سندھ کی جامعات
صفائی کے ناقص انتظامات سمیت انفرااسٹرکچر کی تعمیر و مرمت نہ ہونے کے برابر ہے
اس ہفتہ سندھ کی جامعات کے مسائل سے متعلق روزنامہ ایکسپریس میں بڑی خبریں شائع ہوئیں، جس میں ایک 'فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) سندھ چیپٹر' کے ذمے داران کی پریس کانفرنس اور دوسری جامعہ کراچی کے گمبھیر مسائل پر اسٹاف رپورٹر کی ایک بڑی پانچ کالمی خبر تھی۔ اسٹاف رپورٹر کی خبر میں بتایا گیا کہ جامعہ کراچی کا موجودہ کیمپس اپنی تعمیر کے چھٹے عشر میں تباہی سے دوچار ہے، جامعہ کراچی میں سیکیورٹی کیمرے خراب ہیں، سڑکوں کا انفرااسٹرکچر تباہی کے دہانے پر ہے، پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ موجود نہیں، بیشتر تدریسی عمارتیں خستہ حال ہوچکی ہیں، پانی کی لائنوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ناپید سیوریج نظام کے باعث یونیورسٹی انفرااسٹرکچر کو شدید خطرات لاحق ہیں، رہائشی علاقے سے زمین دھنس رہی ہے، جب کہ رہائشی انفرااسٹرکچر پرانے آثار کا نقشہ پیش کررہا ہے۔
صفائی کے ناقص انتظامات سمیت انفرااسٹرکچر کی تعمیر و مرمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کی صف اول کی جامعہ کے اس کیمپس کی کچھ عمارتیں اور بعض مقامات کسی سرکاری اسکول یا پھر کسی دور دراز کی مضافاتی بستی کا منظر معلوم ہوتے ہیں۔ انفرااسٹرکچر کی بحالی کے لیے یونیورسٹی کی نظریں سرکاری فنڈ پر مرکوز ہیں، تاہم یونیورسٹی انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے نام پر وفاقی یا صوبے کی انتظامیہ سے کسی قسم کا فنڈ لینے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ تقریباً 1400 ایکڑ اراضی پر پھیلی جامعہ کراچی کی سڑکیں یوں تو جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں تاہم یونیورسٹی کے بوائز ہوسٹل سے ہوتی ہوئی سیمسٹر سیل اور ویژوول اسٹڈیز سے پوسٹ آفس تک آنے والی سڑک گڑھوں میں تبدیل ہوچکی ہے، ان سڑکوں پر ٹریفک کا چلنا ناممکن ہوگیا ہے اور اکثر اوقات لوگ اپنی گاڑیاں کھڑی کرکے ان راستوں پر پیدل سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ سڑکیں پتھریلے راستوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔
اسی طرح کی صورتحال کا سامنا طلبا کو بھی کرنا پڑتا ہے جو یونیورسٹی کے کسی بھی شعبے سے یہاں سے گزریں۔ شعبہ ابلاغ عامہ، کمپوٹر سائنس اور فارمیسی سمیت بہت سے شعبہ جات جانے والی سڑکیں بھی گڑھوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ جامعہ کراچی کے رہائشی علاقے میں بھی تقریباً تمام ہی سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں اور جگہ جگہ گڑھے بن گئے ہیں۔ سیوریج لائنوں کا پانی بھی جگہ جگہ جمع نظر آتا ہے، جب کہ ایچ ایس سی کے فنڈ سے بننے والی کئی عمارتوں کی سیوریج لائنز کسی بڑی سیوریج لائن سے نہیں ملتیں، بلکہ ان شعبوں کے قریب بڑے بڑے تالاب (جوہڑ) بنا کر کام چلایا گیا ہے، جب کہ ''اکیڈمک ایریاز'' کے نالوںکی صفائی نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سابق شیخ الجامعہ کراچی ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کے دور میں اساتذہ کی رہائش کے لیے تعمیر کیے گئے فلیٹ کی ایک بڑی تعداد آج تک خالی پڑی ہے۔ کروڑوں روپے سے تعمیرکی گئی یہ عمارت حتمی کام نہ ہونے کے باعث ناقابل استعمال ہے۔ کلیہ فنون اور علوم کے شعبہ جات اور راہداریاں اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں کہ چھتوں سے پلستر گر رہا ہے۔ کھیل کے میدان الگ زبوں حالی کا شکار ہیں۔
جامعہ کراچی کے مسائل کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایکسپریس اخبار کی یہ خبر بہت طویل ہے، اگر اس میں پیش کیے گئے تمام مسائل یہاں تحریر کیے جائیں تو کالم بھی کئی اقساط میں لکھنا پڑے گا۔ دوسری خبر فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) سندھ چیپٹر کے ذمے داران کی پریس کانفرنس کی ہے، اس میں بھی نمائندوں نے جن مسائل کا ذکر کیا ہے اس کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان نمائندوں کا مطالبہ ہے کہ ایچ ایس سی سندھ کی کارکردگی میں اضافہ کیا جائے اور ماضی میں ان نمائندوں سے کیے گئے وعدے وفا کیے جائیں، ان کے بیشتر مطالبات میں سے چند یہ ہیں کہ وعدے کے مطابق ''ہارڈشپ کیسز کا فیصلہ جلد از جلد کیا جائے، پی ایچ ڈی الاؤنس دینے کے لیے گرانٹ کا فوری اجرا کیا جائے اور ایم فل الاؤنس ساڑھے بارہ ہزار روپے مقرر کیا جائے''۔ ان نمائندوں نے جامعات کی زمینوں پر قبضے کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور سرکاری جامعات کو بیل آؤٹ پیکیج جاری کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ فپواسا کے صدر پروفیسر ڈاکٹر جمیل کاظمی کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ جس طرح اس ملک میں ججز، فوجی اور صحافی بھائیوں کے لیے رہائشی قطعہ اراضی انھیں دی جاتی ہے، اساتذہ کو بھی دی جائیں۔
راقم کے خیال میں اخبارات میں اس قدر تفصیل سے سندھ کی جامعات خصوصاً جامعہ کراچی کے مسائل منظر عام پر آنے کے بعد نہ صرف سندھ حکومت بلکہ وفاقی حکومت کو بھی اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دینی چاہیے، کیونکہ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں جامعات کا بڑا کردار ہوتا ہے اور علمی و تحقیقی سرگرمیاں ہی ملکی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہیں۔ نئی حکومت خاص کر نئے وزیراعظم عمران خان تو اپنی انتخابی مہم سے بہت پہلے ہی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے باتیں کرتے رہے ہیں اور اب جب کہ وہ خود وزیراعظم بن چکے ہیں اور خبریں آرہی ہیں کہ وہ عنقریب کراچی آکر کراچی والوں کو کوئی اچھا تحفہ دے کر خوش کریں گے تو وہ ضرور اپنا پروگرام جاری رکھیں، مگر جامعات کے مسائل کو ضرور سنجیدگی سے اور ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ڈاکٹر عاصم نے فپواسا سے اپنی پہلی ہی ملاقاتوں میں بہت اچھا تاثر دیا تھا اور مسائل کے حل کے لیے یقین دہانی بھی کرائی تھی، ان پر بھی یہ اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کیے گئے وعدوں کو وفا کریں۔ ویسے بھی راقم کے خیال میں فپواسا کی جانب سے کیے گئے تمام مطالبات جائز ہیں اور کچھ تو ان میں سے وہ مطالبات ہیں جو 'انسانی حقوق' میں بھی آتے ہیں اور شہری ہونے کے ناتے بھی ان کا بنیادی حق بنتا ہے، مثلاً یہ مطالبہ کہ اساتذہ کو ان کی رہائش کے لیے اسی طرح قطعہ اراضی فراہم کیا جائے جس طرح اس ملک کے ججز، فوجیوں اور صحافیوں کو دیا جاتا ہے۔
(حقیقت تو یہ ہے کہ اگر استاد نہ ہوتے تو یہ لوگ بھی نہ ہوتے)۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مطالبہ صرف اساتذہ کا ہی نہیں پورے ملک کا ہے کیونکہ یہ تمام عوام کا حق ہے اور پی پی پی کی حکومت کو تو سب سے پہلے اس مطالبے کو پورا کرنے کے لیے قدم بڑھانا چاہیے، اس لیے بھی کہ یہ قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کا نعرہ تھا، انھوں نے ہی اس ملک کے عوام کو پہلی بار ''روٹی، کپڑا اور مکان'' کا نعرہ دیا تھا اور محترمہ شہید بینظیر بھٹو بھی اسی نعرے کی امین رہیں، اب وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کو چاہیے کہ وہ اپنی پارٹی کے اس نعرے کی لاج رکھتے ہوئے فپواسا کی جانب سے کیے گئے قطعہ اراضی کی فراہمی کے مطالبے کو فوری طور پر منظور کرکے اساتذہ کو خوشخبری سنائیں۔ ہمیں پوری امید ہے کہ حکومت سندھ اپنی پارٹی کے شہید رہنما ذوالفقارعلی بھٹو کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے کوئی عملی قدم جلد از جلد اٹھائے گی اور عمران خان بھی نہ صرف کراچی بلکہ اس شہر اور ملک کی سب سے بڑی جامعہ کراچی کے لیے کسی بڑے بیل آؤٹ پیکیج اور منصوبے کا اعلان کریں گے۔ ہم منتظر ہیں۔