کراچی ایک بار پھر دہشت گردی کی زد میں
کراچی کے حالات دن بہ دن خراب ہوتے جا رہے ہیں، بچے دن دیہاڑے اغوا کرلیے جاتے ہیں۔ ماؤں کی گود اجڑ جاتی ہے۔
کراچی میں مسند اقتدار پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی حکومت ہے، کراچی میں گورنر کی حیثیت سے عمران اسماعیل حلف اٹھا چکے ہیں، کراچی میں سالہا سال سے میئر کی حیثیت سے وسیم اختر موجود ہیں لیکن افسوس کراچی پھر بھی لاوارث ہے، اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔
کراچی کے شہری آج سے نہیں دس پندرہ سال سے بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہیں، واٹر بورڈ اور کے ای کے سربراہوں نے عوام کو اندھیروں کا تحفہ دیا اور پانی کی بوند بوند کو ترسا دیا، جس پانی پر عوام کا حق تھا اسی پانی کو فروخت کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی یہ دھندہ جاری ہے، ایک طرف کراچی کے رہنے والے پانی کا ٹیکس ادا کرتے ہیں، دوسری طرف پانی خریدتے ہیں یا پھر سیوریج سسٹم کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث گندا پانی استعمال کرنے پر مجبور کردیے جاتے ہیں، وہ بدبودار پانی سے نہاتے دھوتے ہیں، وضو کرتے ہیں اور ابال کر پی بھی لیتے ہیں۔
لائنوں میں آنے والا پانی اسلامی تعلیمات کی شرائط پر ہرگز پورا نہیں اترتا، کبھی بو ہوتی ہے تو کبھی رنگت بدل جاتی ہے، ایسا ہی حال کے ای کا ہے، ناقص کارکردگی نے معصوم بچوں کو معذور کردیا ہے اور اکثر حضرات جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ابھی حال ہی میں دو بچوں پر بجلی کے تار گر گئے تھے، ایک کے دونوں ہاتھ ضایع ہوگئے، ان جیسے لوگوں کے گھرانے برباد ہوگئے جو اس ادارے کی زد میں آگئے۔
ہر سال موسم برسات میں کرنٹ لگنے اور بجلی کے تار ٹوٹنے کے باعث سیکڑوں لوگ اپنی جان سے جاتے ہیں، ذرا ان کے گھروں میں جاکر دیکھیں، کونے کونے میں قیامت صغریٰ کا منظر نظر آئے گا، چولہا ٹھنڈا اور آہ و زاری کی تپش ضرور محسوس ہوگی۔ یہ دونوں مسئلے بہت پرانے ہیں بلکہ اب یہ زنگ آلود ہوچکے ہیں، نیا مسئلہ کچرے کا ہے۔ پورے کراچی کے خاکروب کیا کمائی کرنے کے لیے بیرون ملک بھیج دیے گئے ہیں، یا ان سے دوسرے کام کروائے جا رہے ہیں؟
آخر وہ گئے کہاں؟ جو صبح شام جھاڑو دیتے اور کچرا اٹھاتے تھے، اب تو حال یہ ہے کہ گھروں کے سامنے اور اس کے اطراف میں یا کسی گلی یا چوک کو کچرا کنڈی میں بدل دیا گیا ہے۔ ادھر سے کچرا اٹھایا اور تھوڑے ہی فاصلے پر پھینک دیا گیا۔ اس طرح کاغذ، دھول مٹی کے ساتھ اڑتے پھرتے ہیں اور کوڑا کرکٹ بدبو میں بدل جاتا ہے، جس راستے سے گزریں بدبو پیچھا کرتی ہے، اگر وزیر اعلیٰ، گورنر سندھ اور میئر چاہیں تو چٹکی بجاتے پورے کراچی کا کچرا اٹھایا جاسکتا ہے۔
اپنی اپنی جماعت کے ورکرز کو حکم دینے کی دیر ہے، شہری ویسے بھی ہر مشکل گھڑی میں تعاون کرتے ہیں، جنید جمشید جیسی بڑی شخصیت نے کچرا اٹھا کر ارباب اختیار کو شرم دلائی تھی، لیکن شرم آئی نہیں۔ اب ان دنوں ایک بڑی دہشت گردی اپنی ہیبت ناک شکل کے ساتھ سامنے آئی ہے اور اس نے اپنے نوکیلے دانت شہریوں کے دلوں پر گاڑ دیے ہیں۔ ان حالات میں رینجرز غائب ہے، یوں لگ رہا ہے اس کے اختیارات میں کمی کردی گئی ہے۔
متلاشی نگاہیں رینجرز کو تلاش کرتے ہوئے پتھرانے لگی ہیں، پولیس اہلکار غفلت کی نیند سو رہے ہیں یا پھر یہ لوگ خود بھی گھناؤنے کھیل میں شامل ہیں، جیساکہ اس قسم کی خبریں آئے دن دیکھنے اور سننے کو بذریعہ چینلز ملتی ہیں، اخبارات کی سرخیاں دردناک واقعات کو منظرعام پر لاتی ہیں، معصوم بچوں کو گودوں سے چھینا جا رہا ہے، خواتین کے پرس اور مردوں کی جیبیں بڑی آسانی کے ساتھ خالی کردیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہمارے ناول کی تقریب رونمائی کے موقع پر جب لوگ گھروں کو رخصت ہو رہے تھے، اسی دوران صحافی فہیم اسلام انصاری کو سر راہ لوٹ لیا گیا، ڈاکو موٹر سائیکل پر آئے، زور و زبردستی اور مغلظات بکتے ہوئے جیبوں کی تلاشی لینے لگے اور آناً فاناً ان کا قیمتی موبائل لے اڑے اور دیکھنے والے ہاتھ ملتے رہ گئے۔ ایسا ہی حال کراچی کی تقریباً ہر شاہراہ، چوراہوں اور گلیوں میں نظر آرہا ہے، لیکن پولیس والے دیکھنے سے قاصر ہیں۔
چیف جسٹس صاحب نے کراچی آکر ان بدحال اداروں کو تنبیہہ کی ہے کہ وہ اپنا قبلہ درست کرلیں، اب اگر اللہ تعالیٰ نے چیف جسٹس صاحب کی شکل میں ایک فرشتہ بھیج دیا ہے تو حکومت کو یہ بھی برداشت نہیں، ہر اچھے کام پر نکتہ چینی کرکے اپنے آپ کو مزید بدنامی اور زوال کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں، گزرے حالات اور تلخ حقائق سے سبق سیکھنے کا ان کے پاس ٹائم نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی کراچی آمد پر بہت بڑی رقم کا مطالبہ کیا گیا کہ کراچی اب اس حال کو پہنچ گیا کہ اسے سجانے، سنوارنے، نہلانے، دھلانے اور اچھا لباس پہنانے کے لیے اربوں روپوں کی ضرورت ہے، اب ان سے پوچھا جائے کہ پہلے والے کہاں گئے؟ کس جگہ خرچ کیے؟
کراچی کی ترقی اور صفائی کو ملیامیٹ کرنے میں کنٹونمنٹ بورڈ کا بھی بڑا کردار رہا ہے، بڑے بڑے نالے جیتے جاگتے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں، معصوم بچے موت کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں، ماں باپ کی آہ و زاری ان کے دلوں کو نرم نہیں کرتی ہے۔
حدیث پاک ﷺ کے مطابق جو نرمی سے محروم کیا گیا، وہ سارے خیر سے محروم کردیا گیا۔ لیکن اس بات کی پرواہ کس کو ہے، جیسے قبر میں جانا نہیں ہے، حساب کتاب دینا نہیں ہے اور روز محشر پکڑ میں آنا نہیں ہے، اسی وجہ سے اتنی بے فکری ہے، یہاں تو دوسروں کی زمین پر لینڈ مافیا قبضہ کرلیتی ہے اور بڑی سے بڑی اراضی کی مالک بن جاتی ہے لیکن وہاں زمین کا ایک ٹکڑا بھی حاصل نہیں کرسکیں گے، سوچیں اور غور کریں اس بات پر کہ موت سے کس کو رستگاری ہے، آج وہ، کل ہماری باری ہے۔ بس زندگیوں کا ایسا ہی معاملہ ہے۔
کراچی کے حالات دن بہ دن خراب ہوتے جا رہے ہیں، بچے دن دیہاڑے اغوا کرلیے جاتے ہیں۔ ماؤں کی گود اجڑ جاتی ہے۔ یہ بہت بڑا افسوسناک اور دل کو دہلانے والا المیہ ہے، گھر سونے ہو رہے ہیں، آنکھ غم گریہ سے نم ہے اور دل اپنوں کی جدائی میں تڑپ رہا ہے، یہ کیسے سفاک لوگ ہیں جو کراچی کے شہریوں کو ہر روز ایک نیا سانحہ دیتے ہیں، حکومت کو پرواہ ہی نہیں کہ کراچی میں خوف و ہراس کی فضا ایک بار پھر پروان چڑھ چکی ہے، دہشت گردی، منافقت اور تعصب کی آگ بھڑک رہی ہے۔
ان واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈی جی رینجرز حکومت سے مذاکرات کریں کہ رینجرز اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کرے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کوئی کراچی کو گود لے لے، یہ کام وفاق ہی کرسکتا ہے، مکمل نگہداشت اور اس کی پرورش اگر خلوص دل سے کی جائے تو یہی کراچی پہلے کی طرح سرسبز و شاداب اور ترقی یافتہ ہوسکتا ہے۔ نئے پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے، وزیراعظم عمران خان ماضی و حال کے اندھیروں اور جہالت کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اللہ کرے یہ شب و روز کی مساعی جلد سے جلد کامیابی کی نوید سنائے۔