1948سے جون 2013 تک ہر دن فلسطینیوں کے لیے آفت و مصیبت کی خبر لے کر نمودار ہوا۔
فلسطینی آج بھی اچھی خبروں کے انتظار میں ہیں لیکن ان کا انتظار ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ مسلح مزاحمت کے ذریعے فلسطین کو آزاد کرانے والی یاسر عرفات کی قیادت نے میڈرڈ اور اوسلو میں فلسطین کے 78 فیصد علاقے سے دستبرداری تسلیم کرکے ایسی خیانت کی کہ تاحال فلسطینیوں کے زخم مندمل نہیںہوسکے ہیں اور اب نوبت بہ ایں جا رسید کہ اسرائیل اور اس کے امریکا جیسے سرپرست فلسطینیوں سے مزید علاقوں میں نسل پرست یہودی بستیوں کے لیے زمین کے خواہاں ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ فلسطینی ریاست کے لیے 1967 کی سرحدیں بھی اسرائیل کی نظر میں زیادہ علاقہ ہے لہٰذا فلسطینیوں سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ مغربی کنارے کے علاقوں اور مشرقی یروشلم یعنی بیت المقدس میں بھی یہودی نسل پرستانہ بستیوں کے ''حق'' کو تسلیم کرلیا جائے۔
فلسطین کے 22 فیصد علاقوں پر فلسطینیوں کے حق کو اوسلو معاہدے کے ذریعے تسلیم کیا گیا تھا اور اب اس بائیس فیصد علاقے میں بھی نسل پرستانہ بنیادوں پر تعمیر کی گئیں تخریبی یہودی بستیوں کو تسلیم کروانے کی سازش پر فلسطینی تو راضی نہیں ہیں لیکن ان کی سرزمین کے بارے میں ان کی رائے کی حیثیت ہی کیا ہے؟ کیا 1948 اور 1967 میں ان کی رائے کا احترام کیا گیا تھا جو اب ان کو کوئی اہمیت دے گا؟
عرب لیگ کی قیادت اور آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے ممالک کے حکمران امریکا کی قیادت میں قائم کیے گئے اتحادوں کا حصہ بنے بیٹھے ہیں۔ عالم اسلام اور دنیائے عرب کے لیے سب سے بڑا اور زندگی اور موت کا ایشو مسئلہ فلسطین ہے۔ کہنے کی حد تک یہ بات درست ہے، کیونکہ ان دونوں بین الاقوامی تنظیموں نے بیت المقدس دارالحکومت کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا اعلان کررکھا ہے لیکن ان تنظیموں کا عمل کیا ہے؟ عرب لیگ ہی کو دیکھیے، اس کا کردار کیا ہے؟ 2012 کے تیسرے مہینے میں جیسے تیسے اس کی سربراہ کانفرنس بغداد میں منعقد ہوئی ۔ اس میں وعدہ کیا گیا کہ فلسطینی انتظامیہ کو دس کروڑ ڈالر ماہانہ مالی امداد فراہم کی جائے گی۔ لیکن عملی طور پر کیا ہوا؟ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل نبیل العربی نے 29 دسمبر 2012 کو رملہ کا دورہ کیا، فلسطینی انتظامیہ سے ملاقات کے بعد ذرایع ابلاغ کو بتایا کہ عرب لیگ کی جانب سے وعدہ کی گئی رقم کی ایک بھی قسط ادا نہیں کی گئی۔
نبیل العربی کے دورے کا مقصد فلسطینی انتظامیہ کے مالی بحران کو دور کرنا تھا۔ فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ عرب ممالک کی امداد سے مالی بحران کا خاتمہ ہوگا لیکن عرب لیگ کے سربراہ نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔ ان سے پہلے قطر کے بادشاہ حماد بن خلیفہ ثانی نے غزہ کا دورہ کیا اور چالیس کروڑ ڈالر امداد کا اعلان کیا جب کہ مغربی کنارے کا دورہ ملتوی کردیا۔ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے فلسطینی انتظامیہ کو دس کروڑ ڈالر خسارے کا سامنا تھا۔ نبیل العربی نے اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا کہ دو عشروں سے اسرائیل کے ساتھ جاری مذاکرات وقت کا زیاں ثابت ہوئے۔
انھوں نے کہا تھا کہ فلسطینی دوبارہ اقوام متحدہ میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی درخواست لے کر جائیں گے۔ ان کے اس اعلان کو 5 ماہ گزر چکے ہیں لیکن اس دوران ان کی توجہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے بجائے فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت کی پشت پناہی کرنے والے واحد عرب ملک شام کی ریاست تباہ کرنے پر مرکوز رہی ہے۔ اس کا ثبوت امریکا و اسرئیل کے ایجنڈا اور ان کی نیابتی جنگ (پراکسی وار) میں ان کی بھرپور اور عملی شرکت ہے۔ زبانی کلامی وہ ایک طرف یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ اب تک جو مذاکرات کیے گئے وہ وقت کا زیاں ثابت ہوئے اور دوسری جانب عرب لیگ کے ممالک کا امریکی حکومت کی جانب سے اسرائیل کے حق میں اور اس کی شرائط منوانے کے لیے مذاکرات کی کوششوں کا خیر مقدم ان کی دوغلی اور منافقانہ روش کی نشاندہی کرتا ہے۔
عرب لیگ کی جانب سے مدد کے کھوکھلے اعلانات اور وعدے فلسطینیوں کی عزت نفس مجروح کرنے کا باعث ثابت ہوئے ہیں۔ او آئی سی کی روش بھی عرب لیگ سے مختلف نہیں ہے۔ ان دونوں تنظیموں نے جتنی تیزی سے شام میں دہشت گردی کرنے والوں کی دل کھول کر مدد کی ہے، اگر اتنی ہی مدد فلسطینیوں کی بھی کردیتے تو فلسطینی مسلح مزاحمت کے ذریعے ہی اسرائیل کو جہنم رسید کرچکے ہوتے۔ لبنان کی حزب اﷲ نے مئی 2000 میں جنوبی لبنان کو صہیونی اسرائیلی فوج کے قبضے سے آزاد کر دکھایا۔ حماس اور حزب جہاد اسلامی کی مسلح مقاومت نے ایریل شیرون جیسے خونخوار صہیونی دہشت گرد فوجی جنرل کو غزہ سے یکطرفہ انخلا پر مجبور کردیا۔ جب فلسطینیوں پر صہیونی دہشت گرد افواج نے تابڑ توڑ اور شدت سے حملے کیے تو ان کی مدد کے لیے حزب اﷲ کو آگے آنا پڑا اوراس نے لبنان کے ایک مقبوضہ علاقے سے دو صہیونی فوجی اغوا کرکے نسل پرست ظالم و وحشی اسرائیلی حکومت و افواج کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی۔
دنیا نے دیکھا کہ صہیونی حکومت نے لبنان پر جنگ مسلط کردی اور سال 2006 میں حزب اﷲ نے اس جنگ میں صہیونی دہشت گرد فوج کے دانت کھٹے کردیے لیکن اقوام متحدہ میں عرب مسلمان ملکوں نے حزب اﷲ کی فلسطین دوستی اور عرب اسرائیل جنگ میں حزب اﷲ کی مخالفت اور مذمت کرکے اسرائیل کے حق میں قرارداد منظور کروانے میں امریکا کی کھل کر مدد کی۔ 2008 میں صہیونی دہشت گرد افواج نے غزہ پر جنگ مسلط کرکے فلسطینیوں کو جھکانے کی سازش کی لیکن غزہ کی استقامت نے دنیا پر ثابت کردیا کہ فلسطینیوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ پھر یہ ہوا کہ اقوام متحدہ میں غزہ کی حکمران حماس حکومت کے خلاف قرارداد لائی گئی اور یہ نام نہاد عرب لیگ ایک بار پھر اسرائیل کے سرپرست امریکا کے کاسہ لیس دکھائی دیے۔
فلسطینیوں کے سامنے صورتحال واضح ہے۔ مئی 1948 اور جون 1967 میں جو قیامت ان پر گزری اس مسلسل نکبہ سے نجات کا واحد راستہ مسلح قیام ہے۔ خواہ وہ اسلحہ ان کے وہ پتھر ہوں جو انتفاضہ کی تحریک میں ان کا ہتھیار بنے یا پھر حماس اور تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے دفاعی حملے ہوں۔ فلسطینی اپنے ان آپشنز پر غور کریں اور اب ان کے سامنے یہی ایک باعزت راستہ بچا ہے کہ تحریک انتفاضہ کے فیصلہ کن مرحلے کا آغاز کریں اور صہیونی ریاست کی نابودی پر منتج ہونے والی دفاعی مقاومتی جنگ لڑیں۔