بڑھاپے کا بچپن
یوں سمجھو کہ بڑھاپے میں انسان کو کسی بچے کی طرح دیکھ بھال اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے
LUCKNOW:
جاوید بھائی بچوںکو لے کر اپنی والدہ کے ہاں گئے، والدہ ستر سالہ بزرگ تھیں، بیمار بھی تھیں، اس لیے وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی تھیں، ان کا ایک بیٹا انھیں کھانا کھلا رہا تھا، کھانے کے بعد ایک بیٹی نے انھیں دوا کھلائی، اس کے بعد دوسری بیٹی ان کو وہیل چیئر پر ہی واش روم لے گئی، کچھ دیر بعد واش روم سے بیڈ روم میں رکھے بیڈ پر انھیں لٹا دیا گیا اور بیٹی نے کہا، اماں اب آپ سو جائیں، صبح فجر میں آپ کو نماز کے لیے بھائی اٹھا دیں گے۔ جاوید بھائی کے بچے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، ان کے چھوٹے بچے نے کہا ''پاپا یہ دادی وہیل چیئر پر ہر وقت کیوں بیٹھی رہتی ہیں؟ یہ اپنے ہاتھ سے کھانا کیوں نہیں کھاتیں؟ ہم جب بھی ان کے گھر آتے ہیں یہ وہیل چیئر پر ہی بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں۔''
جاوید بھائی نے اپنے چھوٹے بچے کو جواب دیا کہ اب یہ بوڑھی ہوچکی ہیں، جب انسان بوڑھا ہوجاتا ہے تو پھر اس کی طاقت کم ہوجاتی ہے، وہ خود سے چل پھر نہیں سکتا، اس کو سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، بس یوں سمجھو کہ بڑھاپے میں انسان کو کسی بچے کی طرح دیکھ بھال اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اس کے کام کرسکے۔ یہ جواب سن کے بچے نے کہا ''پاپا اس کا مطلب ہے کہ انسان بڑھاپے میں دوبارہ بچہ بن جاتا ہے اور اسے پھر دوبارہ بچے کی طرح دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، پاپا جب آپ بھی دوبارہ بچے بن جائیں گے تو میں بھی آپ کے ایسے ہی کام کروں گا جیسے آج آپ میرے کام کرتے ہیں''۔
میرے دوست جاوید نے جب یہ واقعہ مجھے سنایا تو میں نے کہا کہ تم تو بچے کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے ہوگے، میری بات سن کر جاوید نے جو جواب دیا اس جواب نے مجھے آج کا یہ کالم لکھنے پر مجبورکردیا۔
جاوید نے کہا کہ بچے کی بات سن کر مجھے اپنے بہن بھائیوں کا خیال آیا کہ جن کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی اور وقت بہت گزر چکا تھا، یہ ایک اچھی بات تھی کہ میرے بہن بھائی ماں کی خوب خدمت کررہے ہیں، ان کی وہیل چیئر لے کر انھیں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہر دس پندرہ دن بعد چیک اپ کے لیے اسپتال بھی لے جاتے ہیں، ہواخوری کے لیے پارک بھی پابندی سے لے کر جاتے ہیں، میری بہنیں ان کے واش روم کے کام بھی صبح و شام کرتی ہیں مگر میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ جب میرے یہ بہن بھائی کچھ عرصے بعد بوڑھے ہوں گے اور ان کو ضرورت ہوگی کہ کوئی ان کی بھی اسی طرح دیکھ بھال کرے، وہیل چیئر پر لے کر پھرے، کھانا اور دوا کھلائے تو کون ہوگا جو ان کے یہ کام کرے گا؟ ان کی تو شادی ہی نہیں ہوئی۔
اپنے دوست کی یہ بات سن کر میں سخت سوچ میں پڑگیا کہ واقعی میرے دوست کی فکر اپنی جگہ درست ہے اور ان کے بچے کا کہا ہوا یہ جملہ بھی قطعی درست ہے کہ ''انسان بڑھاپے میں دوبارہ بچہ بن جاتا ہے اور اسے پھر دوبارہ بچے کی طرح دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔''
جب میں اپنے معاشرے کی طرف دیکھتا ہوں تو اکثر اوقات بچے کا کہا ہوا جملہ میرے دماغ میں ہلچل مچا دیتا ہے۔ میرے پڑوس میں ایک ڈاکٹر صاحب رہتے ہیں، جب ان کی بیٹی گیارہویں جماعت میں زیر تعلیم تھی تو ان کے کسی دوست نے اپنے بیٹے کے لیے رشتہ مانگا، جس پر لڑکی کی ماں نے بات کرنے سے بھی انکار کردیا کہ ابھی ان کی بیٹی پڑھ رہی ہے، جب ان کی بیٹی یونیورسٹی سے گریجویشن کر رہی تھی تو ایک ڈاکٹر لڑکے کا رشتہ آیا مگر لڑکی نے منع کردیا کہ ماسٹر کی ڈگری لینے سے قبل وہ شادی نہیں کرے گی۔
جب لڑکی نے ماسٹر کی ڈگری لے لی تو کسی کمپنی میں ملازمت کرلی کہ ڈگری کا کچھ تو فائدہ ہو، دوسری طرف گھر والوں نے اس کے رشتے کی تلاش شروع کردی، اس مرحلہ پر انھوں نے میرج بیورو سے بھی رابطہ کیا، معلوم ہوا کہ جو اچھے رشتے ہیں ان کی ڈیمانڈ ہے کہ لڑکی کم عمر ہو جب کہ ان کی بیٹی کی عمر آگے آچکی تھی، یعنی ماسٹر کے بعد وہ ملازمت کررہی تھی۔ یوں اب جو رشتے آرہے تھے وہ پہلے کی طرح کسی ڈاکٹر وغیرہ جیسے نہ تھے، لہٰذا کوئی رشتہ ماں کو پسند نہ آتا تو کوئی بیٹی کو پسندنہ آتا، یوں اب لڑکی کی عمر چالیس سے اوپر پہنچ چکی ہے اور وہ ملازمت بھی کر رہی ہے مگر شادی نہیں ہو پارہی۔
ہمارے اردگرد ایسی ہی نہ جانے کتنی مثالیں ہیں جن میں وقت پر رشتہ نہ کرنے سے لڑکے اور لڑکیاں تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس سلسلے میں رشتے کرانے والے ایک صاحب سے مسائل پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ آج کل لڑکیوں کا رشتہ ملنا زیادہ بڑا مسئلہ ہے، ان کے پاس لڑکیوں کی تصاویر کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، وقت پر شادی طے نہ کرنے کے سبب مسائل بڑھ رہے ہیں، لڑکوں کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی خوبصورت بھی ہو اور کم عمر بھی ہو۔
بات یہ ہے کہ شادی کی ایک معقول عمر وہ ہوتی ہے کہ جس میں شادی ہوجائے تو بڑھاپے سے قبل آپ کی اولاد نہ صرف آپ کی خدمت کے قابل ہو بلکہ کمانے کے اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑی ہو۔ راقم کے ایک عزیز رشتے دار کی شادی پچیس سال کی عمر میں ہوگئی تھی، ابھی ان کی ریٹائر منٹ میں تقریباً دس سال باقی ہیں اور ان کی اولاد کی عمریں اٹھارہ اور بائیس سال ہیں، بڑا لڑکا کاروبار بھی کررہا ہے، ان کا ارادہ ہے کہ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل دونوں کی شادیاں کرکے فارغ ہوجائیں گے، یوں جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں گے تو اولاد ان کی خدمت کے لیے بھی تیار ہوگی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہ بات ذہن میں نہیں بٹھاتے کہ کل کو جب ہم بوڑھے ہوں گے تو اس وقت ہمارے ساتھ کیا ہوگا، ایک ایسے وقت کہ جب ہمیں دوبارہ کسی بچے کی طرح دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی۔ ہم دور اندیشی سے کام نہیں لیتے، ہم کل کا نہیں سوچتے، بس وقتی فائدہ دیکھتے ہیں، کوئی اچھی سے اچھی ملازمت کے خواب میں اپنی شادی کا مناسب وقت گزار دیتا ہے، کوئی اچھے سے اچھے انتخاب کے چکر میں رشتے ٹھکرا دیتا ہے، کوئی پڑھائی اور پڑھائی کے چکر میں لگا رہتا ہے اور اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ کتنا قیمتی وقت نکل گیا، کسی کی شادی وقت پر ہوگئی ہو تو وہ گھر پر اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لیے یا پھر اچھے سے اچھے معیار زندگی کے لیے اپنے ازدواجی تعلقات خراب کرکے طلاق کو مسئلے کا حل تصور کرلیتا ہے، غرض وقتی فائدے کے لیے ہم اپنے مستقبل کے آنے والے مسائل کو بھول جاتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ بڑھاپے میں جب سب ساتھ چھوڑ جائیں گے تو یہ صرف اولاد ہی ہوگی جو ان کے کام آئے گی۔
یہ اولاد ہی ہوگی جو اس وقت کام آئے گی جب کسی بچے کی طرح ہم کو دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی، یہ بات ان کے لیے بھی قابل غور ہے جو اپنی اولاد کو زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی مشین بنانے پر لگے رہتے ہیں اور ان کو بہتر مستقبل کی خاطر ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں اور خود اپنا مستقبل خراب کرلیتے ہیں۔
آیئے ایک بچے کی اس بات پر غور کریں کہ ''انسان بڑھاپے میں دوبارہ بچہ بن جاتا ہے اوراسے پھر دوبارہ بچے کی طرح دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔''