دیدہ انساں سے انساں کو حجاب آیا تو کیا
غلط کاموں کی پردہ پوشی یااس حوالے سے خاموشی بہت بڑا جرم ہے اوردیکھا جائے تو اس ملک میں سب سے بڑا جرم ’’خاموشی‘‘ ہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کا 70 فی صد استعمال بچے کر رہے ہیں اور بچوں کی محفوظ آن لائن مواد تک رسائی بڑھانے کے لیے بہت کم اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہ صورتحال پوری قوم بالخصوص تعلیمی حلقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بچوں کی اکثریت ایسا مواد تلاش نہیں کرسکتی، جو ان کی سمجھ میں آئے یا ان کی ثقافت کے مطابق ہو۔ ویڈیوگیمز اور غیر اخلاقی مواد کے باعث ان کی ذہنی نشوونما متاثر ہو رہی ہے، کھیل کے میدان اور پارک ویران ہوکر رہ گئے ہیں ۔ نوجوانوں کی زندگی نیند اور انٹرنیٹ کے درمیان موجود ہوکر رہ گئی ہے، لائبریری کلچر نے گو لکھاری اور قاری پیدا کیے جس نے ماضی کی نسلوں کے درمیان خلا پیدا نہیں ہونے دیا ۔
آج چھوٹے بڑوں کے ہاتھ میں موبائل اور انٹرنیٹ کا بے محابہ استعمال انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہ رجحان نئی نسل کو تیزی سے بربادی کی طرف لے جا رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یہاں تک کہ سول سروسزکا معیار گرچکا ہے۔ اس بارے میں قومی افرانفرادی سطح پر سوچ بچارکی ضرورت ہے ۔ بچے نا سمجھ ہیں لیکن بڑے تو سمجھ رکھتے ہیں ۔ بچوں کے ہاتھوں میں کاغذ اور قلم دیا جانا ضروری تو ہے لیکن کمپیوٹرکا استعمال بھی ناگزیر ہے ، تاہم یہ اختیاری مضامین کی طرح ہونا چاہیے۔
پرائمری سے ثانوی سطح تک کتب بینی اور لکھنے لکھانے کے کلچرکے فروغ کی ضرورت آج سر چڑھ کر بول رہی ہے تاکہ آنے والی نسلیں جڑی رہیں ۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ موجودہ دور انٹرنیٹ کا دور ہے،کاغذ اور قلم کا استعمال بتدریج کم ہو رہا ہے، عملی زندگی میں بھی یہ ضرورت بن چکا ہے لیکن جس طرح ہر چیزکی زیادتی بری ہوتی ہے اسی لیے انٹرنیٹ کا بلا ضرورت اور بے تحاشا استعمال طالب علموں (بچوں اور نوجوانوں کو دوسری مثبت سرگرمیوں سے دور لے جا رہاہے۔
ہمارے ہاں جدید ٹیکنالوجی (میڈیا، موبائل اور انٹرنیٹ وغیرہ) کے بے مہار ہوجانے کے بعد سیاسی عدم استحکام، تہذیبی تنزلی، اخلاقی پستی، معاشرتی بے حسی اور سماجی افرا تفری میں حد درجہ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور انفرادی واجتماعی طور پر سماجی اقدار، ادبی شغف، شوق، فنون، اخلاقی بلندی اور انسانی مقام سے بے بہرہ ہوکر سنسنی، افواہ گہری، پر تشدد رویوں، عدم برداشت اور غیر اخلاقی کلچر میں رچ بس گئے ہیں ۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ عوامی طور پر سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے میڈیا معاشرے میں تیزی سے عریانیت اور فحاشی پھیلانے اور ہماری مذہبی و معاشرتی اقدارکی تباہی میں بہت آگے نکل چکے ہیں، لیکن افسوس کے اس برائی کو روکنے کے لیے کوئی کچھ کرنے کو تیار نہیں ہو رہا۔ یوں وحید الہ آبادی کا یہ شعر اس صورتحال پر پوری طرح صادق آتا ہے کہ:
جب خدا سے شرم آتی ہی نہیں وقت گناہ
دیدہ انسان سے انسان کو حجاب آیا توکیا
اس بدعت، برائی یا بگاڑ کے خلاف ہر سطح پر بیان جاری کیے جاتے ہیں ۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں بھی پاس کردی جاتی ہیں، وزیراعظم کی طرف سے پیمرا کو ہدایت بھی دے دی جاتی رہیں لیکن اس کا آج تک کوئی اثر نہیں ہوسکا، یوں بے شرمی اور بے ہودگی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کا یہ زہر بڑی تیزی سے معاشرتی رگوں میں سرائیت کرتا جا رہا ہے۔
کاش ہم اس حقیقت کو جان پاتے کہ جو قومیں رقص وسرود، اخلاقی باختگی یا بے ہودگیوں کے مظاہروں میں مبتلا ہوجاتی ہیں وہ روح جہاد سے بھی محروم ہوجاتی ہیں اور اپنی فلاح و بہبود اور بقا کے لیے مسلح جدوجہد کو فراموش کردیتی ہیں ۔ نتیجے میں بہت جلد قصہ پارینہ بن جاتی ہیں ۔ ہمیں اپنے ملک کے پورے نام (اسلامی جمہوریہ پاکستان) کا بھی پاس نہیں رہا، اس لیے بھی کہ ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں قبر سے تو ڈرتے ہیں لیکن اپنے مالک حقیقی سے نہیں ڈرتے۔ حالانکہ اسلام میں اچھے اخلاق اور شرم و حیا کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور کہیں درحقیقت کسی بھی اسلامی معاشرے کی بنیادی شناخت کہی جاتی ہے۔
ایسے تو ہم میں بحیثیت قوم انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن کی درستگی کے ساتھ معاشرے کی کردار سازی پر ریاست کے ساتھ ساتھ ہر فرد کو بہت کام کرنا پڑے گا، لیکن مغربی دنیا کے برعکس شرم و حیا ہمارے معاشرے کا وہ سرمایہ تھا جس پر ہمیں ہمیشہ فخر رہا اور جس نے ہمیں دوسروں سے ممتاز اور نمایاں رکھا۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ معاشرے کی اخلاقیات کی تباہی میں اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ اب موبائل فون، معاشرتی خرابی، بگاڑ اور برائیوں کے علاوہ جنسی جرائم کی ایک بڑی اور اہم وجہ بن چکے ہیں ۔کیا ایسے میں اس اخلاقی بگاڑ کو روکنے کے لیے میڈیا، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت کو محسوس کیا جاسکتا ہے ؟
کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہم اپنی نسل نو کو ہر ٹیکنالوجی مہیا تو کررہے ہیں لیکن ان پر اپنی کمانڈ اینڈ کنٹرولنگ کی طرف ذرا بھی نگاہ نہیں کررہے، فیس بک پر اب لوگ اپنی تفریح گاہوں کی مصروفیت اور باہر کھانا کھانے کی تصاویر تک میڈیا پر ڈالنے لگے ہیں، لڑکیاں، لڑکے اپنی جدید اسٹائل کی تصاویر میڈیا پر ڈالنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں، قیمتی موبائل، قیمتی جدید اسلحے کی مطابق، ڈبل کیبن پک اپ اور مسلح گارڈز کی موجودگی تک کو سوشل میڈیا پر دکھایا یا پیش کیا جا رہا ہے اور ان چیزوں کے بغیر آج پاکستان میں طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی کسی شخصیت کا خاکے مکمل نہیں ہوتا۔
اس طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوانوں کی قیمتی اشیا بیش قیمت گاڑیاں اور نت نیا اسلحہ فیس بک پر ہزاروں تصاویر کی شکل میں موجود ہیں۔ دولت اور طاقت کی یہ نمائش پہلے دیہی علاقوں کا خاصا سمجھی جاتی تھی۔ لیکن اب یہ شہروں اور عام گلی کوچوں میں بھی جا بجا نظر آنے لگی ہے۔ سوشل میڈیا پر جنسی استعمال کی ادویات کے اشتہار اور مزدوروں کے اختلاط تک کے طریقے موجود ہیں اور یہ سب کا سب ہمارے اخلاقی بگاڑ اور تنزلی کا پرچار نہیں کررہا تو پھر کیا کر رہاہے؟ کیسا المیہ ہے کہ تاریخ علم و دانش میں ہمارا نام ایک علم دشمن قوم کے طور پر لکھا جائے گا ایک ایسی قوم جو علم دشمن ہی نہیں محسن کش بھی ہے۔
ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ انسان ہونا ہمارا انتخاب نہیں یہ اللہ کی عطا ہے لیکن خود میں انسانیت پیدا کرنے کا اختیار ہمارے رب نے ہمیں ضرور بخشا ہے۔ غلط کاموں کی پردہ پوشی یا اس حوالے سے خاموشی بہت بڑا جرم ہے اور دیکھا جائے تو اس ملک میں سب سے بڑا جرم ''خاموشی'' ہی ہے۔
ظلم، زیادتی کو دیکھ کر خاموش رہنا، ظلم اور برائی کی مدد کرنے کے مترادف ہے ہمارے رب کو خاموشی کے مجرم اچھے نہیں لگتے۔ وہ انھیں سزا کے طور پر بے حس بنادیتا ہے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بے حسی انسانی صفات میں شامل نہیں یہ تو حیوانات کی خاصیت ہوتی ہے۔
افسوس ہم سبھی بے حسی، بے بسی اور لاچارگی کے صحرا میں اپنی زندگی تمام کرنے لگے ہوئے ہیں اور ہم صحرائی لوگ موسموں کا جبر سہتے سہتے اپنوں کا جبر سہنا بھی سیکھ جاتے ہیں۔ ہم اکثر اپنے بدن کے صحرا میں جھلستے رہتے ہیں اور باطنی دنیا میں ایک نامعلوم مسافت میں رہتے ہیں، سفر بھی روزکرتے ہیں اور جانا بھی کہیں نہیں ہوتا ۔