وزیراعظم سرکاری ہیلی کاپٹر نیلام کرنے کے بجائے تھر پارکرکی انتظامیہ کو عطیہ کردیں تاکہ خشک سالی اور موت سے لڑتے ہوئے بچوں کی زندگی بچانے کے لیے انھیں شہروں کے بڑے اسپتالوں میں منتقل کیا جا سکے۔ پیپلز پارٹی کی اقلیتی سینیٹرکا یہ مطالبہ تھر پارکر کے حالات کی عکاسی کر رہا ہے۔ تھر پارکر سے روز نوزائیدہ بچوں کے مرنے کی خبریں ملکی اخبارات میں جگہ پا رہی ہیں۔ اس علاقے کے 16 لاکھ لوگ پھر زندگی اور موت کی جنگ لڑرہے ہیں مگر وفاقی حکومت کے ایجنڈے میں تھرپارکر شامل نہیں ہے۔
یوں تو پورا سندھ بارشوں کے نہ ہونے سے متاثر ہے مگر بھارت کی سرحد سے متصل تھرپارکر جو ملک کے سب سے بڑے ریگستان پر مشتمل ہے ایک دفعہ پھر خشک سالی سے متاثر ہوا ہے۔ تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر نے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگانے میں کچھ مہینے لگادیے، شاید ضلع انتظامیہ کو یہ امید تھی کہ اس دفعہ بحیرۂ عرب سے آنے والی مون سون ہوائیں بارشیں ساتھ لائیں گی اور خشک سالی کا خطرہ ٹل جائے گا ، مگر یہ امید بر نہ آئی اور ڈپٹی کمشنر نے 15 اگست کو بورڈ آف ریونیو سے درخواست کی کہ تھرپارکر کو آفت زدہ علاقہ قرار دیا جائے تاکہ خشک سالی سے ہونے والی تباہی کا مقابلہ کیا جاسکے۔
بورڈ آف ریونیو ضلع سے وصول ہونے والی ٹیکس معاف کردے گامگر صوبائی حکومت نے اس صورتحال کا قبل از وقت اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کی اور اب امدادی کارروائیاں شروع ہو رہی ہیں۔ تھرپارکر 6 تحصیلوں پر مشتمل ہے ، اس کی آبادی 16 لاکھ کے قریب ہے، آبادی کا بیشتر حصہ گوٹھوں میں آباد ہے۔
بیشتر لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارتے ہیں ۔ ان میں مسلمان بھی ہیں اور اکثریت نچلی ذات کے ہندوؤں پر مشتمل ہے جو صدیوں سے معاشرے کا پسماندہ طبقہ ہے۔ لوگوں کی اکثریت کھیت مزدور ہے ۔ ان افراد کی تعداد کم ہے جو زرعی ملکیت کے مالک ہیں ، اکثر لوگ گلہ بانی کے پیشے سے منسلک ہیں۔ بہت کم لوگ ملازمتوں سے وابستہ ہیں۔ ملازمت پیشہ افراد میں سے اکثریت محکمہ تعلیم سے منسلک ہیں، باقی کو آبپاشی، زراعت، صحت اور تعلیم کے محکموں میں ملازمتیں حاصل ہیں ۔
تھر پارکر میں بینکوں کی تعداد کم ہے، یوں بینکنگ کے شعبے سے منسلک افراد بھی کم ہیں۔ تھرپارکر کول پروجیکٹ میں تھرکے رہائشیوں کے لیے نئی ملازمتوں کے مواقعے ملتے ہیں۔ ان کمپنیوں نے عورتوں کو بھی ملازمتیں دی ہیں۔ گزشتہ سال سے ایسی عورتوں کی تصاویر اخبارات کی زینت بنی ہیں جو ٹرک ڈرائیور بن گئی ہیں۔ مگر اکثریت اب تک اپنے آبائی پیشے سے منسلک ہے۔
سینئر صحافی سہیل سانگی کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ نوجوانی سے تھرپارکر کے حالات زار کو بدلنے کی تحریک سے منسلک ہیں۔ سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ موجودہ خشک سالی کے سنگین بحران سے سندھ کی حکومت نہیں نمٹ سکتی۔ وفاقی حکومت کو بڑے انسانی المیہ کو روکنے کے لیے فوری طور پر دور رس اقدامات پر توجہ دینی چاہیے ۔ سہیل سانگی کہتے ہیں کہ طویل المدت اقدامات سے ہی اس صورتحال کا دائمی حل نکالا جاسکتا ہے۔
سینئیر صحافی صوبائی حکومت کی قائم کردہ مشاورتی کمیٹی کے رکن بھی رہے ہیں۔ اس کمیٹی نے 2015ء میں اپنی سفارشات تحقیق کے بعد مرتب کی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں ہر 10 میل پر منی ٹاؤن قائم کیا جائے۔ ہر ٹاؤن میں تعلیم، صحت اور آبپاشی کی جدید سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں۔ چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جائیں جہاں بارش کے پانی کا ذخیرہ جمع ہو سکے۔ سہیل سانگی کہتے ہیں کہ خشک سالی کا معاملہ حل کرنے کے لیے زراعت کے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت نے جدید طریقوں کے ذریعے خشک سالی کے نقصانات کوکم کیا ہے۔ اب صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے ایسی فصلوں کو کاشت کیا جاتا ہے جوکم پانی اور کم رقبے پر نشوونما پاتی ہیں۔ ان فصلوں کو اگانے سے ہاریوں کی آمدنی متاثر نہیں ہوتی۔ وہ گندم، چاول اور دیگر ضروری اشیاء خریدنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ان کے مال مویشیوں کو چارہ ملتا رہتا ہے، یوں مویشیوں میں مرنے کی شرح نہیں بڑھتی۔
تھرپارکر میں صدیوں سے گوار باجرہ کی فصلوں پر زور دیا جاتا ہے۔ ان فصلوں کو بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ وسیع رقبے پر کاشت ہوتی ہیں ۔ سہیل کہتے ہیں کہ تھرپارکرکی 6 تحصیلوں میں زیادہ توجہ مٹھی نگر پارکر پر دی جاتی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں بھی ان ہی علاقوں میں زیادہ کام کرتی ہیں ، مگر جھاجھرو اورکالوئی تحصیل وغیرہ خشک سالی سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان علاقوں کو بڑے شہروں سے ملانے کے لیے سڑکیں بھی نہیں ہیں۔ یہ دونوں تحصیلیں راجھستان کی سرحد سے متصل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ تحصیل کے ہیڈکوارٹرز میں امداد فراہمی کی جائے گی۔ جس مقصد کے لیے چھاچھرو، ننگرپارکر، اسلام کوٹ ،کنر،کالوئی ودیلو میں مراکز قائم کیے گئے غریب لوگوں کے لیے ان مراکز تک جانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔ان علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ موجود نہیں نہ گوٹھوں کو شہروں سے ملانے کے لیے سڑکیں تعمیر ہوئی ہیں، یوں ایک ہاری کے لیے ہزار ڈیڑھ ہزار روپے خرچ کر کے امدادی گندم لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ امداد کی تقسیم کا آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے ایک اخباری رپورٹر نے لکھا کہ بعض افراد کو کئی سو میل سفر کر کے 150 کلوگرام کی گندم کا تھیلا مل سکا۔ تھرپارکر میں امدادی کام انجام دینے والی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر شیخ تنویر کو امدادی کاموں کے ناقص ہونے پر سخت تشویش ہے۔
تنویر کا کہنا ہے کہ حاملہ عورتوں اور بچوں کے لیے 150 کلوگرام گندم کچھ بھی نہیں۔ عورتوں اور بچوں کی جانوں کو بچانے کے لیے زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔ پھر حکومت نے گزشتہ سال قومی شناختی کارڈ کی بنیاد پر امداد سے 2لاکھ 87 ہزار خاندانوں کے نام درج کیے تھے جب کہ اس سال صرف 2لاکھ 8ہزار خاندانوں کی فہرست مرتب کی گئی ہے۔ تقریباً 80 ہزار خاندانوں کو جن کے پاس شناختی کارڈ بھی ہیں اور ان کے لیے اب موت کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں ہے۔
اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں میں الزام لگایا جاتا ہے کہ جن کمپنیوں نے آر او پلانٹ نصب کیے ہیں انھیں ادائیگیاں بند کردی گئی ہیں، یوں پیپلز پارٹی کی حکومت کے صاف پانی فراہم کرنے کے دعوے دھرے رہ گئے ہیں۔ ایک دفعہ پھر بدعنوانی اور امدادی کاموں میں رشوت کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ صحت کے امور سے متعلق ماہرین کہتے ہیں کہ تھرپارکر میں کم سن بچوں کی ہلاکتوں کی صورتحال تشویش ناک تو ہے مگر اس کی وجوہات کی نوعیت سماجی اور اقتصادی نظام میں پیوست ہے۔
تھرپارکر میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں کم عمری کی شادی کی روایت بہت مستحکم ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں کی کم عمری میں شادیاں ہوتی ہیں۔ ان بچوں کو جن میں خاص طور پر لڑکیاں شامل ہیں ہمیشہ کم کلورین والی خوراک میسر آتی ہے۔ انھیں خاندان کے مردوں کے بعد کھانا میسر آتا ہے۔ یوں وہ شادی کے وقت لاغر ہوتی ہیں اور مختلف نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہیں۔ شادی کے ساتھ بچوں کی پیدائش کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے، مائیں خون کی کمی کا شکار ہوتی ہیں، بچے کمزور اور بیماریوں میں پیدا ہوتے ہیں ، بچے بھی لاغر اور کمزور پیدا ہوتے ہیں۔ اسپتال میں ماہر ڈاکٹروں اور جدید آلات کی کمی ہے۔ پھر ان غریبوں کے پاس اپنے آبائی علاقے چھوڑنے اور شہروں میں پناہ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
ابلاغ عامہ کے محقق ڈاکٹر عرفان عزیز صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز ان اسپتالوں میں مرنے والے بچوں کی خبریں تو نشر کررہے ہیں مگر کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کے لیے مہم چلانے کو تیار نہیں۔ اسی طرح ہر گوٹھ میں میٹرنٹی ہوم اور خاندانی منصوبہ بندی جیسے اہم معاملے پر آگاہی کے لیے کو ئی توجہ نہیں دے رہا۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کو انتخابات میں تھرپارکر کی بڑی فکر تھی۔ وہ اسے اپنا حلقہ انتخاب بنانے کے لیے روز تقریریں کرنے آتے تھے۔
مریدوں سمیت ہر شخص کے مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کراتے نہیں تھکتے تھے مگر انتخابات مکمل ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی تو سب کچھ بھول کر بین الاقوامی معاملات پر لگ گئے تاہم وزیر اعظم عمران خان کو صورتحال کا فوری ادراک کرنا چاہیے۔ عمران خان کو وزیر اعلیٰ سندھ کے ساتھ تھرپارکرکا دورہ کرنا چاہیے جو دور دراز کے گوٹھوں کا ہونا چاہیے، حکومت کو قلیل اور طویل المیعاد منصوبوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے لے کر خشک سالی کے مسئلے تک ان مسائل کے دائمی حل کے لیے فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ تھرپارکر کے عوام کو مدد کی ضرورت ہے، یہ مدد جتنی جلدی ملے گی انسانی المیہ کم ہوگا ۔