انقلابی نوعیت کی تبدیلیوں کا متقاضی
اصل میں سمت کا درست تعین ہوجائے تو نہ صرف سفر آسان ہوجاتا ہے بلکہ منزل کا حصول بھی ممکن ہوجاتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہر بچہ جب میٹرک ، ایف اے یا ایف ایس سی کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرتا ہے تو ڈاکٹر، انجینئر اور سول سرونٹ بن کر ملک کی خدمت کرنے کا بیڑا اٹھانے کا دعویٰ کرتا ہے جو عملی زندگی میں جانے کے بعد عبث ثابت ہوتا ہے۔ جب ایسے بچے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں تو وہیں کے ہو رہتے ہیں اور خال خال ہی واپس آتے ہیں۔
دراصل ملکی سطح پر ایسی کوئی جامع تعلیمی پالیسی اور معاشی پالیسی بنائی گئی ہے اور نہ کسی سیاسی جماعت کے منشور میں اب بھی ایسی بات ہے کہ اس برین ڈرین کو روکا جائے۔ عمران خان نے ملک میں بہتر طرز حکمرانی کے قیام کے وعدے پر ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اس لیے انھیں سب سے پہلا کام ''گڈ گورننس ریفارمز'' کے لیے کرنا ہوگا ۔
ان ریفارمز (اصلاحات) کے لیے سب سے پہلے جو کام کرنا ہوگا، وہ پاکستان کی سول سروس کے ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ اصلاحات پر عمل درآمد اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے ذمے دار سول سرونٹس ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مختلف غیر جمہوری اور جمہوری حکومتوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت سول سروس کو تباہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب سول سروس انقلابی نوعیت کی تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔کیونکہ جو لوگ اقتدار پر قابض ہوئے اور بعدازاں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ قرار پائے انھوں نے ورثے میں ملے ہوئے نوآبادیاتی سول سروس کے ڈھانچے کو استعمال کیا، جو آج کے سول سروس کے ڈھانچے سے بہت بہتر تھا۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاکستان میں ترقیاتی منصوبے پاکستان کی ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ اداروں پر قابض لوگوں کے مخصوص مفادات کے تحت بنتے ہیں۔ اقتصادی اور مالیاتی پالیسیاں بھی اپنے مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔ اداروں میں بہتری لانے کے نام پر ''اسمارٹ لوگ'' صرف لوٹ مار کر رہے ہوتے ہیں اور ان کی حفاظت کرپٹ سول سرونٹس اور نام نہاد ''کارپوریٹ'' کرتے ہیں، اور ان کی سرپرستی سیاسی حکمران یا دیگر طاقتور عناصر کرتے ہیں۔ ان حالات میں سب سے پہلے عمران خان کو سول سروس کے ڈھانچے کو بہتر بنانا ہوگا۔
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ امتحان کا معیار اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ امسال بھی ایسا ہی ہوا۔ رزلٹ یا تو معلوم ہوا کہ 9391 امیدواروں نے امتحان دیا، ان میں سے 312تحریری امتحان میں پاس ہوئے، ایک امیدوار انٹرویو میں فیل ہوا، ایک غیر حاضر رہا اور یوں 310 نوجوان کامیاب ہوئے۔ ان میں سے 261 خوش نصیبوں کو نوکری کا پروانہ ملا کیونکہ سیٹیں ہی اتنی تھیں، لہٰذا باقیوں کی کامیابی کسی کام نہیں آئی۔ امتحان کا معیارکیوں گرگیا ہے؟
اس کا سادہ اور بے ساختہ جواب تو یہ ہے کہ جب پورا معاشرہ ہی زوال پذیری کا شکار ہو چکا ہو تو کوئی بھی شعبہ اس زوال سے نہیں بچ سکتا۔ اور کون نہیں جانتا کہ اداروں کی کمزوری اور لاغری ہی ملکوں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ سول سروس بھی اس سے مستثنیٰ نہیں اور اس کی ایک وجہ بھی ہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔
ایک اچھی نیت والے اور دوسرے بدنیت۔ پھر سی ایس ایس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی سرکاری نوکری میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جن کی خواہش کوئی بھی بدنیت شخص کرسکتا ہے، سو وہ لوگ جو قابل بھی ہیں اور اچھی نیت بھی رکھتے ہیں ان کے مقابلے کا امتحان دینے کے امکان ایسے لوگوں کے مقابلے میں کم ہے جن میں قابلیت کم اور بدنیتی زیادہ ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ قابل اور اچھی نیت والے یہ امتحان نہیں دیتے، چونکہ اس امتحان کے نتیجے میں حاصل ہونے والی نوکری پاکستان جیسے ملک میں بہت سے مسائل کا حل ہے، اس لیے اچھی نیت والے بھی کم تنخواہ کے باوجود اسی کو ترجیح دیتے ہیں مگر ان کی شرح بدنیتوں کے مقابلے میں کم ہے اور یہی سول سروس کی بدحالی کی بڑی وجہ ہے۔
مقابلے کے امتحان کے نتائج کے مطابق اس سال صرف دو فیصد امیدواروں کا پاس ہونا جہاں ہمارے نظام تعلیم کی خرابیوں کو اجاگر کرتا ہے، وہاں اس امر کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ ان امتحانات کے گرتے ہوئے معیار کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ امتحان انگریزی میں لیا جاتا ہے۔
امتحان کا معیار اگر اسی طرح زوال پذیر رہا اور امیدواروں کو اردو میں جوابات دینے کی اجازت نہ دی گئی تو آیندہ برسوں میں اعلیٰ ملازمتوں کے امتحانات (سی ایس ایس) کا نتیجہ دو فیصد سے بھی کم آسکتا ہے اور اگر ملک کا انتظام چلانے والی بیورو کریسی کے لیے اہل افراد دستیاب نہ ہوں گے تو کیا ہم فر فر انگریزی بولنے والے افراد دوسرے ملکوں سے درآمد کریں گے؟ یہ سوال عصر حاضر کا غور طلب اور فکر انگیز سوال ہے۔
ہماری نئی ملکی قیادت بالخصوص عمران خان کو اس حساس نوعیت کے مسئلے پر غور کرنا چاہیے اور اس کا کوئی شافی حل سامنے لانا چاہیے۔ جس طرح پاکستان کا آئین شہریوں کو جماعت بنانے کا حق دیتا ہے مگر جماعت بناکر الیکشن لڑنے کے حق کو کسی اصول اور ضابطے کا پابند بنایا جانا بھی شرط اولین ٹھہرتا ہے۔
عمران خان کو اگر بہتر طرز حکمرانی کے لیے اصلاحات کا آغاز کرنا ہے اور بہتر طرز حکمرانی کے مذکورہ بالا اہداف حاصل کرنا ہیں تو انھیں فوری طور پر سول سروس کو ضابطے میں لانے کے احکامات جاری کرنا ہوں گے۔
سول سروس میں اصلاحات کا ایجنڈا مرتب کرنا ہوگا اور اہم اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں کے لیے شفافیت اور میرٹ پر مبنی نظام لانے کی غرض سے قانون سازی کرنا ہوگی۔ اور یہ کام آیندہ چھ ماہ کی قلیل مدت میں ہونا چاہیے کیونکہ ایک سال میں لوگوں نے تبدیلی محسوس نہ کی تو پھر نہ صرف لوگوں میں فرسٹریشن پھیلے گی بلکہ سول سروس کا موجودہ نظام تحریک انصاف کے سارے ایجنڈے کو ناقابل عمل بنادے گا۔
عمران خان کو یاد رہے کہ پاکستان ایجنڈوں اور منشوروں کا قبرستان ثابت ہوا ہے۔ یہاں جو بھی آیا ایجنڈے کے ساتھ آیا ، مگر کسی کا کوئی ایجنڈا پایہ تکمیل تک نہ پہنچا، کیونکہ ایجنڈا پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے نہ کوئی لائحہ عمل تھا اور نہ ہی ٹیم۔ لہٰذا حکمران آتے جاتے رہے اور منصوبہ بندی کے بغیر ملک کھودتے رہے لہٰذا آج چاروں طرف گڑھے ہی گڑھے ہیں ان میں بھٹو کا روٹی کپڑا اور مکان، ضیا الحق کی چادر اور چار دیواری کا تحفظ، افغان جہاد، ''بی بی'' اور ''میاں'' کے ایجنڈے، مشرف کا 7 نکاتی پروگرام اور زرداری۔
حکومت کے وعدے اور دعوے سبھی انھی گڑھوں میں پڑے نظر آتے ہیں۔ اصل میں سمت کا درست تعین ہوجائے تو نہ صرف سفر آسان ہوجاتا ہے بلکہ منزل کا حصول بھی ممکن ہوجاتا ہے۔ بہرکیف وزیر اعظم عمران خان کا ''پانچ سالہ ٹیسٹ میچ'' شروع ہوگیا ہے۔ اپوزیشن وکٹیں گرتی دیکھنے کے لیے بے تاب ہے۔ عوام چوکوں اور چھکوں کی منتظر ہے حکمت عملی بہرحال کپتان ہی کو بنانی ہے۔