داخلی مناقشات وتنازعات
وزیر اعظم لیاقت علی خاں کی تحریک پر مجلس دستور ساز نے 12مارچ 1949 کو ایک قرارداد منظور کی جو قرار داد مقاصد...
وزیر اعظم لیاقت علی خاں کی تحریک پر مجلس دستور ساز نے 12مارچ 1949 کو ایک قرارداد منظور کی جو قرار داد مقاصد کے نام سے مشہور ہے۔ یہ قرارداد پاکستان کی آئینی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ قرار دا د کا متن درج ذیل ہے ۔ تعریف اس رب کریم کی ہے جس کی حکومت ارض و سما پر ہے اور ملکی اقتدار ایک مقدس امانت ہے ۔ یہ آئین ساز اسمبلی جو پاکستانی عوام کی نمایندگی کرتی ہے۔ ایک خود مختار مملکت پاکستان کے لیے درج ذیل آئین اختیار کرتی ہے ۔ 1۔ حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔ 2 ۔ جمہوریت، آزادی، مساوات، روا داری اور اجتماعی انصاف کے اصولوں پر اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ اسمبلی کے مسلسل پانچ اجلاسوں میں اس پر بحث ہوتی رہی۔
ہندو اراکین نے اس پر شدید اعتراضات کیے اور کئی ترامیم پیش کیں۔ ان میں سے ایک ترمیم پر رائے شماری ہوئی جو 10 کے مقابلے میں 21 ووٹوں سے منظور نہ ہو سکی۔ اس طرح قرار داد مقاصد کو کسی ترمیم و تنسیخ کے بغیر منظور کر لیا گیا، رکن مسٹر ایس۔ سی۔ چٹو پادھیا کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ اس قرار داد میں جیسا کہ اسلام نے سبق دیا ہے ہر قسم کے الفاظ غیر ضروری ہیں انھیں قرارداد سے حذف کر دیا جائے۔ ان کا یہ استدلال تھا کہ ان الفاظ سے ہندؤ وں کی حیثیت متاثر ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں مسلمانوں کے مقابلے میں انھیں پست حیثیت دی گئی ہے۔
ایک دوسرے رکن بی۔ کے۔ دتا نے کہا کہ ''قرار داد میں مذہب اور سیاست کو خلط ملط کر دیا گیا ہے حالانکہ مذہب سیاست سے الگ ہو تا ہے۔ آزاد پاکستان پارٹی کے رہنما میاں افتخار الدین نے بھی قرارداد مقاصد پر اعتراض کیا اور کہا کہ اس قرارداد کی روشنی میں ملک میں سماجی انصاف اور اقتصادی مساوات قائم نہیں کی جا سکتی اور یہ کہ پاکستان میں آیندہ جنگ مسلمان اور ہندو کے درمیان نہیں بلکہ امیر و غریب کے درمیان ہو گی۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ سماجی انصاف کے مقابلے میں اسلامی جمہوریت، سرمایہ داری اور کمیونزم دونوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر حل پیش کرتی ہے۔ راسخ العقیدہ مسلمان بھی (جیسا کہ مولانا محمد ابراہیم علی چشتی نے اعتراض کیا تھا) قرار داد مقاصد سے زیادہ مطمئن نہیں تھے۔ ان کا اعتراض تھا کہ اس میں اقلیتوں اور جمہوریت پر ضرورت سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔
پاکستانی اخبارات میں مذکورہ قرار داد کی خو ب تشہیر ہوئی۔ ڈان، نوائے وقت، زمیندار، سفینہ، سندھ آبزور، انجام، الوحید، وطن اور ہلال پاکستان کے ایڈیٹروں نے مشترکہ غور و فکر کے بعد ایک ہی مضمون کا اداریہ شایع کیا جس کا محاصل یہ تھا کہ اس قرار داد پر عمل کرنے سے پاکستان کے سارے داخلی مناقشات اور تنازعات کا خا تمہ ہو جائے گا۔ عالم اسلام کو بے انتہا سکون ملے گا اور ساری دنیا میں اسلام کی سر بلندی ہو گی۔ اس مشترکہ اداریے کے آخری دو تین پیرا گراف یہ تھے کہ قرارداد اسلام کے جوہر کو پیش کرتی ہے اس کا مقصد آزادی اور مجلس عدل کی بنیادوں پر ایک مضبوط اور باہم پیوستہ حکومت قائم کرنا ہے۔
قرارداد کی دفعات کی رو سے حکومت کی یہ خاص کو شش ہو گی کہ وہ ملک میں تعلیم و زندگی کے معیار کو اس حد تک بلند کر دے کہ طبقاتی اختیارات ختم ہو جائیں اور غربت و افلاس ناپید ہو جائے۔ اس ریاست کے ہر شہری کو اپنی قابلیت اور صلاحیت کار کو ترقی دینے میں مدد دینی چاہیے تا کہ وہ ریاست کی تقویت اور باشندوں کی فلاح و بہبود کی خاطر پیش پیش حصہ لے سکے۔ اس قرارداد سے اسلامی اقلیتی جماعتوں اور غیر مسلم قوتوں کے دلی خدشات بھی دور ہو جانے چاہیں کیونکہ ان کے حقوق و مفادات کی حفاظت کی پوری ضمانت دی گئی ہے اور اسلامی اصولوں کے مطابق انھیں مسلمانوں کے برابر درجہ دے دیا گیا ہے۔
البتہ کئی دوسرے اخبارات یعنی پاکستان ٹائمز، امروز اور سول اینڈ ملٹری گزٹ نے قرار داد کی اس طرح تعریف و توصیف نہیں کی۔ پاکستان ٹائمز کو اعتراض یہ تھا کہ ''اس قرار داد میں یہ تو کہا گیا ہے کہ عنان حکومت عوام کے منتخب نمایندوں کے ہاتھ میں ہو گی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ لفظ عوام سے کیا مراد ہے اور ان نمایندوں کا انتخا ب کس طر ح ہو گا۔ عوام الناس کا حق رائے د ہی بنیادی حقوق کی فہرست میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ اور یہ بھی واضح کر دینا چاہیے تھا کہ جمہویت، آزادی اور مساوات وغیرہ کے بارے میں اسلامی اصولوں کی تعبیر کون کریگا۔ اگر یہ کام چند افراد کے سپرد کر دیا گیا تو انتشار اور فرقہ وارانہ تنازعات کا دروازہ کھل جائے گا۔
قرارداد میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ پاکستان جمہوریہ ہو گی۔ آئینی بادشاہت ہو گی یا طبقاتی آمریت ہو گی۔ امروز کا تبصرہ یہ تھا کہ ''ہم اسلام کے جمہوری اصولوں، مساوات، معاشی انصاف اور متوازن معاشرے کے تصور کو نظر انداز کر نے کے حق میں نہیں۔ لیکن ہمیں ان عناصر کی طرف اندیشہ ہے کہ جو کل تک برطانوی استعمار کو عین اسلامی اور ملکہ معظمہ کو ''ظل سبحانی'' قرار دیتے تھے۔ اور آج بھی معاشرے میں کسی قسم کی تبدیلی اور اقتصادی ڈھانچے میں اصلاح ان کو گوار ا نہیں۔ دراصل یہ عناصر ساری سوسائٹی کو گھن کی طرح کھائے جا رہے ہیں اور آیندہ دستور کو مسخ کر نے کے لیے جمہوری اور استبداد ی طاقتیں انھیں آلہ کار بنا ئیں گی۔ لہذا اسلام اور اسلامی جمہوریت کی قطعی واضح اور صاف الفاظ میں جتنی زیادہ تشریح کی جائے غلط فہمیوں اور گمراہ کن تاویلوں کے امکانات اسی قدر کم ہوتے جائیں گے۔
پاکستان بننے کے بعد بدقسمتی سے قائداعظم محمد علی جناح کا انتقال جلد ہو گیا ان کے بعد ملک کے دونوں حصوں میں قومی ریاست کو کامیاب بنانے کا ایک طریقہ جمہوری عمل تھا جس میں وفاق کی مختلف اکائیوں کو معاشی اور سیاسی حقوق دے دیے جاتے اس کے لیے عوام کو حاکمیت کا سر چشمہ قرار دینا پڑتا تھا ایک دوسرا طریقہ یہ تھا کہ مذہب کے نام پر سیاست کا نمونہ قائم کیا جائے یہ ناقابل عمل اور تباہ کن راستہ تھا۔
اس وقت کے پاکستان کے حکمران طبقے نے 12 مارچ 1949کو قراردادا مقاصد منظور کر کے اسی راستے کا انتخاب کیا اللہ کو اقتدار اعلیٰ کاسر چشمہ قرار دے کر عوام سے حاکمیت کا حق چھین لیا گیا، ملکی امور میں مذہبی رہنماؤں کی مداخلت کا دروازہ یہ کہہ کر کھو لا گیا کہ ریاست کا فرض شہریوں کو اسلامی طریقے سے زندگی گذارنے کے قابل بنانا ہے اس سے پاکستانی ریاست کی نوعیت ہی بدل کر رہ گئی اور اس کی بنیادوں میں بھو نچال رکھ دیے گئے اس کا نتیجہ 16 دسمبر1971کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور چار مرتبہ آمریت کی صورت میں سامنے آیا۔
اس کے باوجود کبھی پاکستان میں دستوری، قانونی، سیاسی اور معاشرتی تشخص کو درست کرنے کی کو شش نہیں کی گئی اور پاکستان مذہب کے نام پر سیاست کر نے والوں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا مذہب کو قوانین کا ماخذ قرار دینے کا مطلب عملی طور پر پارلیمنٹ کو مفلو ج کرنا ہے جب کہ داخلی سطح پر پاکستان میں اسلامی دنیا کے ساتھ تعلق پر زور دینے سے ریاست کی مذہبی شناخت مضبو ط ہوئی مذہبی رہنماؤں کے رسو خ میں اضافہ ہوتے ہی اسلامی نظام کے تصور نے زور پکڑا اور جاگیرداروں افسر شاہی اور غیر سیاسی قوتوں کی طرف سے ملاؤں کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی مراعات دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے مذہبی جنونیت، انتہا پسندی، دہشت گردی کا زہر پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔ اور پوری قوم عذاب سے گزر رہی ہے اگر ہمیں ان عذابوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو پھر سیاست اور مذہب کو الگ الگ کرنا ہو گا۔