کرپشن خاتمے کے خواب
عمران خان نے خود تسلیم کیا ہے کہ اب ان کی کابینہ میں فرشتے شامل نہیں ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین اور نو منتخب وزیراعظم عمران خان نیازی کے انتخابی منشور آٹھ سال سے چلائی جانے والی تبدیلی کی مہم میں کرپشن کے خاتمے کے اعلان کو فوقیت حاصل تھی اور اب اپنی 22 سالہ سیاست کے نتیجے میں وہ اس مقام پر فائز ہوچکے ہیں جہاں سے انھیں کرپشن کے خاتمے کی ابتدا کرنی ہے ۔
ان کے بقول کرپشن کی ابتدا نیچے سے زیادہ اوپر سے ہوتی ہے اور اعلیٰ عہدیداروں کے کرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے نیچے تک سرائیت کرتی جاتی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے بلکہ کرپشن تو اب سرکاری محکموں ہی میں نہیں بلکہ نجی اداروں ، سیاست اور عوامی سطح پر ہر اس شخص تک پہنچ چکی ہے اور ایمانداری کے دعوے دنیا میں اب بھی موجود تو ہیں مگر بہت کم اور نہ ہونے کے برابر ہیں یا وہ ہیں جو دوسروں کی خوشحالی دیکھتے ہوئے کسی مجبوری کے باعث کرپشن کرنا تو چاہتے ہیں مگر انگور ان کے لیے کٹھے بن جاتے ہیں یا انھیں قدرتی طور پر کرپشن راس نہیں آتی یا وہ کر نہیں پاتے ۔
یہ سو فی صد حقیقت ہے کہ اب کوئی سرکاری محکمہ، سرکاری ملازمین اور عام افراد تک کی رگ رگ میں کسی نہ کسی حد تک کرپشن موجود ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کرپشن شریفوں کی مجبوری بنادی گئی ہے ۔ سرکاری دفاتر میں لوگوں کی درخواستیں رشوت کے پیسے کے بغیر آگے نہیں سرکتی ۔ جلد فیصلے یا توجہ کے لیے سفارش یا رشوت دے کر ہی وقت بچانے کے لیے ایسا کرنا مجبوری بنا دیا گیا ہے اور چوری بھی مجبوری بنا دی گئی ہے جو سو فی صد کرپشن ہے مگر بجلی مہنگی اور اضافی بلنگ سے محفوظ رہنے کے لیے شریف آدمی بھی بجلی کی چوری پر راغب ہوتا ہے۔
وزیراعظم کو پتا ہے کہ بیس کروڑ آبادی میں صرف آٹھ لاکھ افراد ہی ٹیکس دیتے ہیں۔ صرف آٹھ لاکھ میں اکثریت سرکاری افراد کی ہے یا نجی کاروباری تاجروں، صنعت کاروں کی جو ٹیکس ایمانداری سے دینا بھی چاہتے ہیں مگر ٹیکس وصول کرنے والے تمام کرپٹ سرکاری ادارے انھیں ایسا کرنے نہیں دیتے کیونکہ حکومت کو مکمل ٹیکس ملنے سے یہ کرپٹ اپنی اوپر کی آمدنی سے محروم ہوجاتے ہیں۔
ایک تاجر نے بتایاکہ ایک ٹیکس وصول کرنے والے ادارے سے انھیں 30 لاکھ روپے ٹیکس ادائیگی کا نوٹس ملا ہے اور یہ ٹیکس بالکل درست بھی ہے جو مجھے ادا کرنا بھی چاہیے مگر مجھے متعلقہ ادارے کے افسر کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ہم ایسا کردیتے ہیں کہ ٹیکس 15 لاکھ رہ جائے گا مگر اس کے لیے ہمیں رشوت دینی ہوگی۔ متعلقہ تاجر کا کہنا ہے کہ اتنی بچت کس کو بری لگتی ہے تو میں کیوں نہ متعلقہ افسر کی بات مان لوں اور اپنی خاصی رقم بچالوں ؟
سرکاری اداروں میں خریداریوں میں ہونے والی کرپشن، کم لاگت کے تعمیری کاموں کے مہنگے ٹھیکے، سرکاری طور پر ملنے والے پٹرول، فون بل، سفری الائونس میں بڑے پیمانے پر عوام کو تو نظر نہیں آسکتے اور اس طرح ہر بار اربوں کھربوں کی کرپشن سرکاری فائلوں کا پیٹ بھرکر کی جارہی ہے جن میں بظاہر سب کچھ فیڈ اورکلین نظر آتا ہے اور کسی کو کرپشن کی شکایت بھی نہیں ہوتی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں تسلیم کیا تھا کہ کرپشن کرنے والوں کو کیسے پکڑا جاسکتا ہے۔ تقرر و تبادلے، سرکاری ملازمتوں کی اندرون خانہ فروخت اب ایسی سنگین کرپشن بن چکی ہے جو نظر آتی ہے نہ اس کی کوئی شکایت ہوتی ہے کیونکہ یہ معاملہ دو مفاد رکھنے والوں کے درمیان ہوتا ہے یا کوئی تیسرا قابل اعتماد آدمی درمیان میں ہوتا ہے۔
ایسے معاملات ڈائریکٹ بھی ہوتے ہیں۔ جس میں رشوت لینے والا خود کو محفوظ تصور کرتا ہے یا کبھی کوئی ڈائریکٹ معاملہ طے کرنے کی بجائے اپنے کسی قریبی با اعتماد ساتھی یا ماتحت کو درمیان میں رکھتا ہے تاکہ خود رشوت لیتے ہوئے پکڑا نہ جائے اور حلفیہ کہہ سکے کہ اس نے سائل سے رشوت نہیں لی، ڈائریکٹ معاملہ طے کرنے والے کسی اور پر اعتماد نہیں کرتے مگر انھیں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے اور اگر تیسرے کو درمیان میں لاکر رشوت لیں تو ان کے ساتھ سیکریٹری خزانہ بلوچستان اور سندھ کے سیکریٹری بلدیات کے پرائیویٹ سیکریٹری جیسا معاملہ بھی ہوجاتا ہے اور پکڑے جانے والے پھر سارا الزام اپنے اوپر والوں پر تھوپ کر خود بچنے کی بڑی کوشش کرتے ہیں مگر بچ نہیں پاتے کیونکہ رشوت کی رقم ان سے یا ان کے گھر سے برآمد ہوتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکاری افسران کی اکثریت خود اپنے وزیروں یا بڑوں کو کرپشن کے ذرایع سکھاتی ہے اور منتخب لوگوں کو کرپشن پر ڈالتی ہے مگر سرکاری کاغذات میں خود کو بچاکر رکھنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ تحریری ثبوت نہ ملے اور پکڑے جانے پر اپنے اوپر والوں کو ذمے دار ٹھہرا دیں۔ حال ہی میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے نیب انکوائری میں غیر قانونی اقدامات کا ذمے دار چیف سیکریٹری اور سیکریٹری ٹو سی ایم کو ٹھہرایا ہے۔
وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بے شمار سرکاری مراعات ملنے کے باعث اگر خود رشوت نہ بھی لیں تو ان کے ارکان اسمبلی انھیں کب تک برداشت کریںگے اور پھر ان کے پارٹی رہنما ان سے غلط کام لینے کی کوشش کیوں نہیں کریںگے کیونکہ اقتدار کروڑوں روپے خرچ کرکے کرپشن اور غیر قانونی کام کرانے ہی کے لیے تو حاصل کیا جاتا ہے۔
عمران خان نے خود تسلیم کیا ہے کہ اب ان کی کابینہ میں فرشتے شامل نہیں ہوئے ہیں تو کرپشن کے خاتمے کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوگا اور کیا نئے وزیراعظم کرپشن کے خاتمے میں کسی حد تک کامیاب ہوسکیںگے یہ نئی حکومت کے پہلے سو دنوں میں قوم کے سامنے ضرور آجائے گا۔