کوئی حساب دیا

اجیت دوول سیلیگی قیادت کی ملاقاتوں کا کیا مقصد تھا؟


سید معظم حئی September 25, 2018
[email protected]

اب اگر ذکر ہندوستان کا چھیڑا ہی ہے تو ہم ذرا بات مودی حکومت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کی بھی کرلیں۔ اجیت دوول نہ صرف پاکستان میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کرانے کا اعتراف کرچکا ہے بلکہ وہ پاکستان میں خصوصاً بلوچستان میں مزید دہشت گردی کرانے اور پاکستانیوں کا خون بہانے کے عزائم کا کھلم کھلا اظہار بھی کرچکا ہے۔ کیا آج تک ن لیگ نے صفائی دی کہ پاکستان میں دہشت گردی کروانے اور پاکستانی شہریوں کا خون بہانے کے منصوبے بنانے والے اجیت دوول کی یہاں مہمان نوازی کیوں کی گئی؟ اجیت دوول سیلیگی قیادت کی ملاقاتوں کا کیا مقصد تھا؟

چلیے اب ہندوستان کے پاکستان سے تعلقات کا ذکر نکلا ہے تو ہمیں ذرا 1970 کی دہائی یاد کرنی ہوگی جب ہندوستان نے پاکستان کے خلاف کھلی دہشت گردی اور جارحیت سے پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے۔ 1980 کی دہائی میں ہندوستانی پنجاب میں سکھوں نے ہندوستان سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک شروع کی جو امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈ ٹیمپل دربار صاحب پہ یکم تا 8 جون 1984 میں ہندوستانی فوج کے حملے جسے آپریشن بلو اسٹار کا نام دیا گیا تھا اور 31 اکتوبر 1984 کو ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شمالی ہندوستان خصوصاً دہلی میں ہونے والے قتل عام میں ہزاروں سکھوں کی ہلاکت کے بعد زور پکڑ گئی۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی قبضے کے خلاف کشمیری حریت پسندوں کی تحریک شروع ہوگئی۔

اس وقت صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ بھارتی حکومت اور اس کے دفاعی ادارے 1971 میں پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کے بعد اب خود بھارت کے اندر دو محاذوں پہ جنگ آزادی کی تحریکوں میں بری طرح الجھ گئے تھے جب کہ اس وقت پاکستان بھر میں ایسی کوئی صورتحال نہیں تھی۔ تاہم پاکستان کی یہ مضبوط اور محفوظ پوزیشن زیادہ عرصے برقرار نہ رہ سکی۔

1988 میں پاکستان میں ''جمہوریت'' کا سورج پھر طلوع ہوگیا اور پیپلزپارٹی نے ملک میں حکومت بنالی۔ 29 تا 31 دسمبر 1988 اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے پاکستان کا دورہ کیا ۔ یہاں پیپلزپارٹی کی حکومت نے راجیوگاندھی کا والہانہ استقبال کیا۔ جی ہاں یہ اسی سارک کانفرنس کا ذکر ہو رہا ہے جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے والے شیخ مجیب الرحمن کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا تھا۔ بہر حال ان تین دنوں کے دوران بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی میں کئی ملاقاتیں ہوئیں جن میں 31 دسمبر 1988 کی ملاقات ون ٹو ون تھی جس میں دونوں وزرائے اعظم کے ساتھ ان کے لوگ شامل نہیں تھے۔

یہ ان گرم جوش ملاقاتوں کے بعد تھا کہ شور اٹھا کہ پیپلزپارٹی کے اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ اعتزاز احسن نے بھارت کو سکھ حریت پسندوں کے بارے میں تفصیلات کی لسٹیں فراہم کیں۔سیاست میں الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ایسا ہوا یا نہیں تاہم اعتزاز احسن اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ تاہم ہندوستان میں اعتراف کیا جاتا ہے کہ اس وقت کی پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی مدد کے بغیر ہندوستان سکھوں کی جنگ آزادی کا خاتمہ نہیں کرسکتا تھا۔ مثلاً بھارت کی تاریخ کے نمایاں ترین صحافی کلدیپ نیئر نے اپنی سوانح عمری ''بی آنڈوالائنز'' (فورتھ ایڈیشن جنوری 2013) میں صفحہ نمبر 299 پہ لکھا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے واقعتاً ہندوستان کو سکھ حریت پسندوں کی لسٹیں فراہم کی تھیں جن کی وجہ سے ہندوستان کے لیے سکھوں کی جنگ آزادی کو کچلنا ممکن ہوا ۔

آج تک پیپلزپارٹی نے اس بات کی کوئی صفائی نہیں دی کہ پھر آخر کیا ہوا کہ 1988-89 میں اچانک بھارت اس قابل ہوگیا کہ اس نے چن چن کر سکھ حریت پسندوں کو مار کے سکھوں کی جنگ آزادی کا خاتمہ کردیا؟ سکھوں کی جنگ آزادی کی وجہ سے مشرقی پنجاب بھارتی فوجوں کے لیے ایک غیر محفوظ علاقہ بن گیا تھا اور بھارتی فوجوں کے لیے مشرقی پنجاب کے ذریعے پاکستان پر حملہ کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ سکھ حریت پسندوں کی صفائی کے نتیجے میں بھارت کے لیے پھر سے اس روایتی اور وسیع روٹ سے پاکستان پر بھرپور حملہ کرنا ممکن ہوگیا۔ بھارت اپنے ہاں سکھوں کی جنگ آزادی کے محاذ سے جو آزاد ہوا تو اس نے پاکستان کے خلاف پاکستان میں دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے محاذ پہ محاذ کھولنے کا آغاز کردیا۔ یہ سلسلہ کراچی سے شروع ہوا اور پھر سوات، فاٹا اور بلوچستان تک پھیل گیا۔

پاکستان کے ہزاروں فوجی اور شہری اس دہشت گردی میں شہید ہوگئے جب کہ الٹا ہندوستان دنیا بھر میں بین الاقوامی فورمز پہ پاکستان کو دہشت گرد ملک بناکر پیش کرتا رہا۔ آج تک کبھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے کوئی حساب دیا کہ ان کی حکومتوں نے پاکستان میں ہندوستان کی جانب سے دہشت گردی کی سرپرستی کے خلاف اقوام متحدہ میں کتنی قراردادیں پیش کیں۔

چلیے اقوام متحدہ میں اگر ممکن نہیں تھا تو او آئی سی میں کتنی قرار دادیں پیش کیں؟ چلیے اگر او آئی سی میں بھی ممکن نہیں تھا تو خود پاکستان کی قومی اسمبلی میں کتنی قراردادیں پیش کیں؟ کیا پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے آج تک صفائی پیش کی کہ اگر ان کی حکومتوں نے ایسا نہیں کیا تو کیوں نہیں کیا؟ ن لیگ نے تو کبھی کلبھوشن یادیو کا نام نہیں لیا اور ن لیگ کی حکومت نے کلبھوشن یادیو کے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے تمام ثبوتوں کے باوجود کبھی اسے دہشت گرد نہیں کہا ۔ کیا کبھی ن لیگ نے صفائی پیش کی کہ اس کی حکومت نے ایسا کیوں کیا؟ جب کہ بھارت پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گرد ملک بناکر پیش کرتا رہا ہے۔

این آر او جمہوریت کے تقریباً دس سال کے بعد ن لیگ کی حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں پہ بھارتی مظالم کے خلاف بات کی تو وہ بھی اس طرح کہ 23 ستمبر 2017 کو پاکستان کی اقوام متحدہ میںمستقل نمایندہ ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیل کے مقبوضہ غزہ کے علاقے میں 17 سالہ فلسطینی لڑکی راویہ ابو جومہ کی 2014 میں لی گئی مشہور فوٹو کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی پیلٹ گن سے متاثرہ کشمیری لڑکی کی تصویر کے طور پر لہرا لہرا کے دکھایا۔

نتیجتاً پاکستان اور کشمیریوں کا کیس تو کیا اجاگر ہوتا الٹا پاکستان مذاق کا نشانہ بنا اور بھارت کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ پاکستان اقوام متحدہ میں بھی بھارت کے کشمیریوں پہ مظالم ثابت نہیں کرسکا اور جعلی ثبوت پیش کر رہا ہے۔ کیا آج تک ن لیگ نے صفائی پیش کی کہ پاکستان کا اتنا بڑا تماشا بنوانے کے باوجود بھی ان کی حکومت نے کیا اقدام کیا ؟ خود ہمارے میڈیا نے بھی جو عمران خان کے ہیلی کاپٹر سے چند کلومیٹر کے سفرکے ایک ایک روپے کے خرچے پر کڑی نظر رکھتا ہے اس نے پاکستان کی جگ ہنسائی کے اتنے بڑے معاملے کو کیوں دبا دیا، کبھی خود اس میڈیا نے یہ صفائی پیش کی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں