جمہوریت کا حسن

بالآخربلوچستان کی وزارت اعلیٰ کا قرعہ فال نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے نام نکل آیا۔


Muqtida Mansoor June 06, 2013
[email protected]

NEW DEHLI: بالآخربلوچستان کی وزارت اعلیٰ کا قرعہ فال نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے نام نکل آیا۔ مری میں بلوچستان سے حلیف جماعتوں کے نمایندوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے اعلان کیا ڈاکٹرمالک بلوچستان کے اگلے وزیر اعلیٰ، جب کہ گورنر کا تعلق پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سے ہوگا۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ '' ہم نے اقدار کی خاطر اقتدار سے دستبرداری اختیار کی ہے۔'' اس میں شک نہیں کہ مسلم لیگ(ن) نے جمہوری اقدار کے فروغ کی خاطر جہاں ایک طرف خیبر پختونخواہ میںسادہ اکثریت حاصل کرنے والی تحریک انصاف کو حکومت سازی کا موقع دیا،وہیں دوسری طرف بلوچستان میں عددی اکثریت رکھنے کے باوجود سیاسی بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے وزارت اعلیٰ نیشنل پارٹی کو اور گورنرشپ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کو دینے کا فیصلہ کیاہے۔ یہی جمہوریت کا حسن اور خوبی ہے۔

ڈاکٹرمالک بلوچ ،جو اس اظہاریہ کی اشاعت تک بلوچستان کے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھاچکے ہوں گے قیام پاکستان کے بعد بلوچستان کی تاریخ کے وہ پہلے چیف ایگزیکیٹو ہیں، جو نہ سردار ہیں اور نہ ان کا تعلق کسی سیاسی اشرافیہ سے ہے۔قارئین کی یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ قیام پاکستان سے قبل میر غوث بخش بزنجو مرحوم قلات ریاست کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں،وہ بھی کسی قبیلے کے سردار نہیں تھے۔کیچ ومکران کے قدیمی شہرتربت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مالک طالب علمی سے ترقی پسندی پر مبنی بلوچ قوم پرست تحریک کے سرگرم کارکن رہے ہیں۔ دیگر قوم پرست بلوچ نوجوانوں کی طرح انھوں نے بھی اپنے سیاسی کیرئیرکا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(BSO) سے کیا۔

بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انھوں نے امراض چشم میں اسپیشلائزیشن کی اور طبی پریکٹس کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا۔سب سے پہلے انھوں نے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ(BNYM)قائم کی اور بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہدکاآغاز کیا۔یہی سبب ہے کہ 1981 میں جب میر غوث بخش بزنجو مرحوم نے پاکستان نیشنل پارٹی(PNP) کی بنیاد رکھی، تو اس وقت BNYMنے اس کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ انتخابی سیاست بلوچستان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ لیکن جبBNYM نے بلوچستان نیشنل موومنٹ(BNM)کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی شکل اختیار کی تو اس نے بھی انتخابی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیااور ڈاکٹر مالک نے خود بھی اس جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا۔

دوسری جانب1989ء میں میر غوث بخش بزنجو کے انتقال کے بعد جبPNPمیں پھوٹ پڑی،تومیر صاحب کے دست راست بی ایم کٹی،یوسف مستی خان اور عثمان بلوچ سمیت دیگر رہنمائوں نے PNPکوعابد حسن منٹو کی ورکرز پارٹی کے ساتھ ضم کرکے نیشنل ورکرز پارٹی قائم کی۔ جب کہ میر صاحب کے فرزندگان یعنی میر بزن بزنجو اور حاصل بزنجو نے عطاء اللہ مینگل کے ساتھ مل کر بلوچستان نیشنل پارٹی (BNP)قائم کی۔چند برسوں کے بعدBNPبھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی،تو کچھ عرصہ حاصل بزنجو BNP (عوامی) کا حصہ رہے اور پھر انھوں نے BNMکو ساتھ ملا کر نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔اس طرح ڈاکٹر حئی بلوچ، ڈاکٹرمالک اور حاصل بزنجو اپنے اختلافات فراموش کرکے اس نئی جماعت کا حصہ بن گئے۔نیشنل پارٹی نے جنوبی بلوچستان (کیچ ومکران) میں خاصی مقبولیت حاصل کی اور 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں اس نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔یوں نیشنل پارٹی بلوچستان کی ایک ایسی سیاسی جماعت کے طورپرسامنے آئی ہے، جو ترقی پسندانہ قوم پرستی پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ انتخابی سیاست کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔

بلوچستان کی حالیہ بے چینی اور سیاسی مدوجذر کو سمجھنے کے لیے اس کی ماضی قریب کی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔انیسویں صدی میںہندوستان کے مختلف حصوں پر قبضے کے بعد انگریز حکمرانوں نے ایک افسر رابرٹ سنڈیمن کے ذریعے 1876ء میں خان قلات کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔پانچ برس کی محنت کے بعد 1891ء میںایک معاہدہ طے پایا۔اس معاہدے کی رو سے یہ طے کیا گیا کہ قلات ریاست کے اندرونی معاملات چلانے میں خان قلات مکمل با اختیار ہوں گے۔جب کہ برٹش انڈیا اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ بلوچستان کے سرحدی علاقوں پر انگریزاپنی عملداری کے ساتھ کوئٹہ میں فوجی چھائونی قائم کریں گے۔اس معاہدے کے نتیجے میں خان قلات ریاست کے معاملات آزادانہ طور پر شاہی جرگے کی مدد سے چلاتے رہے۔اس معاہدے کے مطابق انگریز بلوچستان میں ایک چیف کمشنر تعینات کیا کرتے تھے،جو بلوچستان کے شمالی علاقوں کے انتظام کے علاوہ برٹش حکومت کے خان قلات کے ساتھ روابط کا ذریعہ بھی ہواکرتا تھا۔یہ سلسلہ اگست1947ء تک بخوبی جاری رہا۔جب کہ کوئٹہ میں قائم چھائونی نے دوسری اور تیسری افغان جنگ کو روکنے میں اہم کردار اداکیا۔

قیام پاکستان کے بعدفروری 1948ء میں قائد اعظم کوئٹہ پہنچے اور انھوں نے خان قلات کے ساتھ طویل مذاکرات کیے۔ان مذاکرات کے نتیجے میں خان قلات اپنی ریاست کے پاکستان میں انضمام پر چند شرائط کے ساتھ راضی ہوگئے۔ معاہدے کی رو سے کرنسی،خارجہ امور اور دفاع کے علاوہ باقی تمام شعبہ جات حسب سابق ریاست کے کنٹرول میں رہیں گے۔ پاکستان انگریزوں کی طرز پر چیف کمشنر تعینات کرے گا، جو حکومت پاکستان اور ریاستی مقتدرہ کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہوگا۔بدقسمتی سے قائداعظم کے انتقال کے بعد پاکستان کے حکمرانوں نے اس معاہدے کا سنجیدگی کے ساتھ احترام کرنے کے بجائے اسے سرد خانے میں ڈال کر ریاست قلات سمیت پورے بلوچستان پر اپنا کنٹرول قائم کرلیا۔

1955ء میں جب حکومت پاکستان نے سابقہ صوبے ختم کرکے ون یونٹ قائم کیا تو بلوچستان کو بھی مغربی پاکستان کا حصہ بنانے کے لیے اسکندر مرزا نے فوجی آپریشن کیا اور کئی سرداروں کو گرفتارکیا۔اس طرح قائد اعظم کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی پر بلوچستان میں سیاسی بے چینی کا آغاز ہوا۔ایوب خان نے بھی مارشل لاء لگانے کے بعد ملک کے دیگر حصوں کی سیاسی قیادت کی گرفتاری کے ساتھ بلوچستان میں بھی گرفتاریاں کیں۔خاص طور پر 90سالہ سردار نوروز خان کی گرفتاری،ان کے بیٹوں کا قتل اور جیل میں ان کے انتقال نے جلتی پر تیل کا کام کیا،جس نے بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کو جنم دیا۔

1970ء میں سابقہ صوبوں کی بحالی کے ساتھ بلوچستان کو بھی صوبے کی حیثیت حاصل ہوئی۔1970ء کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نے اس صوبے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔سقوط ڈھاکا کے بعد میرغوث بخش بزنجو گورنر اور سردار عطاء اللہ مینگل وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو امید پیدا ہوئی کہ اس صوبے میں حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ لیکن 1973ء میں منتخب حکومت کوتحلیل کرکے ایک بار پھر آپریشن نے بلوچستان کے حالات دگرگوں کردیے۔جنرل ضیاء کے دور میں آپریشن ختم کرنے اور قائدین کی رہائی کے بعدحالات میں کسی حد تک بہتری آنا شروع ہوئی ۔بلوچستان کے قوم پرستوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیناشروع کردیا۔ مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک بار پھر بلوچوں پر شب خون مارا گیا اور85برس کے بلوچ رہنما نواب اکبر خان بگٹی کوقتل کردیا گیا،جس کے نتیجے میں بلوچستان ایک بار پھر بیچینی کا شکار ہوگیا۔

گزشتہ پانچ برسوں کے دوران گو کہ ایک منتخب حکومت بلوچستان میں قائم رہی،لیکن بلوچستان کی صورتحال دگرگوں رہی۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بلوچستان کی حکومت انتہائی نااہل اور کرپٹ ہونے کی وجہ سے بلوچ عوام کی داد رسی کرنے میں ناکام رہی۔ اب جب کہ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاںنواز شریف نے بلوچستان میںنیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹرمالک کو وزیر اعلیٰ نامزد اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کوگورنر شپ دینے کا اعلان کرکے بلوچ عوام کا حق حکمرانی تسلیم کیا ہے،جو ان کی سیاسی بلوغت کا واضح ثبوت ہے۔ اب بلوچستان کی بلوچ اور پختون قیادت سے یہ امید کی جانی چاہیے کہ وہ اس اعتماد پر پورا اتریں گے، جو انھیں دیا گیا ہے ۔ کیونکہ چند روز قبل صدر آصف علی زرداری نے کہاتھا کہ ان کی حکومت نے بلوچوں کے لیے بہت کچھ کرنے کی کوشش کی ،مگر بلوچوں نے خود اپنی حالت تبدیل کرنے پر توجہ نہیں دی۔اس لیے ڈاکٹر مالک اور ان کی ٹیم سے بجا طورپریہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ بلوچ عوام کے اعتماد پر پورا اتریں گے اور بلوچستان کو ایک پرامن صوبہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں