سوالات کی قبریں
ہمارے ملک میں انسانوں سے ان کے خوابوں کی جاگیروں کوجس طرح لوٹا گیا ہے،ایسے لٹنے کی کوئی اور کہیں اورمثال نہیں ملتی ہے۔
KARACHI:
دنیا بھرکے بھیڑیوں کی فطرت ایک سی ہوتی ہے وہ جتھوں کی صورت میں رہتے ہیں لیکن ان میں سے جب کوئی زخمی ہوجائے یالنگڑانا شروع کردے تو دوسرے بھیڑیے بغیر ہچکچاہٹ کے اسے چیر پھاڑکرکھا جائیں گے، انہیں ہمدردی، رفاقت یا امداد باہمی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔
اسی طرح انسان جب بھیڑیا بنتا ہے تو چاہے وہ امریکا ، روس ، فرانس کا ہو یالاطینی امریکا کا یا پھر پاکستان کا ہو چاہے وہ حکمران ہو یاعام انسان ایک ہی جیسی حرکتیں کرتا ہے۔ بس اس کا نام اور رنگت بدلی ہوئی ہوتی ہے ۔ جان کوہن اپنی تاریخ ادب مغربی یورپ میں لوئی چہار دہم کے وقت کے فرانس کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ''اشرافیہ یعنی امیر وکبیر لوگوں کی زندگی کا واحد نصب العین خوشی کی تلاش بن چکا تھا۔
خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرکر رہ گیا۔ شادی اور محبت جیسی ارفع واعلیٰ چیزوں کو ادنی درجے پر گرا دیا گیا۔اس سب کے باوجود اشرافیہ ہر طرح کے حقوق اور آسائشوں کی پوری طرح طلب گار رہی ۔ ملک کے تمام انتظامی امور ان ہی کے ہاتھوں تھما دیے تھے حتیٰ کہ ہر طرح کے داخلی اور خارجی معاملات کی باگ ڈور ان ہی لوگوں کے ہاتھ میں تھی ۔اشرافیہ اس قدر بداخلاق اور مغرور ہوگئی کہ باقی ماندہ آبادی کو انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی ، انہیں صرف ایک ہی فکر دامن گیر ہوتی تھی کہ اپنی وراثت کوکس طرح بچانا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ وہ تمام تر ریاستی مشینری اور ہر طرح کے وسائل کو اپنے ذاتی کاموں کے لیے استعمال کرنے کے درپے رہتی ۔ انہیں قومی مفادات سے کوئی غرض نہ ہوتی تھی ۔ جہاں تک بیورو کریسی کے اعلیٰ افسران کا تعلق تھا وہ اپنے دفتری معاملات کے بجائے زیادہ تروقت پیرس میں گزارتے ۔ انہیں اس بات کی کوئی پروانہ نہ تھی کہ ملک میں کیا ہورہاہے۔ مذہبی لوگ بھی اپنے معاملات میں اشرافیہ اور بیوروکریسی سے کسی طرح کم نہ تھے وہ تمام وقت اپنی ذاتی ہوس کی تکمیل اور خواہشات کی تسکین میں لگے رہتے ۔ لہذا ملک بے یارو مدد گار صرف خدا کے سہارے چل رہا تھا۔''
روس کا حال بھی فرانس سے مختلف نہ تھا، روسی شاعرہ اینا اخماتوفہ کی نظم چھپنے پر روزنامہ پالٹیکا نے لکھا کہ ''موصوفہ'' کی نظم جو اس نے اسٹالن کے قائم کردہ عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بننے والے لوگوں کے حق میں لکھی عرصہ دراز تک عوام الناس کی نظروں سے مخفی رہی ۔ سوویت ادبی انتظامیہ نے حالیہ دنوں میں نہ صرف شاعرہ کو وطن واپس آنے کی اجازت دی بلکہ اس نظم '' نوحہ'' کی مکمل اشاعت کی بھی اجازت دے دی ہے ۔
'' یہ نظم شاعرہ نے اپنے بیٹے کے نام منسوب کی جو اسٹالن کے عقوبت خانے میں لقمہ اجل بنا اس نظم کا پہلا حصہ کچھ یوں ہے '' میرے بیٹے ! میں سترہ ماہ سے تیری راہ تک رہی ہوں کہ گھر لوٹ آئو۔ جلاد کے قدموں کی آہٹ سن کر میرا خوف مزید بڑھ جاتا ہے، دنیا کی ہر چیز اس قدر تباہی و بربادی سے دوچار ہوچکی ہے کہ میری عقل یہ جاننے سے قاصر ہوگئی ہے کہ کون انسان ہے اور کون درندہ اور نہ میں اس چیز کے بارے میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ ابھی کتنے دن اور ظلم و ستم سہنا باقی ہے '' ایسے انسانوں کا شکار ہونے والے انسانوں کی وحشت سے بھر ی داستانیں تاریخ میں جابجا بکھری پڑی ہیں ۔
ہم صرف اپنی ہی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں تو ان گنت معصوم اور بے گناہ انسانوں کی روحیں ہم سے چمٹ جائیں گی جو تاریک راہوں میں بے موت مارے گئے، جو ایک ہی بار بار سوال کرتے جائیں گی ، ہمارا جرم کیا تھا ، ہمار اقصورکیا تھا ؟کیوں ہمیں بھوک ، ہوس اور لالچ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، کیوں بے موت ماردیا گیا ۔پاکستان میں انسانوں کی اتنی قبریں نہیں جتنی سوالوں کی ہیں۔ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سوالوں کا قبرستان بن کے رہ گیا ہے۔
ذہن میں رہے قبروں میں دفن سوالات بھی اتنے ہی بے چین ہیں ، جتنے کہ معصوم اور بے گناہ انسان بے چین ہیں وہ دن اب قریب ہی ہے کہ جب یہ سارے سوالات قبریں پھاڑ کر نکل آئیں گے اور ملک کی اشرافیہ ، امیر وکبیروں ، با اختیاروں اور طاقتوروں کے گھروں اور دفاتر میں گھس جائیں گے اور پھر کوئی بھی ان سے محفوظ نہیں رہ سکے گا، کیونکہ یہ سب سوالات انتہائی بے رحم ، بد تمیز، بدتہذیب ، سنگ دل ہوچکے ہیں اور کوئی بھی ان کے جواب دینے کے قابل نہیں ہوگا ،کوئی ان سے چھپ بھی نہیں سکے گا ۔
ہمارے ملک میں انسانوں سے ان کے خوابوں کی جاگیروں کو جس طرح لوٹا گیا ہے، ایسے لٹنے کی کوئی اور کہیں اور مثال نہیں ملتی ہے جو تباہی اور بربادی ان انسان نما بھیڑیوں نے جتھوں کی صورت میں پہنچائی ہے ۔ ایسی تباہی اور بربادی تو چنگیز خان اور ہلاکو خان نے بھی نہیں پہنچائی تھی ، ایسی بے رحمی ، سنگدلی ، بے حسی تاریخ میں اور دیکھنے کو نہیں ملتی ہے آپ پورے ملک کی ایک ایک بستی ایک ایک گلی میں گھوم کر دیکھ لیں ہر جگہ ایک وحشت ناک ماتم برپا ہوگا۔ ایک ایک روٹی کے لیے چھینا جھپٹی ہورہی ہوگی ، بچے بھوک سے بلک رہے ہونگے، ایسی بدترین صورتحال تو افریقہ کے کسی ملک میں نہیں ہوگی ، جیسی ہمارے ملک میں ہے ۔
دوسری جانب لیٹرے روز جشن منا رہے ہیں محلوں میں روز پارٹیاں سج رہی ہیں اور ان پارٹیوں میںغریبوں ، بے بسوں اور مسکینوں کو جی بھر بھرکر برا بھلا کہا جا رہا ہے انہیں اور لوٹنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ، انہیں اور برباد کرنے کے نئے نئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔