شہید کان کنوں کو سلام
1300 چیزوں پر ٹیکس لگنے سے روزمرہ کی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا
ایک جانب چھ سال بیتنے کے بعد بھی بلدیہ ٹاؤن علی انٹر پرائزز کراچی کے 260 جھلس کر شہید ہونے والے مزدوروں کے اصل قاتلوں اور ذمے داروں کو سزا دینا اور آیندہ ایسے واقعات نہ ہونے دینا تو درکنار، ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہوا کہ ان کے قاتل کون تھے اور نہ اعلی اداروں نے کوئی ازخود نوٹس لیا۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ٹھیک سال بھر بعد اسی دن درہ آدم خیل میں کوئلے کے کان کن 9 مزدور شہید ہوئے۔ جس طرح 2012 کے 11 ستمبر کو جھلس کے مرنے والے مزدوروں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا کی آواز تک ہم نہیں سن پائے اور شہادت کے بعد کئی شہداء کی شناخت تو درکنار انھیں کوئلے کی شکل میں پایا گیا، اسی طرح 11 ستمبر 2018 کو درہ آدم خیل میں کان کے کوئلے کے نیچے دب کر 9 کان کن ہمیشہ کے لیے کوئلہ بن گئے۔
اسی سال کی شروعات میں کوئٹہ میں کوئلے کی کان میں دھماکے میں 23 کان کن شہید ہوئے۔ مرنے والے سبھی مزدور شانگلہ کے تھے، اس لیے کہ دور کے مزدور مقامی کے مقابلے میں کم مزدوری پر کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ 2000 سے 2018 تک پاکستان میں 1000 سے زیادہ کان کن شہید ہوئے، جب کہ بورژوا طبقے (سرمایہ دار)کا کوئی فرد مرتا ہے تو نہ جانے کتنی تعزیت، گل دستے اور پیغامات بھیجے جاتے ہیں، مگر مزدوروں کے جنازے میں وزیراعظم ہوتے ہیں اور نہ صدر۔ جب کہ ان ہی کے ہاتھوں سے بنی ہوئی ہر چیز ہم روزمرہ استعمال کیے بغیر جی نہیں سکتے۔ انقلابی شاعر علی سردار جعفری نے کیا خوب کہا ہے کہ
''ان ہاتھوں کی تعظیم کرو... یہ ہاتھ بڑے عظمت کے ہیں... مٹی چھوئیں تو سونا بن جائے... چاندی چھوئیں تو پائل بن جائے''
مگر عمل میں کچھ یوں ہے کہ سونا بنانے والے سونا تو درکنار پیتل سے بھی محروم ہیں۔ صرف گزشتہ برس 318 کان کن شہید ہوئے، جن میں 85 بلوچستان کے اور 50 کے پی کے ہیں، باقی ماندہ دوسرے حصوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1923 انڈین لیبر ایکٹ کے تحت کان کن سے آٹھ گھنٹے سے زیادہ ڈیوٹی نہیں لی جاسکتی ہے۔ انھیں صاف پینے کا پانی، مکان، ماحولیات،، بچوں کی تعلیم اور معقول تنخواہ کے ساتھ ساتھ کام کے دوران حفاظت مہیا کرنا، جیسا کہ شوز، ہیلمٹ، ماسک، یونیفارم، آکسیجن اور بہتر غذا فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ مگر ملک کی آزادی کے بعد انگریزوں کے وقت دی گئی جزوی سہولیات سے بھی آج محروم کردیا گیا ہے۔ آج کان کنوں سے 8 کے بجائے 12 گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور تنخواہیں 8 ہزار سے 12 ہزار روپے کے اوپر نہیں دی جاتی۔
جب کہ حکومت کا اعلان ہے کہ ایک غیر ہنرمند مزدور کی تنخواہ کم از کم 16 ہزار روپے ادا کرنا لازمی ہے۔ ان شہید کان کنوںِ کا بھی کوئی بھائی، بیوی، بہن یا بیٹا ہوگا، جو ان کی شہادت پر آہ وبکا کرنے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ جہاں مزدوروں کو تحفظات فراہم کیے گئے ہیں، وہاں حادثات کم ہوتے ہیں، جب کہ پاکستان، انڈیا، چین، ایران، جنوبی افریقہ اور ترکی میں یہ شرح زیادہ ہے، جن میں پاکستان پیش پیش ہے۔ کان کنوں کو یونین بنانے کے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ خواہ وہ کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدور ہوں، سونے کے ہوں، تانبے کے ہوں، سلفر کے ہوں، فیکٹری کے ہوں یا قیمتی پتھروں کے کان کن ہوں، وہاں یونین تک بنانے کی آزادی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ان کی جان کو بھی خطرہ لاحق رہتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ استحصال زدہ جو مزدور ہیں، وہ ہیں پاور لومز، بھٹہ مزدور، کان کن، گارمنٹ، ٹیکسٹائل، سیکیورٹی گارڈ، پٹرول پمس پر کام کرنے والے مزدور، دکانوں پر کام کرنے والے مزدور، ڈاکٹروں اور وکیلوں کے منشی، جو انتہائی استحصال کے شکار ہیں۔ اب نئی حکومت قائم ہوئی ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ کان کنوں کے بارے میں ان کا کیا موقف ہے، مگر یہ تو پتہ چل گیا کہ 33 ہزار روپے تنخواہ پانے والوں پر بھی ٹیکس لگے گا۔ وزیراعظم اور وزیر خزانہ کا تو روز کا خرچہ 33 ہزار سے بھی پورا نہیں ہوگا۔ اب بھلا ایک مزدور 33 ہزار میں کیونکر گزارا کرے گا، باورچی خانہ چلائے گا، علاج کرے، بچوں کو پڑھائے یا گھر کا کرایہ ادا کرے۔ پھر 1300 چیزوں پر ٹیکس لگنے سے روزمرہ کی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔
وہ اپنی پہلی تقریر میں غریب لوگوں کو اوپر لانے کے لیے بضد تھے۔ اب ان کی نیم فاقہ کشی کی رقوم سے بھی ٹیکس کی شکل میں پیسے بٹورے جائیںِ گے۔ انسان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بجائے مزید مہنگائی میں اضافے سے غریب اوپر کے بجائے اور نیچے چلا جائے گا۔ جب کہ انھیں چاہیے کہ جاگیرداری ختم کرکے زمین کسانوں میں بانٹتے اور تاجروں، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ داروں سے بھاری ٹیکس وصول کرتے۔ اب حکمرانوں کو چاہیے کہ فوری طور پہ کان کنوں کے لواحقین کو ایک ایک کروڑ روپے ادا کیے جائیں، ان کے تحفظ کے لیے سارے لوازمات مہیا کیے جائیں، ان کی کم از کم تنخواہ چالیس ہزار روپے مقرر کی جائے، ان سے آٹھ گھنٹے سے زیادہ ڈیوٹی نہ لی جائے۔ جو ملک کے عوام کو کھانے پینے اور جینے کے سارے سامان مہیا کرتے ہیں، انھیں نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنی پڑتی ہے اور جو لوگ کچھ نہیں کرتے انھیں لاکھوں روپے تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔
ایک جانب پاکستان میں سیکڑوں ارب پتی ہیں، تو دوسری جانب روزانہ سیکڑوں افراد بیماری اور بھوک سے مر رہے ہیں۔ اس کا تدارک کیے بغیر ساری آزادی اور جمہوریت ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی کمیونسٹ سماج میں ہی ممکن ہے۔ جو محنت کش عوام مل کر سوشلسٹ انقلاب برپا کریں گے اور تیزی سے کمیونزم یعنی امداد باہمی کے سماج کی جانب پیش قدمی کریں گے۔