سفید دیوی کالی پٹی اور ٹیڑھا ترازو
یقینی طور پر ہم کچھ بھی معلوم نہیں کر پائے کہ یہ دیوی کیوں ہے؟
معاملہ گھمبیر ہے اور کچھ ایسا ویسا معمولی نوعیت کا بھی نہیں بلکہ نہایت ہی ہائی فائی کیٹگری کی '' گھمبیر'' ہے۔ایک ایسا تحقیقی پراجیکٹ ہمارے سامنے ہے کہ جائے ماندن نہ پائے رفتن یعنی ہمیں انصاف کی اس دیوی کا ویر اباؤٹ معلوم کرنا ہے جو اکثر آنکھوں پر کالی پٹی باندھے ہاتھ میں ترازو لیے کھڑی ہوتی ہے۔
سب سے مشکل مسئلہ تو یہ تحقیق طلب ہے کہ جب وہ سرتاپا سفید ہے تو آنکھوں پر کالی پٹی کیوں باندھی جو اس کے رنگ پر بالکل نہیں پھبتی ۔یا تو خود کالی ہوتی یا پٹی بھی سفید ہی باندھی ہوتی، خیر اس کی تاویل تو ہم یہ کر سکتے ہیں کہ بیچاری کو اس وقت سفید پٹی دستیاب نہیں ہوئی ہو گی ۔لیکن بند آنکھوں سے ترازو یعنی تولنے کا کام ...کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ خیر تحقیق تو جاری رہے گی پہلے یہ دکھڑا سنیے کہ ہم آخر اس قطعی نا آشنا کوچے میں کیوں اور کیسے آنکلے ؟ تو اس کے لیے پہلے تو ہمیں ''مثنوی رابعہ فتح خان'' کا وہ شعر سنا لینے دیجیے جو ایسے مواقعے پر اچانک یاد آتا ہے پہلے شعر سن لیجیے ۔کہ
داکرمے ڈم ہرگز دبدو نہ آوڑی
چہ چرتہ بدوی دفتحے سرلہ بہ ئے راوڑی
یعنی کرمے بدمعاش بدقماش برائی کرنے سے ہرگز باز نہیں آتا جہاں کوئی برائی ہوتی ہے وہ لا کر فتح خان کے سرمنڈھ دیتا ہے ۔
ہمارا 'کرمے ڈم''بھی ہمارا ٹٹوئے تحقیق ہے جسے ہم اپنا ''خچرراہ'' بنائے ہوئے ہیں۔
جو ہمارا ذریعہ سفر بھی ہے اور وسیلہ ظفر کے بجائے وسیلہ ڈفر بھی ہے لاکھ سمجھایا تھا کہ ہر ٹٹوئن پر ''اچھی نگاہ'' مت ڈالا کرو کسی دن ڈفربن جاؤ گے ''۔نہیں مانا سو ایک پڑوس کی نٹ کھٹ ٹٹوئن نے اس پر ہراسانی یا ہراسگی یا ہراسمنٹ کا کیس ٹھوک دیا لیکن کچہری میں جا کر وہ اپنا مقدمہ اور ممکنہ سزا سے بے نیاز ہو کر اس دیوی کو دیکھنے لگا صرف دیکھنے کی حد تک بات ہوتی تو ٹھیک تھا لیکن کم بخت نے اپنی خوش الحانی کا اظہار کرنا بھی ضروری سمجھا۔وہ تو اچھا ہوا کہ ہم عین وقت پر آنے والے وقت کو بھانپ کر بروقت ادھر ادھر ہو گئے اور پولیس والوں کے سارے ڈنڈے اسی کا نصیبہ ہو گئے ۔لیکن اس کا کیا علاج کہ اب وہ مصر ہو گیا ہے کہ جس حسینہ کے لیے اس نے ڈنڈے کھائے اس کا ویراباوٹ معلوم کیا جائے۔ بہت سمجھایا کہ وہ ایک فرضی دیوی ہے لیکن نہیں مانا کہتا ہے یہی ثابت کرو کہ فرضی دیوی ہے پھر میں اطمینان سے صبر کی چادر یا مٹی اوڑھ لوں گا ۔ہم پھر بھی پس و پیش میں تھے کہ خواتین کے بارے میں ''تحقیق'' سے ہم بدکتے تو نہیں کہ ان کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا، نہ عمر کا نہ موڈ کا اور نہ ویراباؤٹ کا ۔
وہ قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ ایک شخص بازار میں ایک عورت کو پیٹ رہا تھا دوسرے شخص نے کہا کیوں مار رہے ہو بیچاری کو...تو جواب میں اس نے کہاکہ یہ میری اپنی بیوی ہے ۔پیٹتا ہوں تو تمہیں کیا ؟دوسرا بھی ہماری طرح کوئی محقق تھا شاید۔۔بولا۔۔ تو پھر گھر میں جا کر پیٹتے...بازار میں کیوں ؟بولا، گھر میں کبھی ملے تب نا؟
لیکن ہمارے ٹٹوئے تحقیق نے ہمیں یہ کہہ کر مجبور کر دیا کہ میں نے کتنی ناپسندیدہ وناشنیدہ تحقیقات میں آپ کا ساتھ دیا اور آپ میرے مطلب کی اس ایک تحقیق سے بھی انکار کر رہے ہیں ۔
مجبوری تھی آغاز کر دیا چنانچہ پہلے ہمیں یہ پتہ کرنا تھا کہ یہ انصاف کی دیوی ہے یا قانون کی ...چونکہ آج کل ملک انصاف یعنی ''نصف'' بی ونصف لک'' کا دور دورہ ہے اس لیے کسی تحریک انصاف والے سے پوچھنا چاہیے لیکن ہمارے ٹٹوئے تحقیق نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آج کل تحریک انصاف والے پی ٹی آئی کہلاتے ہیں جو صوتی لحاظ سے ''پٹائی'' کے بہت قریب ہے اس لیے کہیں ایسا نہ کہ پٹائی کی نوبت آجائے ویسے بھی یہ پاٹا پوٹا اور پٹا کچھ خطرناک الفاظ ہیں اس پر بنکاک کا ''پٹایا'' آج یاد آیا۔جہاں لوگ واقعی پٹائی کے لیے جاتے ہیں اور پٹ کر آتے ہیں دوبارہ اپنا سر چھاتی اور پیٹ ''پیٹتے'' رہتے ہیں ۔
لیکن ٹٹوئے تحقیق کی نہ مان کر ہم نے ایک پٹائی مطلب ہے پی ٹی آئی والے سے رجوع کر لیا اور واقعی پٹتے پٹتے بچے ۔ بولا دیکھتے نہیں ہم نئے پاکستان کی تعمیر میں اتنے مصروف ہیں کہ سر پیٹنے مطلب کھجانے کی فرصت نہیں اور تم انصاف کی دیوی کے بارے میں فضولیات پوچھنے آگئے۔ہاں انصاف کے دیوتا کے بارے میں پوچھتے تو بتا دیتے کہ کہاں ہے ۔عرض کیا جہاں دیوتا ہوتا ہے وہاں دیوی بھی ہوتی ہے کہ دیوی دیوتا ایک دوسرے کی ''اردھا نجلی''۔ یعنی نصف بہتر ہوتے ہیں یا ہوتی ہیں اور اس بات پر تو وہ پی ٹی آئی والا اپنے جھنڈے سے ڈنڈا لے کر ہماری پٹائی کو دوڑا ۔
کام کی بات ایک دکاندار سے معلوم ہوئی اس نے کہا کہ اس کی آنکھوں پر کالی پٹی اس لیے باندھی گئی کہ ترازو کے پلڑے نہ دیکھ سکے جو ہمیشہ ایک اونچا دوسرا نیچا ہوتا ہے ہم بھی اکثر تولتے وقت ترازو کی طرف نہیں بلکہ گاہک کی آنکھوں پر کالی پٹی باندھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چشم گل چشم عرف سوائن فلو نے تو کمال کا آئیڈیا پیش کیا جس کا تعلق ''چشم'' سے تھا بولا، یہ تو تم جانتے ہو کہ یہ دیوی ان آقاؤں کی تحقیق ہے جن کا رنگ سفید اور آنکھیں سبز ہوتی تھیں یعنی''سفید جسم و سبز چشم''۔۔دیوی کا رنگ تو نہیں بدل سکتے تھے اس لیے آنکھوں پر پٹی باندھ لی کہ پہچانی نہ جا سکے ۔ویسے وہ کمال کے لوگ تھے اپنے جسم کا رنگ بھی یہاں کے ''خون'' میں انجکٹ کرکے گئے ہیں ۔
بہرحال یقینی طور پر ہم کچھ بھی معلوم نہیں کر پائے کہ یہ دیوی کیوں ہے؟دیوتا کیوں نہیں ؟ اس کا جسم سفید کیوں ہے کالا سبز یا سرخ کیوں نہیں آنکھوں پر پٹی کیوں بندھی ہے اور وہ کالی کیوں ہے ؟ اور اس کے ہاتھ میں جو ترازو ہے اس میں کچھ بھی نہ ہونے یعنی پہلے سے اتنا زیادہ پاسنگ یعنی اونچ نیچ کیوں ہے ؟