نئے حکمرانوں کے لیے ایک سبق
کرپشن اِس ملک کے اداروں کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ محض اپوزیشن کی سیاست کا ہمیشہ سے ہتھیار رہا ہے۔
پاناما لیکس سے شروع ہونے والا احتساب میاں نواز شریف سے شروع ہوا اور نواز شریف پر ہی ختم ہوگیا ۔ باقی سارے 500 ملزمان میں سے کسی ایک کو بھی چھیڑا نہیں گیا ۔آج تقریبا ڈھائی سال ہونے کو آئے ہیں لیکن آف شورکمپنی رکھنے والے ہمارے کسی با اثر شخص سے اِس سلسلے میں کوئی سوال تک نہیں کیا گیا ۔
جب اِس ایشو پر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہو رہے تھے اور ٹی او آرز طے کیے جا رہے تھے، تو سابق حکمرانوں کی جانب سے یہی تحفظات اور خدشات ظاہرکیے جا رہے تھے کہ یہ کھیل صرف میاں نواز شریف کے خلاف کھیلاجا رہا ہے اور پانچ سو ملزمان میں سے کسی اورکے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔ لہذا اگر اِس ایشوکو لے کرکوئی کارروائی کرنی ہے تو سارے لوگوں کے خلاف ایک ساتھ شروع کرنا ہو گی۔
پاناما لیکس میں نامزد ملزمان میں سے میاں نواز شریف کا نام تو براہ راست لیا بھی نہیں گیا تھا، جب کہ ہمارے کئی اور سیاستداں ایسے تھے جن کی ایک نہیں کئی کئی آف شورکمپنیاں ظاہرکی گئی تھیں، مگر ہم سب نے دیکھا کہ بالآخر ہوا وہی کہ جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ یعنی میاں نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی اور داماد کو تو اڈیالہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا لیکن اور کسی ملزم کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہوئی۔
پاناما کیس کی آڑ میں میاں نواز شریف کو جس طرح پہلے اقامہ رکھنے کے جرم میں نا اہلی کی سزا سنائی گئی اور فوراً سے پیشتر اقتدار سے محروم کیا گیا اور بعد ازاں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس میں دس سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا وہ بادی النظرمیں کمزور فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعبہ قانون سے تعلق رکھنے والے بہت سے دانشوروں کی رائے اِس فیصلے سے مطابقت نہیں رکھتی۔
میاں نواز شریف آج کل جس کرب اور ابتلا سے گزر رہے ہیں، وہ اُن کے چہرے سے پوری طرح عیاں ہو رہا ہے۔ دو ڈھائی مہینے کی قید نے اُن کی جسمانی اور ذہنی حالت پر بہت گہرے اثرات اور نقوش چھوڑے ہیں۔ اُن کی مجبوری ہے کہ عدالتی پابندیوں کے وجہ سے وہ اپنا دکھ اور اپنا کرب بھی میڈیا سے شیئر نہیں کر سکتے۔ شریک حیات کے ناگہانی وفات نے اُن کے اِس کرب میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔ وہ اپنی اہلیہ کلثوم کی زندگی کے آخری لمحات میں اُس کے قریب نہ تھے۔ سب سے بڑھ کر وہ اپنی بہت ہی عزیز اور پیاری بیٹی کو بھی اِن محرومیوں سے بچا نہ سکے۔ اپنی اولاد سے بے پناہ پیارکرنے والے باپ کے لیے سب سے تکلیف دہ مرحلہ یہی ہوتا ہے کہ اُس کی اولاد بھی جیل میں ہو اور وہ اُس کے لیے کچھ نہ کر سکے۔
میاں نواز شریف جانتے ہیں کہ تکلیف کے یہ دن بھی ختم ہو جائیں گے اور وہ باعزت طور پر رہا بھی ہو جائیں گے ، لیکن جب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ اُن سے چھینا گیا وقت واپس نہیں آئے گا۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹوکو ایک عدالتی فیصلے کے تحت پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور آج اُس فیصلے کو خود عدلیہ سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ عدالتی قتل قرار دے رہے ہیں لیکن اِن سب اعترافی بیانوں اور پشیمانیوں کا کیا فائدہ جب بھٹو ہی اپنی زندگی سے چلا گیا۔ جس شخص نے اِس ملک کو ایٹمی پروگرام دیا ہم نے اُسے ہی اپنی زندگیوں سے نکال باہر کیا ۔
اِسی طرح جس نے اِس ملک کو ایٹمی ریاست کا درجہ دلایا ہم نے اُسے بھی عبرت کا نشان بنا دیا ۔ اِس فیصلے کے خلاف ایک اپیل کی سماعت آج کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں کی جا رہی ہے اور بہت امکان ہے ان کی ضمانت ہو جائے مگر ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اِس ساری کارروائی کے نتیجے میں نقصان کس شخص کا ہوا اور وصول کنندہ کون رہا ۔ اب اگر فیصلہ واپس بھی ہوتا ہے تو نواز شریف رہا تو ہو سکتے ہیں لیکن کیا واپس وزیراعظم بنائے جا سکتے ہیں، جواب یقینا نفی میں ہوگا۔
ایسی صورتحال میں ہم کس کو مورد الزام ٹہرائیں۔ ہماری مجبوری ہے کہ ہم کچھ بول نہیں سکتے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ہم آج جس شخص کو اپنے ووٹوں سے اپنا وزیراعظم منتخب کرتے ہیں وہ کتنے دن ہمارا وزیر اعظم رہے گا۔ اُسے خود اپنے مستقبل کا کچھ پتہ نہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں اگر کسی نے بے خوف وخطر حکمرانی کی ہے تووہ صرف غیر جمہوری حکمرانوں نے کی ہے۔ انھیں دس دس سال بلاشرکت غیرے اور بلا روک ٹوک حکمرانی کرنے کا موقعہ ملتا رہا ہے، وہ اگر عوام کے دباؤ پر اقتدار چھوڑنے پر رضامند بھی ہوئے تو بعد میں کسی نے اُن کا احتساب تک نہیں کیا۔ جس نے بھی یہ جرأت رندانہ دکھانے کی کوشش کی، اُسے نشان عبرت بنادیا گیا۔
ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے حوالے سے احتساب عدالت کی جانب سے کیا جانے والا فیصلہ بھی میاں صاحب کی کسی مبینہ کرپشن کو ثابت نہیں کر رہا۔ ویسے بھی کرپشن اِس ملک کے اداروں کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ محض اپوزیشن کی سیاست کا ہمیشہ سے ہتھیار رہا ہے۔ میاں نواز شریف بھی اگر یہی کام کرتے تو شاید آج بھی برسراقتدار رہتے ۔یہی سبق نئے آنے والے حکمرانوں کے لیے بھی ہے۔ وہ جب تک مفاہمت اور تابعداری کے اصولوں کو اپنائے رکھیں گے کوئی بھی انھیں نہیں ستائے گا، بلکہ اُن کی راہ میں آنے والی تمام مشکلیں بھی دورکی جاتی رہیں گی، یہی آج کا سبق ہے۔ جس نے بھی یہ سبق یاد کر لیا وہی اِس ملک کا سلطان ٹھہرا ۔