غیر ملکی تارکین وطن

غیر ملکی تارکین کے حقوق ایک بین الاقومی معاملہ ہے۔ اقوام متحدہ کا بین الاقوامی کنونشن ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan September 26, 2018
[email protected]

عمران خان اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی دفعہ کراچی آئے، تو امید تھی کہ وزیر اعظم شہرکی زبوں حالی پر توجہ دیں گے مگر انھوں نے غیر ملکی تارکین وطن کو پاکستانی شہریت دینے کی تجویز پیش کر کے کراچی کے مسائل کو مزید ابتر کرنے کا خیال پیش کر دیا۔ انھوں نے سینیٹ میں افغانیوں اور بنگالیوں کو پاکستان کی شہریت دینے کے مسئلے پر اپنے ذہن کو عوام کے سامنے واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔

افغانیوں اور بنگالیوں کی نسلیں یہاں آباد ہیں۔ ان کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کی بناء پر روزگارکی سہولتیں میسر نہیں۔ یہ لوگ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز میں ملوث ہیں، یوں انھیں قانونی تحفظ فراہم کرکے قانون کے دائرے میں زندگی گزارنے کا راستہ اختیارکیا جاتا ہے ۔

غیر ملکی تارکین کے حقوق ایک بین الاقومی معاملہ ہے۔ اقوام متحدہ کا بین الاقوامی کنونشن ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ غیر قانونی بنگالیوں کا معاملہ صرف کراچی تک محدود ہے۔ افغان باشندوں کا معاملہ سندھ اور بلوچستان کا ایک اہم ایشو ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل اور تحریک انصاف کے درمیان 25 جولائی کے انتخابات کے بعد ایک 6 نکاتی معاہدہ ہوا تھا ۔ اس معاہدے کی ایک شق کے تحت وفاقی حکومت بلوچستان سے افغان مہاجرین کو نکالنے اور انھیں افغانستان منتقل کرنے کی پابند ہوگی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی نے اس معاہدے کی بنیاد پر عمران خان کو وزیر اعظم منتخب ہونے کے لیے اعتمادکا ووٹ دیا تھا اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کی حمایت بھی بی این پی نے اسی معاہدے کی بنیاد پر کی تھی ۔ کراچی کے مسائل کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ملک کے مختلف علاقوں سے لوگوں کا یہاں آکر آباد ہونا بھی ہے۔کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں اب بھی صنعتیں کام کر رہی ہیں۔

سروس فراہم کرنے والے لاکھوں چھوٹے بڑے ادارے یہاں موجود ہیں۔ شہر میں چھوٹے بڑے کاروبارکے بڑے وسیع مواقعے موجود ہیں۔ قبائلی علاقوں سے لے کر بلوچستان ، پنجاب ، خیبرپختون خوا اور اندرون سندھ سے لاکھوں افراد کراچی آتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے خاندان تو وہ ہیں جو 70 سال پہلے آکر آباد ہوئے اور روزگار کے جھنجھٹ میں کراچی کے ہوکر رہ گئے۔

60ء کی دہائی تک ہندوستان سے ہجرت کرکے لوگ کراچی میں آباد ہوتے تھے۔ بھارت اور پاکستان میں ویزا سسٹم کے نفاذ اور بھارت میں مسلمانوں کے مواقعے بہتر ہونے کی بناء پر بھارت سے آنے والوں کا سلسلہ بند ہوگیا۔70ء کی دہائی کے آخری عشرے تک پنجاب سے لوگ تعلیم اور روزگار کے لیے کراچی میں آباد ہوتے رہے، اگرچہ پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے کراچی سے دار الحکومت اسلام آباد منتقل کیا مگر اسی دوران پٹھانوں نے کراچی کو اپنا گھر بنالیا، یوں خیبرپختون خوا اور بلوچستان سے پٹھانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔

80ء کی دہائی کی آخری عشرے میں کراچی میں خون ریز فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں پٹھان براہِ راست نشانہ بنے مگر پٹھانوں نے کراچی کو نہیں چھوڑا، یوں کراچی دنیا بھر میں پٹھانوں کا سب سے بڑا شہر بن گیا۔ 90ء کی دہائی سے سرائیکی علاقے اور اندرون سندھ سے سندھی بڑی تعداد میں کراچی میں آباد ہونے لگے۔ کراچی میں روزگارکے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کی جدید سہولتیں موجود ہیں ۔ یہ سہولتیں سرکاری شعبے سے زیادہ نجی شعبے میں ہیں، یوں لاکھوں افراد تعلیم اور علاج کے لیے ہمیشہ سے کراچی آتے ہیں۔

گلگت اور بلتستان میں تعلیم کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں تو اس وقت سے اس علاقے کے نوجوان بھی تعلیم کے حصول کے لیے کراچی آتے تھے۔ ان میں سے بہت سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں ہی آباد ہوگئے۔ کچھ لوگ خلیجی ممالک ، یورپ، امریکا اورکینیڈا چلے گئے۔ ان میں سے بہت معمولی تعداد ریٹائر ہونے کے بعد اپنے علاقوں میں واپس چلی گئی۔ 70ء کی دہائی تک کراچی میں صنعتیں لگ رہی تھیں۔ روزگارکے مواقعے وافر مقدار میں موجود تھے۔

بلدیاتی ادارے منصوبہ بندی کے تحت سہولتیں فراہم کررہے تھے، نئی بستیاں آباد ہورہی تھیں۔ جو افرادکراچی آنے کے خواہش مند تھے تو ان کے عزیز دوست ان کے آنے سے پہلے ہی ان کے لیے روزگار اور ملازمتوں کا بندوست کرلیتے تھے مگر وفاق اور صوبائی حکومتوں کی ترجیحات کی تبدیلی کی بناء پر مستقبل کے لیے منصوبہ بندی نہیں ہوئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم اور امن و امان کے مسائل پیدا ہونے لگے۔

سندھ صوبے نے سب سے پہلے پاکستان کے حق میں قرارداد منظورکی تھی اور سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے ہندوستان کے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سندھ میں آکر آباد ہوں۔ اس قرارداد کے روحِ رواں جی ایم سید تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہندوستان کے صوبہ بہار میں فسادات سے متاثر ہونے والے بہاری مسلمان 40ء کی دہائی میں کراچی میں آباد ہوئے تھے۔

سندھ کے لوگوں نے ہندوستان کے بٹوارے کے بعد وہاں سے آنے والے اردو بولنے والوں کو خوش آمدید کہا تھا مگر 70ء کی دہائی سے سندھ میں یہ احساس پیدا ہوا کہ باہر سے آنے والے افراد کی تعداد بڑھنے سے وہ اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اس احساس کی حقیقی وجوہات تھیں۔ سندھی زبان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ اس کی بڑی مثال تھی۔

یہی وجہ تھی کہ 1971ء میں بنگلہ دیش آزاد ہونے کے بعد جب وہاں بہاری معتوب ہوئے تو جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان نے یہ تحریک شروع کی کہ بہاریوں کو سندھ میں آباد کیا جائے تو سندھ میں ایک موثر احتجاجی تحریک شروع ہوگئی جس کی بناء پر اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فیصلہ کیا کہ بہاریوں کو پنجاب اور خیبرپختون خواہ میں آباد کیا جائے گا، مگر جب جنرل ضیاء الحق نے امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے شروع کردہ افغان پروجیکٹ میں شرکت کی اور افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف جہاد شروع کیا تو افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ لوگ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے راستے کراچی تک پہنچ گئے۔ کراچی میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر عام ہوا۔ افغان بچے کوڑا کرکٹ اٹھاتے ہوئے نظر آنے لگے۔

جنرل ضیاء الحق کی نرم پالیسی کی بناء پر بنگالیوں، برمیوں اور دیگر ممالک سے لوگ کراچی میں آکر آباد ہوئے۔ ان لوگوں نے ماہی گیری، شپ بریکنگ اور ملحقہ صنعتوں پر قبضہ کرلیا جس کی بناء پر مقامی افراد کے لیے روزگار کے مواقعے کم ہوئے اور یہ لوگ بھیانک جرائم میں ملوث ہوئے۔ بچوں اور عورتوں کی تجارت، ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان اور مذہبی دہشتگردی کی وارداتوں میں ان لوگوں کو درپردہ پولیس افسروں نے تحقیقی رپورٹیں تیار کیں۔ بنگلہ دیش میں معاشی صورتحال بہتر ہونے کی بناء پر وہاں سے کراچی آنے والوں کا سلسلہ رک گیا۔کراچی میں آباد بنگالیوں کے بنگلہ دیش میں آباد اپنے عزیزوں سے قریبی روابط ہیں۔ ان لوگوں کا بنگلہ دیش آنا جانا ایک معمول کی بات ہے۔ ان لوگوں کو بہرحال اپنے وطن واپس جانا ہے۔

وفاقی حکومت کی اس حکمت عملی کے نتیجے میں سندھ میں ایک نیا تضاد پیدا ہوگا۔ ایک طرف سندھ کے لوگوں کو اکثریت ختم کرنے کا خدشہ پیدا ہوگا تو دوسری طرف کراچی کے گھمبیر مسائل میں اضافہ ہوگا۔ افغان باشندے ہوں یا بنگالی یا برمی باشندے یہ سب اپنے ممالک کے معاملات سے منسلک ہیں، یوں اگر انھیں پاکستان کی شہریت اور شناختی کارڈ دیا گیا تو ان کے رشتے داروں کی کراچی آنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی سرحدیں پار کرنا کوئی مشکل کام نہیں اور یہ سلسلہ جو مختلف وجوہات کی بناء پر ماند پڑگیا ہے پھر تیز ہوجائے گا۔ کراچی کے مسائل مزید شدت اختیار کرجائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ پناہ گزینوں کا مسئلہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ ان کی زندگیوں کا تحفظ اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی پاکستانی ریاست کی ذمے داری ہے۔

اقوام متحدہ کا پناہ گزینوں کا ادارہ افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجنے کے پروجیکٹ پر کام کررہا ہے۔ نئی حکومت نے ان مہاجرین کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا تو سارا بوجھ پاکستان پر آجائے گا۔ بنیادی طور پر تحریک انصاف کی حکومت کو افغانستان، امریکا، چین، بھارت اور ایران کے ساتھ مل کر افغانستان میں حالات معمول پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ یہ لوگ اپنے علاقوں میں واپس جائیں، اسی پالیسی میں سب کا بھلا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں