عمرے کا کوٹا کم کیوں
اسلام امن پسند مذہب ہے اور ہر انسان کو عزت سے جینے کا حق فراہم کرتا ہے، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیتا ہے
اسلام امن پسند مذہب ہے اور ہر انسان کو عزت سے جینے کا حق فراہم کرتا ہے، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیتا ہے، ساتھ میں عبادت کو بھی آسان ترین بنا دیا ہے، بے شک نماز دین میں 5 مرتبہ فرض ہے لیکن سفر کی حالت، بیماری یا معذوری میں فرض نماز ادا کرسکتا ہے، بیٹھ کر لیٹ کر اور اشاروں سے بھی نماز کی ادائیگی کو ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اپنے مالک کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا موقع میسر آسکے۔ جس طرح نماز فرض ہے، بالکل اسی طرح اﷲ ربّ العزت نے مسلمانوںکے لیے حج فرض کیا ہے، حج اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں حجاج کرام کعبے کے طواف اور روضہ مبارک کے دیدار کے لیے حاضر ہوتے ہیں، گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، جسے اﷲ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ ارکان حج کی ادائیگی کے بعد انسان اس قدر پاک اور نیک بن جاتا ہے جس طرح پیدائش کے وقت وہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے، معصوم و بے خطا، گناہوں اور خطاؤں سے بے خبر، اگر سچے دل سے توبہ کرلی جائے اور گناہوں سے بچنے کے لیے مصمم ارادہ کرلیا جائے تو زندگی بے حد آرام دہ گزرسکتی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ لوگ ایک نہیں دو، دو، تین، تین حج کرلیتے ہیں لیکن اخلاق و کردار میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی، دولت کی ہوس، رشتوں ناتوں سے انحراف، بددیانتی، جھوٹ، تکبر میں مبتلا رہتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے بھی اﷲ کے نیک بندے ہیں جو حج کی ادائیگی کے بعد بالکل بدل جاتے ہیں۔ پاکستانی جس بھی ملک میں قدم رکھتے ہیں انھیں ان کی اسی قسم کی عادات کی وجہ سے بے حد کمتر سمجھا جاتا ہے، یورپ میں رہنے بسنے والے بھی بعض اوقات پست کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پھر گرفتار کرلیے جاتے ہیں، ابھی ایک دو روز کی ہی بات ہے جب تین پاکستانی معصوم بچیوں کے اغوا و تشدد کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ چلیں یہ تو ذکر انگلینڈ کا ہے، یورپ میں تو ویسے ہی پاکستانیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو نسلی و مذہبی منافرت کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ بدنام بھی کیا جاتا ہے اور جسمانی و ذہنی تشدد کرنا بھی دلی تسکین کا باعث سمجھتے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک خصوصاً سعودی عرب جیسا ملک جسے اﷲ تعالیٰ نے عزت و وقار عطا کیا ہے وہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔ 28 مئی کی خبر کے مطابق سعودی حکومت نے پاکستانیوں کے لیے عمرے کا کوٹا کم کردیا ہے، اس سال تقریباً ایک لاکھ افراد اس عظیم سعادت سے محروم ہوجائیں گے، اب شعبان اور رمضان میں عمرے کے خواہشمند سوا لاکھ افراد عمرے کی ادائیگی نہیں کرسکیں گے، صرف 25 ہزار ہی جاسکیں گے۔ ماہ رجب میں 90 فیصد کوٹا کم کردیا گیا۔ کیا آپ اس کی وجہ بتاسکیں گے؟ ہم میں سے بے شمار لوگ صاحب بصیرت ہیں، انھیں حقائق کا علم ہے، مسلمانوں کے اخلاق و کردار سے اچھی طرح واقف ہیں، انھیں اس بات کا اندازہ ہے کہ پاکستانیوں کو طمع و لالچ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔
جہاں جاتے ہیں ایک داستان چھوڑ جاتے ہیں، بے شمار غیر قانونی کام بڑی آسانی سے کر ڈالتے ہیں، انجام کا سوچے بنا کہ ان کی اس قسم کی مذموم حرکات سے انھیں کن حالات کا سامنا کرنا ہوگا، پورا گھرانہ برباد ہوجائے گا اور ملک کے وقار کو ٹھیس پہنچے گی، مسلمان قوم مزید بدنام ہوگی، اپنے انہی کارناموں کی وجہ سے آئے دن سعودی قوانین کے تحت جان سے چلے جاتے ہیں، گردن تن سے اڑا دی جاتی ہے اور یہ سب کچھ آناً فاناً ہوتا ہے جہاں ثبوت کے ساتھ جرم ثابت ہوا وہیں اسے سزا دینے کا اہتمام دھوم دھام سے کردیا گیا۔ لوگ جمعہ کے مبارک دن جمع ہوگئے اور مجرم کی اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چھٹی کردی گئی۔ اسی وجہ سے لوگوں کو عبرت ہوتی ہے اور وہ چوری، ڈکیتی، اغوا اور گھناؤنے کاموں سے بچے رہتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔
یہاں تو 10-10 لوگوں کے قاتل کو گرفتار کرنے کی کسی میں ہمت نہیں، ہر روز باقاعدگی کے ساتھ قتل و غارت کا بازار گرم رہتا ہے۔ جنازے اٹھائے جاتے ہیں، فضائیں سوگ اور آہ و بکا سے غمناک ہوجاتی ہیں۔ قانون کی سب سے بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ چشم دید گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد سچ اور جھوٹ سامنے آجاتا ہے لیکن مجرموں کو سزا نہیں سنائی جاتی ہے بلکہ مجرم صاحب حیثیت اور اثر و رسوخ والا ہے تب تو بات ہی کیا، لعنت ملامت تو دور کی بات بلکہ ان کی خاطر داری کی جاتی ہے، ان کے تمام شوق پورے کیے جاتے ہیں اور اگر مجرم غریب اور کم حیثیت والا ہو تو معمولی سے جرم میں ہی پولیس تشدد کرکے محض شک کی بنیاد پر اس کی جان لے لیتی ہے، اسی دہرے معیار، غیر منصفانہ رویے نے ظالموں کے حوصلے بڑھا دیے ہیں، ملک اور ملک کے باسی پوری دنیا میں حقارت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
عمرے کا کوٹا سعودی عرب نے یوں ہی تو کم نہیں کردیا ہے بلکہ اس کی ٹھوس وجہ بیان کی گئی کہ پاکستانی اور عراقی عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے اور پھر واپس نہیں آئے اور جب اس حقیقت سے سعودی حکام واقف ہوئے، تب انھوں نے زائرین کی تعداد ہی کم کردی۔ بڑے ہی دکھ کی بات ہے اتنی مقدس جگہ پر جاکر بھی محض لالچ کی بنا پر بددیانتی اور قانون شکنی کا ثبوت دینے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے ہیں۔ کتنے حضرات ایسے ہیں جو عمرہ و حج محض تجارت کی وجہ سے کرتے ہیں، ادھر کا مال ادھر اور ادھر کا مال ادھر، اچھا خاصا منافع کمالیتے ہیں اور حج و عمرہ بھی ہوجاتا ہے، ہم نے ایسے بھی بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ جو اتنی مبارک جگہ سے واپسی کے بعد بھی جوں کے توں رہتے ہیں مجال ہے جو اخلاقی تقاضوں کو مدنظر رکھیں بلکہ تکبر و غرور میں مبتلا ہوکر اپنے سے کم درجے کے لوگوں سے برا سلوک کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
اسلام کے پانچوں ارکان کی ادائیگی سے دین و دنیا کا کامیاب ترین انسان بن سکتا ہے، اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اسلام کی روح کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مسلمانوں کا گیٹ اپ کرنے والوں کو اپنے اخلاق بھی اچھا رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ انسان مذاق کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اکثر سنا ہوگا کہ باریش ہوکر بھی خریدوفروخت میں اس قدر بے ایمانی؟ حرام حلال کی تمیز نہیں اسلام سے ناواقف اور اپنی طرف سے فتوے دینے کا بے حد شوق، ایسی ایسی باتیں اسلام میں شامل کرلی گئی ہیں جس کا دین سے تعلق ہی نہیں۔پچھلے سال کے حج کرپشن نے رہی سہی عزت اور غیرت مسلمانی کو بے حد ٹھیس پہنچائی، پہلے ذمے داران کو گرفتار کیا اور پھر چھوڑ دیا گیا، یہ حال ہے ہمارے ملک کا کہ حج کی رقم پر بھی نگاہ رکھتے ہیں اور آخر کار اپنا مقصد حاصل کرلیتے ہیں۔ کہاں کا مذہب؟ اور کیا دین؟ کیا ایسے لوگوں کو جو منشیات کا کاروبار اور دواؤں میں خوب ملاوٹ کریں اور موت کی تقسیم کے بدلے خوب خوب دولت کمائیں۔ ''ایفی ڈرین کیس'' بھی ایسا ہی ایک کیس تھا، جس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے لیکن بڑے مجرم آزاد رہتے ہیں اور چھوٹے مجرموں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے کیا قانون اسی عمل کو کہتے ہیں؟
پاکستان سے کہیں زیادہ ہندوستان میں حاجیوں کے لیے سہولتیں بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ وہاں کرایہ بھی کم ہے، بہت کم رقم میں حج و عمرہ پیکیج آسانی سے مل جاتا ہے، کم آمدنی والے بھی مدینہ منورہ کی رحمتوں، برکتوں سے فیض یاب ہوجاتے ہیں۔ اپنی گناہ گار آنکھوں سے اﷲ کے گھر کا دیدار کرلیتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں معمولی آمدنی والا حج و عمرے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ظاہر ہے لاکھوں کا معاملہ ہے۔ لیکن اﷲ کی مہربانی اور کرم نوازی جس پر ہو، وہ اس مقدس و متبرک پاک سرزمین پر قدم رکھ ہی دیتا ہے اور اﷲ کی رحمتوں اور روضہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوجاتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو پانچواں رکن ادا کرتے ہیں اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی کی دل آزاری نہیں کرتے کہ اخلاق ایمان کا حصہ ہے۔