فیصل رشید عام سا آدمی ہرگز نہیں ہے
لازم ہے کہ مذہب اورسیاست میں بہت سے عناصرایک جیسے تھے۔مگر رواداری بہت حدتک موجود تھی۔
فیصل رشیدکے ساتھ نشست حددرجہ برجستہ اورسادہ تھی۔یقین ہی نہیں آتاکہ ایک سادہ دکھائی دینے والاانسان برطانیہ کے ہائوس آف کامنزکاممبرہے۔برٹش پارلیمنٹ کارکن ہے۔برطانوی شہری ضرورہے مگراپنے پرانے وطن کی مٹی سے گندھاہواانسان ہے۔
فیصل سے میری پہلی ملاقات تھی۔چنددوستوں کوبھی مدعوکررکھاتھا۔ذہن میں تھاکہ ٹیڑھا منہ کرکے اُردواور انگریزی زبان بولنے والاایک ایسا شخص ہوگاجس سے دل بہت جلدی اُکتا جائیگا۔ مگر معاملہ بالکل اُلٹ نکلا۔سب سے زیادہ مسرت اس بات پر ہوئی کہ اس کے دل میں پاکستان کی محبت بھرپورطریقے سے موجزن تھی۔حب الوطنی کاثبوت وہ خواب تھے جو اپنے پرانے دیس یعنی پاکستان کے متعلق اس کی آنکھوں میں موجودتھے۔
ان خوابوں کی تعبیر کیاہوگی،یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔مگرفیصل جیسے نوجوان،مغرب میں رہنے کے باوجود، اپنے ملک کے لیے کچھ کرناچاہتے ہیں۔ان لوگوں کی طرح نہیں جوامریکا اور لندن میں رہتے ہوئے ہر وقت اپنے پرانے دیس پرصرف تنقیدکرتے رہتے ہیں۔ عملی طورپرکچھ نہیں کرتے۔ شاید کرناہی نہیں چاہتے۔ صرف باتیں کرناجانتے ہیں۔مگریہ نوجوان ایم پی حقیقت میں آگ کادریاپارکرناچاہتاہے۔
نشست میں ہرطبقہ فکرکے لوگ موجود تھے۔ اپنے اپنے شعبوں کے کامیاب ترین لوگ۔ہرطرح سے ایک دوسرے سے مختلف۔مگرفکری طورپرملک کی بہتری کے لیے کوشاں رہنے میں حیرت انگیز طور پر یکساں۔بات چیت کا سلسلہ مکمل طورپرغیررسمی تھا۔ ہرشخص اپنانکتہِ نظرتہذیب کے دائرے میں رہ کر دوسروں کے سامنے رکھ رہا تھا۔محسوس کیا کہ فیصل باتیں کم کرتاہے اورسنتا زیادہ ہے۔اس سے پہلے کہ کچھ مزیدعرض کروں، بتاناضروری سمجھتاہوں کہ فیصل پاکستان میں پیداہوا۔یہیں پلابڑھا۔
فیصل آبادکے لاسال اسکول سے تعلیم حاصل کرکے لاہور آگیا۔ یہاں ایک نجی ادارے سے ایم بی اے کرنے کے بعدلندن چلاگیا۔پوچھ نہ پایاکہ یوکے کی سیاست میں کیسے داخل ہوا۔بلکہ اصل سوال تویہ بھی ہے کہ کیونکراس مشکل مرحلے کوعبورکرپایا۔ سب کاگمان تھاکہ یوکے کی سیاست توامیرطبقے کی لونڈی ہے۔ اس میں گورے اورکالے کی سیاسی تفریق بھی بدرجہ اَتم موجودہوگی۔چنانچہ کیسے ہوا،کہ ایک درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والاانسان سیاست میں آیا اور پھرایک مشکل مرحلے سے لے کردوسرے بلکہ تیسرے مشکل ترین مرحلے پر حاوی ہوتاگیا۔
فیصل نے سادہ الفاظ میں بتایاکہ وہ ایم پی بننے سے پہلے ایک شہرکاڈپٹی میئرتھا۔یوکے کے متعلق گزارش کرتا چلوں کہ وہاں تمام حکومتی اختیارات میئراورڈپٹی میئر کے پاس ہوتے ہیں جوایک الیکشن کے ذریعے اپنے عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔ سرکاری طور پر ملکہ کا نمایندہ ہوتے ہیں۔ نچلی سطح کے تمام اختیار میئر اور اس کی ٹیم کی جیب میں ہوتے ہیں۔پولیس اور دیگر محکمہ اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔
مقامی سہولیات کو بہترسے بہترین بنانا میئر اور ڈپٹی میئرکی ذمے داری ہوتی ہے۔ٹیم کی اختیارات کے ساتھ ساتھ احتساب اور شفافیت بھی کمال درجہ کی ہوتی ہے۔پبلک کے پیسوں میں ٹکے ٹکے کا حساب رکھنا میئر اور ڈپٹی میئر کی ذمے داری ہوتی ہے۔ ہر وقت اس کا کردار لوگوں کی نظر میں پیہم رہتا ہے۔ عوام ہرگھڑی اپنے مقامی منتخب نمایندوں کی ہرطرح کی چھان بین کرتے رہتے ہیں۔
ہماری طرح نہیں کہ وزراء اعلیٰ نے رحم کھا کر اگر، مقامی حکومتوں کا نظام قائم کر ہی دیا۔ عدالت عالیہ کے حکم کے تحت مجبوراً مقامی حکومتوں کے الیکشن کرواہی دیے۔ تو نہ انھیں اختیارات منتقل ہوئے اور نہ ہی وسائل۔ کونسلراور لوکل سطح کے منتخب نمایندوں کو الیکشن کے ذریعے منتخب تو کر لیا گیا۔ مگر اختیارات کے بغیر وہ صرف اور صرف ہزیمت اُٹھانے کے لیے رہ گئے۔آپس کی چپقلش اور بے اختیاری نے سماجی تنائو میں مزید اضافہ کردیا۔
دراصل ہمارے سیاسی حکمرانوں کوکبھی لوکل گورنمنٹ کے نظام سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔سابقہ حکمران توصرف ایک فارمولے پر عمل پیرا تھے۔اختیارات کی مکمل مرکزیت۔ ہر ایک کو اپنا محتاج بنانے کی روش۔ لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی جزوی کوشش کو بھی ایک احسان اور حکومتی تحفے کی شکل میں بدلنے کی کاریگری۔ ان دس سالوں میں اول تو مقامی حکومتیں بنی ہی نہیں۔ دو ایک برس پہلے جو کچھ ہوا،وہ ایک مذاق توضرور تھا۔مگربلدیاتی نظام ہرگز ہرگز نہیں تھا۔شکرہے فیصل رشید کو ابھی ان تمام کوتاہیوں کا علم نہیں۔ورنہ اس کی خدمت کاصاف ستھراجذبہ ماند پڑ سکتا تھا۔
یہ تونہیں عرض کر سکتاکہ فیصل سے کوئی سوال وجواب کا سلسلہ ہوا۔مگریہ ضرورعرض کرسکتاہوں کہ اس کے خیالات جاننے کاموقعہ ضرورمیسرآیا۔وہ مقامی گورنمنٹ نظام کاسخت بلکہ کٹر حامی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ترقی کااصل دروازہ مقامی نمایندے ہی کھول سکتے ہیں۔یہ ایم پی اے اور ایم این اے کا کام ہی نہیں کہ گلیاں اور نالیاں ٹھیک کروائیں۔ سڑکیں بنوائے اورسولنگ لگوائے۔پارلیمنٹ کے ممبران صرف اورصرف قانون سازی کے لیے ہیں۔
فیصل رشیدپاکستان کے صحت کے نظام کو بہتر کرنے کی حیرت انگیز تجاویز دیتا ہے۔ ہرمہذب انسان کی طرح،وہ بھی یہی سوچتاہے کہ تعلیم ٹھیک ہوگی تومعاشرہ سدھر جائیگا۔ لہٰذاجوہری نکتہ تعلیم کی بہتر سہولیات فراہم کرنے سے شروع ہوتاہے اوراسی پر ختم ہوجاتاہے۔تعلیم،صحت اورلوگوں کے مسائل کو حل کرنے کا نام ہی حکومت ہے۔ بقول اس کے صرف اور صرف مقامی حکومتوں کاکام ہے۔
بتانے لگاکہ جس حلقہ سے ڈپٹی میئربنا،وہ اکثریتی طورپرگوروں کاعلاقہ ہے۔پھرجہاں سے لیبرپارٹی کی جانب سے ایم پی بنا،وہ علاقہ بھی اکثریت طورپرسفیدفام لوگوں پرمشتمل ہے۔یہ ایک ایساسچ ہے جسکوگہرائی سے جاننے اورپرکھنے کی ضرورت ہے۔برطانیہ کے شہری جنھیں ہم میں سے اکثر لوگ، ''نسل پرست'' گردانتے ہیں، دراصل ہمارے درجہ کے بنیادپرست نہیں ہیں۔ہم تو فرقے، برادری، نسل، رنگ اورقبیلے کی بنیادپربٹے ہوئے گروہ ہیں،جنھیں بہت مشکل سے قوم کہا جاتا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کربتائیے کہ کیا ہمارے اہم عہدوں پر ایک خاص ذہنی اورمذہبی سوچ والے کے علاوہ،کسی مختلف انسان کوآنے کی اجازت ہے۔
صاحب، ہرگز نہیں۔ہم اپنے آپ کو برباد کرلینگے،بلکہ کرچکے ہیں۔ مگراپنی ناک سے آگے دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر بُرانہ منائیں توعرض کرنا چاہتا ہوں۔ جتنا تعصب ایک دوسرے کے متعلق ہمارے معاشرے میں ہے، وہ مغرب کی کسی بھی مہذب سوسائٹی میں سوچاتک نہیں جاسکتا۔ہمارے ہاں تو ملازمین کے برتن تک الگ ہوتے ہیں۔گھروں میں کام کرنے والے ہمارے مسیحی بھائی، کیا ہمارے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر کھاناکھانے کا تصور کرسکتے ہیں۔ اس طرح سوچنا بھی محال ہے۔
باہمی باتوں میں بہرحال ایک بات پرتوسب متفق تھے کہ1977ء تک کاپاکستان،آج کے ملک سے حد درجے مختلف تھا۔لوگوں میں شعوری پختگی بھی تھی اورمخالف بات سننے کاحوصلہ بھی تھا۔مذہب کو ریاستی امورسے کافی حدتک علیحدہ رکھاگیاتھا۔لازم ہے کہ مذہب اورسیاست میں بہت سے عناصرایک جیسے تھے۔مگر رواداری بہت حدتک موجود تھی۔ ہر انسان کوکافی حدتک آزادی تھی کہ اپنی زندگی تہذیب کے دائرے میں رہ کرآرام سے گزار سکتا تھا۔ مگر گزشتہ تیس چالیس برس میں پاکستان کی"مذہبی بنیاد "پرخوفناک"سوشل انجینئرنگ"کی گئی ہے۔
پوری دنیاچیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ تم لوگ تمام دنیاسے متضادڈگرپرچل رہے ہو۔مگرہمارے کان پرجوں تک نہیں رینگ رہی۔نناوے فیصدپاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ دنیاغلط کہہ رہی ہے۔ہم بلکہ صرف ہم ہی ٹھیک ہیں۔ اس کے علاوہ ساری دنیاکے تمام معاملات کو درست کرنے کا ٹھیکہ بھی صرف اورصرف ہمارے پاس ہے۔جذباتیت اور تشددپسندی،ہماری فکر کا حصہ بنادی گئی ہے۔ہم ایک محدود فکری دائرے سے باہرنکل کرسوچنے کوگناہ سمجھتے ہیں۔خیال ہے کہ ہماری سوچ بے حدمحدودکردی گئی ہے۔کوئی حکمران جرات نہیں کرسکتاکہ پورے سماج کی سوشل انجینئرنگ کے عمل کوختم کرے۔معاشرے کوجدیدفلاحی ریاست بنانے کی کوشش کرے۔
ذاتی خیال ہے کہ جوحکمران یہ سوچنے کی بھی جرات کریگا،اس کی حکومت دنوں میں نہیں،منٹوں سیکنڈوں میں گرادی جائے گی۔اس کے بعداس کے ساتھ ہمارانظام کیاکریگا، سوچتے ہوئے بھی خوف آتاہے۔فیصل رشید بتانے لگاکہ خود تصور بھی نہیں کر سکتاتھاکہ یوکے جاکر سب سے برگزیدہ ایوان کاحصہ بننے میں کامیاب ہوجائیگا۔ مگر برطانوی نظام میں کافی حدتک انصاف موجود ہے۔ محنت کوباثمربنانے کا گُرمغربی معاشرہ بخوبی جانتا ہے۔اسی محنت کاجیتا جاگتا ثبوت ہمارایہ نوجوان پاکستانی ایم پی ہے۔
ایک گھنٹہ کی نشست دوگھنٹے تک طویل ہوگئی۔سب لوگ دل سے باتیں کررہے تھے۔دل سے کہی ہوئی باتوں میں سچ تو خیرہوتا ہی ہے۔مگرگفتگوحددرجہ تواناہوجاتی ہے۔ فیصل رشیدکے ساتھ یہ دوگھنٹے لمحے سے بن گئے۔پتہ ہی نہیں چلاکہ اتناوقت ہوچکاہے۔نشست چلتی رہتی اگراسے کسی دوسری جگہ کھانے پرنہ جاناہوتا۔آج ایک عجیب سی خوشی ہے۔
ہمارے ملک کاایک نوجوان،برطانیہ میں ضلع حکومتوں سے ترقی کرتاکرتاہائوس آف کامنزکارکن بن جائے، اس سے بڑھ کرہمارے لیے اوراعزازکیاہوگا۔ایک بات اور،یہ نوجوان ہے توبرطانوی سیاست کاکھلاڑی۔مگر اپنے اصلی وطن یعنی پاکستان کے لیے بھی مثبت کام کرنا چاہتا ہے۔ یقین ہے، خدا، فیصل رشیدکے نیک عزائم کوپایہ تکمیل تک ضرورپہنچائے گا۔وہ حددرجہ کامیاب ہوگا۔فیصل رشیدعام سانظرآنے والانوجوان ضرورہے،مگرعام ساآدمی ہرگز نہیں ہے!