آم کی بہار
اگر ہم اپنے ملک کے وسائل کو دیکھیں اور محسوس کریں تو یہ حقیقت ہے کہ ہمارا شمار دنیا کی خوش قسمت قوموں میں ہوتا ہے۔
اگر ہم اپنے ملک کے وسائل کو دیکھیں اور محسوس کریں تو یہ حقیقت ہے کہ ہمارا شمار دنیا کی خوش قسمت قوموں میں ہوتا ہے۔ ہمارے پاس سال میں موسم بدلتے ہیں، ہر موسم کے الگ الگ، خوشبوئیں اور نعمتیں ہیں۔ متنوع میو ے اور صحت افزا سبزیاں ہیں۔ دنیا کے ایسے ملک بھی ہیں جہاں پورا سال ایک ہی موسم رہتا ہے۔ نہ ان کے پاس صحت بخش غذا ہے اور نہ ہی ثقافت کی رنگینی جو ہمیں اپنے ملک میں ہر طرف نظر آتی ہے۔ جیسے ہی گرمیاں شروع ہوتی ہیں تو ہر طرف آموں کی بہار دکھائی دینے لگتی ہے۔ آم گرمیوں کا خوبصورت تحفہ ہیں جن کے منفرد ذائقے اور مٹھاس سے تو لہجے بھی میٹھے لگنے لگتے ہیں۔
آم کی مٹھاس میں صدیوں کی محنتیں رنگ لاتی ہیں۔ تین سو سال پرانا درخت بھی میٹھا پھل دیتا ہے۔ پانچ سال کی عمر سے یہ درخت میٹھا ثمر دینا شروع کرتا ہے۔ مارچ کے مہینے سے شاخیں کیریوں سے لد جاتی ہیں اور جون و جولائی کی تپتی دھوپ میں آم شاخوں سے جدا ہو کر پھل فروشوں کے ٹھیلوں و دکانوں پر سج جاتے ہیں۔ خریداروں کا ہجوم اور پرستائش نظریں آموں کا طواف کرنے لگتی ہیں۔ آموں کے آتے ہی بازاروں کی ہلچل بڑھ جاتی ہے۔ آم کی کاشت کا آغاز ہندوستان میں چار ہزار سال پہلے ہوا۔ یہ پھل برما، آسام، ملائیشیا، بنگلہ دیش کے بعد یورپ میں بھی برآمد کیا جانے لگا۔
Hewen Ziang پہلا چینی مسافر تھا جس نے آم کو ہندوستان سے باہر متعارف کرایا۔ مغلیہ دور میں آم کی شجرکاری پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اکبر بادشاہ نے اپنی عمر کے ابتدائی ایام فتح باغ اور سیہون میں گزارے۔ یہ وہ دور تھا جب سندھ میں آم کے ان گنت باغات تھے۔ اکبر بادشاہ نے دہلی کی حکومت سنبھالنے کے بعد ہر سال سندھ سے آم منگوانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ اونٹ کی کھال سے بنے ہوئے ڈبوں کو شہد سے آدھا بھر کر اس میں آم ڈال دیے جاتے تھے اور ان ڈبوں کو اچھی طرح سے بند کر کے تیس چالیس اونٹوں کے قافلے دہلی کی طرف روانہ ہو جاتے۔
جہاں یہ آم محفوظ کر لیے جاتے اور اکبر بادشاہ پورا سال سندھ کے ان میٹھے آموں سے محظوظ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر بادشاہ نے لاکھ باغ میں ایک لاکھ آم کے پودے کاشت کرنے کا حکم دیا تھا۔ شالامار باغ میں آج بھی آم کے قدیم درخت ہیں۔ اس خطے میں تاریخ سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یورپ میں آم پندرہویں صدی میں متعارف کیا گیا۔ لیکن آموں کی صحیح معنوں میں کاشت سترہویں صدی سے کی جانے لگی۔ اور یہ برازیل میں اسی دوران متعارف ہوئے۔ آم کا درخت سدا بہار کہلاتا ہے۔ یہ درخت 15 سے بیس فٹ اونچے ہوتے ہیں۔ آم کے درخت کا تنا فرنیچر وغیرہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور ڈھول کی ساخت بھی آم کے درختوں کی لکڑیوں سے ترتیب دی جاتی ہے۔ آیورویدک دواؤں میں آم کے تنے، چھال، پتوں اور کیری کے گودے سے مدد لی جاتی ہے۔
اس موسمی پھل کے آتے ہی گھروں کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں اور خواتین پر باورچی خانے کے کاموں کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ رات کے وقت آم اور چاولوں کے امتزاج سے اہل خانہ محظوظ ہوتے ہیں۔ گھروں کے دسترخوان مربے، چٹنیوں و اچار سے آراستہ ہونے لگتے ہیں۔ سہولت کے ساتھ کفایت بھی گھریلو بجٹ کا حصہ بن جاتی ہے۔ آم کی مقبولیت کی وجہ ذائقے کے ساتھ اسے کھانے کے طور پر پیش کرنا ہے۔ جو روٹی و چاولوں کے ساتھ مرغوب غذا کے طور پر تناول کیا جاتا ہے۔
آم کی کاشت دو طریقوں سے کی جاتی ہے۔ پودے کو زمین میں لگا کر آم کی شجرکاری کی جاتی ہے۔ بیج کے ذریعے آم کی کاشت پاکستان، انڈیا، سری لنکا، آسام، اسپین اور میکسیکو میں کی جاتی ہے۔ پودے کے توسط سے کی گئی کاشت میں پھل میٹھا اور ذائقے دار ہوتا ہے، مگر درخت کمزور اور چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان درختوں پر موسم جلد اثر انداز ہوتے ہیں۔ مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، خیرپور، میرپور خاص اور حیدر آباد کے آم پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ خاص طور پر کا چھیلو فارم کے آم برسوں تک ملکہ برطانیہ کے دسترخوان کی زینت بنتے رہے ہیں۔ لیڈی ڈیانا کی شادی کے موقعے پر بھی مہمانوں کی تواضح سندھ کے آموں سے کی گئی تھی۔
آم کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ مارکیٹ میں چالیس کے قریب آموں کی قسمیں دستیاب ہوتی ہیں جن میں سندھڑی، گلاب خاص، رتول، تموایا، الماس، سبز پوش، نیلم پتہ وغیرہ شامل ہیں۔ آموں کے نام مختلف ذرایع سے لیے گئے ہیں۔ جیسے سندھڑی آم سانگھڑ ضلع میں واقع شہر سندھڑی سے لیا گیا ہے۔ جو سابقہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کا گاؤں ہے۔ جب یہ آم ہندوستان کے اتر پردیش سے درآمد کیے گئے تھے تو ان کا نام ''سندھوری'' تھا جو بعد میں سندھڑی کے نام سے مقبول ہوا۔ سندھڑی آم پوری دنیا میں مقبول ہے۔
آم کے بے شمار طبی فائدے ہیں۔ آم کے آتے ہی چہروں سے تھکن غائب ہو جاتی ہے اور آنکھیں اچھی صحت کی کرنوں سے روشن دکھائی دیتی ہیں۔ کیری کا شربت گرمی کے اثر کو زائل کر دیتا ہے۔ گاؤں دیہاتوں میں لوگ کھیتوں میں کام پر نکلنے سے پہلے کیری میں نمک چھڑک کر کھاتے ہیں اور پورا دن دھوپ میں گزارنے کے باوجود تازہ دم رہتے ہیں۔ سو گرام آم 765 ملی گرام وٹامن اے جسم کو مہیا کرتے ہیں۔ اس میں شامل وٹامن سی اور کیروٹینز جسم کے مدافعتی نظام کو بہتر بناتے ہیں اور کینسر جیسی مہلک بیماری سے بچاتے ہیں۔ آم میں موجود پوٹاشیم اور سوڈیم بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول لیول و دل کی رفتار کو توازن میں رکھتے ہیں۔ وٹامنز کی فراوانی کی وجہ سے آم جلد کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ آنکھوں کے لیے بھی مفید سمجھے جاتے ہیں۔ ریشہ دار پھل ہونے کی وجہ سے آم زود ہضم ہے۔ ایک درمیانی سائز کے آم میں چودہ فیصد شکر موجود ہوتی ہے لہٰذا ذیابیطس کے مریض آموں سے دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، لیکن وہ اگر آم کھانے کے بعد پیدل چلنے کا تہیہ کر لیں تو یہ میوہ ان کے لیے شجر ممنوعہ ہرگز قرار نہیں پائے گا۔
میرپورخاص کے آم بھی بہت مشہور ہیں، ہرسال میرپورخاص میں آموں کی نمائش کی جاتی ہے۔ جس میں آموں کی مختلف اقسام رکھی جاتی ہیں۔ یہ بہت ہی دلچسپ مقابلہ ہوتا ہے۔ جو ججز کے لیے آزمائش طلب مرحلہ بن جاتا ہے۔ اس مقابلے میں لسی کے بڑے بڑے گلاس ججز کے سامنے رکھے جاتے ہیں جو آم کی ایک قسم چکھنے کے بعد وہ لسی کا بڑا سا گھونٹ لیتے ہیں تا کہ زبان دوسرے آم کے ذائقے کا خالص پن محسوس کر سکے اور انعام جائز حق دار تک پہنچ پائے۔
اس پر آشوب دور میں انسان کو کئی مسائل درپیش ہیں جن میں ماحولیاتی آلودگی، وبائی بیماریاں اور کینسر جیسی مہلک بیماری کا بڑھتا ہوا تناسب شامل ہے۔ آج کل پوری دنیا میں فطری اور خالص غذا تجویز کی جا رہی ہے، جس میں میوہ و سبزیاں زیادہ سے زیادہ شامل ہیں۔ جو ان تمام بیماریوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں غذا خود کو فعال و صحت مند رکھنے کے لیے کھائی جاتی ہے جب کہ وہی خوراک ہمارے ہاں فقط ذائقے اور پیٹ بھرنے کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔
اس سال بھی ہر طرف آم کی بہار دکھائی دے رہی ہے۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ بہت سی سبزیوں و پھلوں کی غذائی جزئیات سمیٹے آم کا پھل اہل زمین کے لیے انمول تحفے سے کم نہیں ہے، اور ان چند مہینوں کی حاصل کردہ توانائی پورا سال ہمیں فعال رکھتی ہے۔ اچھی صحت کی ضمانت یہ پھل سماجی رابطوں کو بھی تحرک عطا کرتا ہے۔