اشرافیہ خوشحالآزاد با اختیار ہے
خلیل جبران لکھتا ہے اگلے روز میں شہر سے باہر نکلا اورکھیتوں کی جانب روانہ ہوا جہاں ایسی خاموشی طاری ہوتی ہے جس ۔۔۔
ISLAMABAD:
خلیل جبران لکھتا ہے اگلے روز میں شہر سے باہر نکلا اورکھیتوں کی جانب روانہ ہوا جہاں ایسی خاموشی طاری ہوتی ہے جس کی تمنا روح کرتی ہے اور جو روح کی غذا ہے اور جہاں خالص آسمان مایوسی اور نا امیدی کے ان جراثیموں کو ہلاک کرڈالتا ہے جو شہروں کی تنگ گلیوں میں جنم لیتے ہیں اور پرورش پاتے ہیں ۔ جب میں وادی میں جا پہنچا تو میں نے دیکھا کہ آسمان کوئو ں اورگدھوں سے بھرا پڑا تھا اور ان کے پروں کے پھڑپھڑا نے کی آواز زمین پر سنائی دے رہی تھی ۔ جونہی میں مزید آگے بڑھا میں نے دیکھا کہ ایک شخص کی لاش ایک اونچے درخت پر لٹک رہی تھی ۔
یہ لاش ایک عورت کا برہنہ جسم تھا جو پتھروں کے ایک ڈھیر کے درمیان معلق تھا اور ایک نوجوان شخص کی لاش بھی پڑی تھی جس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا تھا اور وہ خون میں لت پت زمین پر پڑی تھی ۔یہ ایک خوفناک منظر تھا جس نے میری آنکھوں کے سامنے غم اور افسوس کا ایک تاریک نقاب ڈال دیا تھا ۔میں نے چاروں اطراف میں نگا ہ دوڑائی لیکن مجھے کچھ نظر نہ آیا ماسوائے رقص کرتی ہوئی موت جو ان لاشوں کے گرد ہنوز رقص کررہی تھی ۔ مجھے کچھ بھی سنائی نہ دے رہاتھا ماسوائے عدم وجود کی آہ و زاری کے جن میں ان کوئو ں کی کائیں کائیں بھی شامل تھی جو انسانی قوانین کے شکاروں کے اوپر منڈلا رہے تھے ۔ وہ انسان جو کل تک زندگی کی آغوش میں تھے آج موت کی آغوش میں جا سوئے تھے کیونکہ انھوں نے انسانی معاشرے کے قوانین توڑے تھے ۔
جب ایک انسان دوسرے انسان کو ہلاک کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ وہ ایک قاتل ہے لیکن جب امیر اسے ہلاک کرتا ہے تو امیر حق بجا نب قرار دیا جاتا ہے جب ایک انسان خانقاہ میں چوری کرتا ہے تو لو گ کہتے ہیں کہ وہ ایک چور ہے لیکن جب امیر اس کی زندگی چرالیتا ہے اس کے باوجود وہ امیر قابل احترام اور معزز ہے جب ایک عورت اپنے خاوند کے ساتھ بے وفائی کرتی ہے لوگ کہتے ہیں کہ وہ بدکار ہے اور جب امیر اسے برہنہ کرکے گلیوں میں پھراتا ہے اور اس پر پتھروں کی بارش کرواتا ہے تو امیر شریف اور معزز ہے ۔ خون بہانا منع ہے ممنوع ہے لیکن کس نے اس فعل کو امیر کے لیے جائز قرار دیا ہے؟ کسی کی دولت چرانا ایک جرم ہے لیکن کسی کی جان لینا ایک شریفانہ اقدام ہے ۔ خاوند سے بے وفائی کرنا ایک مکروہ فعل ہو سکتا ہے ۔ کیا ہم برائی کو برائی سے مٹانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک قانون ہے ؟ کیا ہم بدعنوانی کے خلاف اس سے بڑی بدعنوانی سے لڑیں گے اور کہیں گے کہ یہ انصاف ہے ؟
کیا ہم بڑے جرائم کے ذریعے جرائم پر فتح حاصل کریں گے اورکہیں گے کہ یہ عین انصاف ہے ؟ کیا امیر نے اپنی گزشتہ زندگی میں اپنے کسی دشمن کو ہلاک نہیں کیا تھا ؟ کیا اس نے اپنی کمزور رعایا کی دولت اور جائیداد نہیں لوٹی ؟ کیا وہ بدکاری کا مرتکب نہیں پایا گیا تھا ؟ کیا وہ معصوم تھا اور خطا سے بری تھا جب اس نے قاتل کو ہلاک کیا اور چورکو درخت کے ساتھ لٹکایا اور بدکار عورت پر پتھر برسائے؟ وہ کون ہے جنھوں نے ایک چور کو درخت پر لٹکایا ؟قانون کیا ہے ؟ کس صدی میں فرشتوں نے انسانوں کے درمیان چہل قدمی کی اور ان کو یہ درس دیا ''غریب کو زندگی کی مسرتوں سے لطف اندوز ہونے سے روک دو اور قانون کی حمایت سے محروم کو تلوار کی تیز دھار سے ہلاک کردو اورگناہ گاروں کو آہنی پائوں تلے کچل دو ۔'' ''زمین سبزیاں اگاتی ہے بھیڑیں ان سبزیوں کو کھاتی ہیں۔ بھیڑیا،بھیڑ کو کھا جاتا ہے جب کہ سانڈ بھیڑیے کو ہلاک کردیتا ہے اور شیر سانڈ کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ کیا کوئی ایسی طاقت موجود ہے جو موت پر غلبہ حاصل کرسکے گی ؟
کیا کوئی ایسی طاقت موجود ہے جو تمام بدصورت چیزوں کو خوبصورت چیزوں میں تبدیل کرسکتی ہے ؟ کیاکوئی ایسی طاقت موجود ہے جو زندگی کے تمام تر عناصرکو خوشیوں سے ہمکنارکردے جس طرح سمندر خوشی خوشی تمام تر چشموں کو اپنی گہرائی میں سمو لیتا ہے؟ کیا کوئی طاقت ایسی ہے جو مجرموں کو اس عدالت میں پیش کرسکے جو امیرکی عدالت سے برتر ہو؟'' اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کے مطابق انسان کو قتل کرنے کی سزا موت ہے ہر وہ انسان جس سے یہ گناہ کبیرہ سر زد ہوجائے وہ قانون کے مطابق موت کا حق دار ہے اب جب کہ اقوام متحد ہ نے یہ کہہ دیا ہے کہ جو بچے بھوک سے مرجاتے ہیں وہ قتل کے زمرے میں آتے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے 65سال کے دوران ہزاروں لوگوں اور بچوں نے بھوک اور غربت سے تنگ آکر خود کشیاں کی ہیں ہزاروں بچے بھو ک سے تڑپ تڑپ کر مر گئے ان کی موت کے ذمے دار کون ہیں۔
ان معصوم اور بے گناہوں کے خون کی ذمے داری ابھی تک کیوں کسی نے اپنے سر نہیں لی ہے پاکستان میں65سال کے دوران کروڑوں انسانوں کے خوابوں اور سپنوں کا جس طرح قتل کیاگیا ہے اور جس طرح انہیں بر باد کیا گیا ہے ۔ دنیا میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے اور جو لوگ ان کروڑوں انسانوں کے خوابوں ، سپنوں کے قاتل ہیں اور جو لوگ اور بچے بھوک کی وجہ سے مرچکے ہیں ان کے ذمے دار کون ہیں ان کے ذمے داروں کے لیے پاکستان کے قانون میں کیا سزا ہے معلوم نہیں اور سزا ہے بھی یا نہیں یہ بھی نہیں معلوم اور ان کی سزا کیا ہونی چاہیے ۔ معلوم نہیں ہمارے ملک کے کروڑوں انسانوں کو برباد کرنیوالے ان کو تباہ کرنے والے ان کی زندگیوں میں زہر بھر نیوالے قاتل آزاد ہیں پاکستان کی 65سالہ تاریخ میں ان قاتلوں کو کبھی سزا نہیں ملی۔پاکستان عوام کی جدو جہد اور قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہوا ۔
برصغیر کے عوام نے پاکستان بنانے کے لیے قربانیاں اپنی خوشحالی آزادی اور بااختیار ہونے کے لیے دی تھیں لیکن یہ عوام کی بد قسمتی تھی کہ ملک تو آزاد ہوگیا لیکن نہ تو عوام آزاد ہوسکے نہ خوشحال اور نہ ہی با اختیار ہوسکے ۔ اس کے بالکل بر عکس پاکستان پر قابض اشرافیہ جنھوں نے پاکستان بنانے کے لیے نہ تو کوئی قربانی دی تھی اور نہ ہی جدوجہد میں ان کا کوئی کردار تھا آزادی سے لے کر آج تک ملک کے سارے اختیارات اور وسائل کی مالک بنی بیٹھی ہے اسی اشرافیہ نے لوٹ مار کی انتہا کر رکھی ہے ۔ ملک میں صرف اشرافیہ خوشحال ہے آزاد ہے بے اختیار ہے جب کہ ملک کے اصل مالک 18 کروڑ عوام غلام ، کنگال اور بااختیار ہیں ۔
یہ اشرافیہ اپنی عیاشیوں میں اس قدر مست ہے کہ اسے یہ کروڑوں ترستے ، بلکتے ، تڑپتے انسان دکھائی نہیں دیتے ہیں اس اشرافیہ جس میں سردار ، چو ہدری ، وڈیرے، بیورو کریسی ، جاگیردار ، صنعت کار ، سرمایہ دار، بلڈر شامل ہیں ان تمام کی پرورش عیش و عشرت کے ساتھ ہوئی ہے یہ تمام وہ طاقتور اور امیرکبیر لوگ ہیں جن کا بھوک ، غربت، جہالت ،بیماری اور افلاس سے کبھی واسطہ نہیں پڑا ہے یہ سب کے سب زندگی کی تلخیوں اور دکھوں سے ہمیشہ دور رہے ہیں جنہیں یہ احساس تک نہیں ہے کہ ملک کا عام آدمی کس قدر تکلیف دہ اور اذیت ناک زندگی گذار رہا ہے۔ اس اشرافیہ میں کسی نے بھی غربت سے تنگ آکر فاقے نہیں کیے اگر اشرافیہ کا صرف ایک فرد صرف ایک دن کے لیے عام انسان بن جائے تو پھر اسے اس تلخ سچائی کا احساس ہوگا ۔