سول سوسائٹی پر پابندیاں
غیر ریاستی ادارے جو تاریخ میں ’’ سول سوسائٹی‘‘ کہلاتے ہیں جمہوری نظام کا ایک اہم جز ہیں۔
لاہور:
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرداں غیر ریاستی ادارے پھر زیرِ عتاب آگئے۔ اب نئے حالات کے تناظر میں سول سوسائٹیز آرگنائزیشن پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔ یہ پابندیاں سول سوسائٹی کی تنظیموں کی انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق سرگرمیوں سے متعلق ہیں۔
غیر ریاستی ادارے جو تاریخ میں '' سول سوسائٹی'' کہلاتے ہیں جمہوری نظام کا ایک اہم جز ہیں۔ معروف فلسفی گرامی نے سول سوسائٹی کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹریڈ یونین، تعلیمی ادارے اور خاندان سب سول سوسائٹی کا حصہ ہوتے ہیں۔ ممتاز صحافی اور انسانی حقوق کی تحریک کے روح رواں آئی اے رحمن نے ان تمام تنظیموں کو سول سوسائٹی کا حصہ قرار دیا تھا جو ریاست کا حصہ نہیں مگر روشن خیالی کی تحریک میں کردار ادا کرتی ہیں۔
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کاکہنا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی سفارش پر عملدرآمد کرتے ہوئے ان تنظیموں پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔ پاکستان میں سول سوسائٹی کی تنظیمیں شہریوں کی زندگی کے حق، عقیدے کی آزادی، آزادئ اظہار، شہریوں کے تعلیم کے حق، خواتین کی برابری، ٹریڈ یونین کی آزادی، غیر مسلم شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک ، بچوں اورتیسری جنس کے حقوق جیسے اہم موضوعات پر آگہی کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ ان تنظیموں کے درجنوں کارکن شہریوں کے بنیادی حقوق کی جدوجہد میں اپنی جانیں نثارکرچکے ہیں۔
یہ قربانیاں ان کارکنوں نے قبائلی علاقوں سے لے کر گوادر تک کے علاقوں میں دی ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے ان مذہبی انتہاپسندی کی تنظیموں پر پابندی پر زور دیا ہے جو ملک میں اور پڑوسی ممالک کے دہشت گردی کی تنظیموں میں ملوث ہیں۔ ان تنظیموں کی بناء پر نہ صرف ملک میں اقلیتوں اور ان تنظیموں کے خلاف مزاحمت کرنے والے عناصر کی زندگیوں کو خطرہ ہے بلکہ پڑوسی ممالک میں ہونے والی دہشت گردی کی بناء پر ملکوں کے درمیان کشیدگی اور جنگ کی فضاء پیدا ہونے کی خدشات بڑھ گئے ہیں ۔
پاکستان میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کا تاریخی کردار 90ء کی دہائی سے اجاگر ہوتا ہے ۔ یہ وہ وقت تھا جب سوویت یونین تحلیل ہوگیا تھا۔ دنیا میں طاقت کا توازن بگڑگیا تھا۔ اب امریکا اور اس کے اتحادی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے، مگر سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ سرد جنگ کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ دنیا بھر میں جمہوری نظام کی اہمیت واضح ہو رہی تھی۔ سوویت یونین کے خاتمے اور سرد جنگ ختم ہونے سے امریکا کو فوجی ڈکٹیٹروں کی سرپرستی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
سیاسی جماعتوں پر ذرایع ابلاغ پر عائد پابندیاں ختم ہورہی تھیں ۔ سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی کمیونسٹ پارٹی کلچر بھی اختتام پذیر ہوچلا تھا۔ بہت سے کارکن اپنی زندگیاں انقلاب کے نام پر وقف کرنے والے خوابوں کے بکھرنے سے ذہنی انتشار کا شکار تھے۔ اس ماحول میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سول سوسائٹی کا کردار ابھرکر سامنے آیا ۔
سول سوسائٹی کی تنظیموں کے کارکن جمہوریت، سیکیولر ازم ، تمام شہریوں کے یکساں حقوق، خواتین کی آزادی جیسے مسائل کے بارے میں واضح سوچ رکھتے تھے، یوں ان تنظیموں نے زندگی کے ہر شعبے میں روشن خیالی کی تحریک شروع کی۔ یہ تحریک پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام ستونوں پر بالادستی، ہر شہری کو انصاف کی فراہمی سے لے کر تیسری جنس کے حقوق اور پڑوسی ممالک سے دوستانہ تعلقات تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس تحریک کے نامور رہنماؤں عاصمہ جہانگیر، آئی اے رحمن، حسین نقی اور حنا جیلانی جیسے لوگوں کے نام شامل ہیں۔
سول سوسائٹی کا ایک اہم کردار پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان روابط قائم کرنا تھا۔ یہ کردار اسی بناء پر تھا کہ میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کی بناء پر دونوں ممالک کے عوام کے ذہنوں میں منفی رجحانات پائے جاتے ہیں، مگر ان تنظیموں کی کوششوں سے ثابت ہوا کہ دونوں ممالک کے عوام ریاستی عناصرکے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہیں۔ ان تنظیموں نے صحافیوں، وکلاء، سیاسی کارکنوں ، خواتین، اساتذہ، طالب علموں حتیٰ کہ ریٹائرڈ فوجیوں کے درمیان ملاقاتوں اور روابطہ کا سلسلہ شروع کیا۔
یہ خوشگوار حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے سابق فوجیوں نے دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی ضرورت پر زیادہ زور دیا۔ ان میں دونوں ممالک کے وہ فوجی بھی شامل تھے جو مختلف جنگوں میں ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہے، ان ہی تنظیموں کی کوششوں کی بناء پر مذہبی انتہا پسندوں کی دونوں ممالک کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش بھی ناکام ثابت ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے دانشوروں، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں نے ان کوششوں کو بھرپور طور پر سراہا تھا۔
انسانی حقوق کی سب سے بڑی تنظیم انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) نے لاپتہ افرادکے مسئلے کو حل کرنے کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کی بناء پر ملک کی سپریم کورٹ کے علاوہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اس مسئلے پر توجہ دی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے لے کر موجودہ چیف جسٹس تک لاپتہ افراد کا معاملہ سپریم کورٹ کی کاز لسٹ میں موجود رہا۔ ان کی کوششوں سے بہت سے افراد بازیاب ہوئے اور بہت سوں کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ پھر ایسی ہی کوشش افغانستان کے شہریوں سے روابطہ کے لیے بھی ہوئی۔
ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے روحِ رواں امتیاز عالم اور ضیاء الدین وغیرہ نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا۔ یوں دونوں ممالک کے دانشوروں اور صحافیوں کو افغانستان اور پاکستان کے اچھے تعلقات میں حقیقی رکاوٹوں کا ادراک ہوا۔ سول سوسائٹی کا ایک اہم کارنامہ ان شہریوں کی داد رسی کرنا ہے جو امتیازی قوانین کا شکار ہوئے۔ برسر اقتدار حکومتوں کو صورتحال کا ادراک کرنا پڑا اور ان قوانین کے غیر استعمال کو روکنے کے لیے قانون سازی ہوئی۔
سول سوسائٹی نے جیلوں میں اصلاحات کے لیے اہم کوشش کی۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد جیسے اہم افراد نے ان کوششوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی جیلوں میں انگریز دور کے جیل مینوئل پر عمل ہوتا تھا مگر سول سوسائٹی کی تنظیموں کی کوششوں سے اس مینوئل میں انسانی حقوق کے عالمی چارٹر اور آئین میں درج بنیادی حقوق کے مطابق تبدیلیاں آئیں اور ہزاروں بے گناہ اور نادار قیدیوں کو فائدہ ہوا۔
ناصر اسلم زاہد اور کرامت علی وغیرہ نے بھارت اور پاکستان کی جیلوں میں دونوں ممالک کے قیدیوں کی رہائی کے لیے بے پناہ کوششیں کیں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے دونوں ممالک میں قید ماہی گیروں کے مسائل بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہوئے اور دونوں حکومتیں اس بارے میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوئیں۔ معروف دانشور زاہد اسلام نے نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے مقامی حکومتوں کے نظام کو عوام میں متعارف کرانے کے لیے مسلسل کوششیں کیں۔
سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں اس نظام کے نفاذ کا وعدہ کرنا پڑے گا۔ یوں قانونی کی بالادستی آئین کے انسانی حقوق کے باب میں درج حقوق کی بالادستی کا شعور مستحکم ہوا ۔ ہالینڈ کی انسانی حقوق کی تنظیم Bread of the World کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں سول سوسائٹی کے راستے محدود ہورہے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سول سوسائٹی کی تنظیموں کے بینک اکاؤنٹ پر بندش اور غیر ممالک سے آنے والی گرانٹ کو روکنے کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف ممالک نے اس بارے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظورکردہ قراردادوں کو بھی اہمیت نہیں دی۔ جنرل اسمبلی اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے 21 مارچ 2013ء کو اپنے اجلاس میں منظور کرداد قرارداد میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشش کرنے والی سول سوسائٹی کی تنظیموں کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا تھا۔
بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں گزشتہ کئی برسوں سے سول سوسائٹی زیر عتاب ہے اور اب سیکیورٹیز کمیشن نے نئی پابندیاں بھی عائد کردی ہیں مگر یہ معاملہ صرف پابندیوں اور چند سو افراد کا نہیں بلکہ جمہوری نظام کے استحکام اور تمام ریاستی اداروں پر جمہوری نظام کی بالادستی کا ہے۔ سول سوسائٹی اس ملک کے مظلوم عوام کی آواز ہے۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں پر پابندی سے انسانی حقوق کی صورتحال مزید ابتری کا شکار ہوگی اور اس کا بالواسطہ نقصان جمہوری تحریک کو ہوگا۔