شہر قائد اور قبضہ مافیا
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی جانب سے یہ بیان یقیناً ایک اچھا قدم ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے حال ہی میں عندیہ دیا ہے کہ ایف بی آر کے سو بڑے ڈیفالٹرز کے خلاف بڑا آپریشن کیا جائے گا اور سرکاری اراضی پر قبضہ ختم کرانے کے لیے آپریشن کا دائرہ وفاق کے بعد کراچی تک بڑھایا جائے گا، انسداد تجاوزات مہم میں سرکاری زمینوں پر انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی کے ساتھ مل کر آپریشن کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی جانب سے یہ بیان یقیناً ایک اچھا قدم ہے، تاہم اس ضمن میں چند گزارشات ہیں، امید ہے کہ ان کو بھی مدنظر رکھا جائے گا تاکہ منتخب نمایندوں کے درست فیصلے عوام کے حق میں زیادہ سے زیادہ بہتر ہوں۔
1۔ کراچی میں زمینوں پر قبضے دو قسم کے ہیں، ایک سرکاری اور دوسرے نجی زمینوں پر قبضے کے معاملات ہیں۔
2۔ سرکاری زمینوں پر قبضے کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں، ایک عام شہری جو کسی مجبوری یا کسی قانونی سقم کی وجہ سے سرکاری زمینوں پر رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ عام لوگوں کی بھی دو اقسام ہیں، ایک وہ جو برسوں سے سرکاری ملازمت کے تحت حاصل ہونے والی زمینوں پر رہائش پذیر ہیں، مثلاً کراچی کے علاقے تین ہٹی تا سینٹرل جیل کے مکانات۔ یہ برسوں سے رہائش پذیرہیں جو قانونی لحاظ سے درست نہ ہو تب بھی ان کو وہاں سے ہٹانا درست نہ ہو گا کہ ان کی ایک نہیں دو نسلیں وہاں جوان ہوئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار نے ان لوگوں سے اس وعدے پر ووٹ مانگے تھے کہ وہ اقتدار میں آکر انھیں بے گھر ہونے سے بچائیں گے۔ پھر اگر ان کو یہاں سے ہٹایا گیا تو ایک بڑی آبادی بے گھر ہوجائے گی، جب کہ پی ٹی آئی کی حکومت بے گھر لوگوں کو مکانات تعمیر کرکے دینے کے منصوبے بنا رہی ہے، نیز یہ انتہائی قیمتی زمین ہے جس پر بلڈرز اور دیگر مافیائوں کی نظریں ہیں اور یہ لابی ہر قیمت پر چاہے گی کہ کسی طرح یہاں کی آبادی کو بے دخل کر دیا جائے اور بعد میں یہ زمین اونے پونے داموں خرید لی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے شہر اور شہریوں کو نقصان پہنچے گا، یعنی اس زمین پر بڑی بڑی کمرشل عمارتیں بنا دی جائیں گی، جس سے اس علاقے کی کھلی فضا بھی برباد ہو جائے گی اور یہاں ٹریفک کا دبائو، پانی اور سیوریج کی لائنوں پر بھی شدید دبائو بڑھ جائے گا، جس سے عام شہری بھی متاثر ہوں گے۔
3۔ سرکاری زمینوں پر قابض شہریوں کی ایک تعداد وہ بھی ہے جو انجانے میں اپنی رقم دے کر زمین خرید چکی ہے۔ عرف عام میں یہ 'چائنا کٹنگ' کے نام سے مشہور ہے، ماضی میں ایک مخصوص گروہ نے لوگوں کو لوٹنے کے لیے حکومتی اداروں سے مل کر یہ کھیل کھیلا تھا اور کراچی کے شہریوں کو یہ زمین فروخت کی تھی جس پر عام لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لگا کر یہ زمین خرید کر اپنے مکانات تیار کیے۔ ان میں سے کچھ کے خلاف آپریشن کرکے انھیں بے دخل کر دیا گیا لیکن یہ عوام کے ساتھ سراسر ظلم ہے، اصل مجرم تو وہ ہیں جنھوں نے یہ سب کچھ کیا اور خوب دولت کمائی، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور ان لوگوں کے لیے کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے جنھوں نے یہ سمجھ کر زمین خریدی کہ یہ حکومتی ادارے کی ہے، تاکہ یہ شہری بھی دیکھ سکیں کہ واقعی تبدیلی آئی ہے۔
4۔ کراچی میں زمینوں پر قبضے کا ایک بڑا معاملہ وہ ہے کہ جہاں مختلف سوسائٹیوں کی زمین پر مختلف قوتوں نے قبضے جما رکھے ہیں، مثلاً سہراب گوٹھ سے حیدرآباد کی جانب جائیں تو یہاں اسکیم نمبر 33 کی بے شمار سوسائٹیوں پر افغانیوں نے قبضہ جما رکھا ہے۔ بجنور ہائوسنگ سوسائٹی اور اس کی اردگرد کی دیگر سوسائٹیز کی زمینوں پر یہ افغانی گزشتہ تیس برسوں سے قابض ہیں، عدالتی حکم کے باوجود ان قابضین سے یہ زمین ابھی تک خالی نہیں کرائی جاسکی، جب کہ ان افغان قابضین نے یہاں پختہ مکانات کی پوری آبادی قائم کردی ہے۔ غریب شہریوں نے آج سے کوئی چالیس برس قبل ان سوسائٹیز میں اپنے پلاٹس کی بکنگ کرائی تھی اور ماہانہ قسطیں جمع کرائی تھیں کہ وہ اپنا ذاتی گھر بنا سکیں، مگر چالیس برس گزر گئے عدالتی حکم کے باوجود وہ اپنی زمین سے محروم ہیں۔ فواد چوہدری اور عمران خان کو چاہیے کہ وہ کراچی کے اس اہم مسئلے کو بھی ترجیحی بنیاد پر حل کرکے شہریوں کی امیدوں پر پورا اتریں۔
5۔ باقی رہ گئیں وہ قوتیں جنھوں نے اس شہر کی زمین کو لوٹا، ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے، اس شہر کے تمام کھلے میدان ختم کر دیے گئے، پارکس کو کمرشل بنادیا گیا، اس میں تجاوزات قائم کردی گئیں۔ کہیں شادی ہالز بنا دیے گئے۔ ان سب زمینوں کو خالی کرا کر اپنی پرانی حالت میں لایا جائے تاکہ شہر کی فضا بھی صاف ہوسکے، ماحول کھلا ہوسکے اور شہر کے بچوں اور نوجوانوں کو کھیلنے کے لیے کھلے میدان میسر آسکیں، اس وقت جو پارک بنے ہوئے ہیں ان کی بائونڈری کرکے گیٹ لگادیے گئے ہیں اور یہ ٹھیکے پر دے دیے گئے ہیں، جہاں کرکٹ کھیلنے والے بچوں کو بھی ہزاروں روپے دے کر صرف ایک مرتبہ میچ کھیلنے دیا جاتا ہے لہٰذا ان سب پارکس کی بائونڈریاں ختم اور گیٹ ہٹا دیے جائیں تاکہ عام شہریوں کے بچے جب چاہیں انھیں کھیلنے کے لیے میدان دستیاب ہوں۔ ان پارکس میں سے بہت سے پارکس ایسے بھی ہیں جہاں داخل ہونے کا بھی ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔
6۔ ایک آخری اہم بات یہ کہ چھوٹے چھوٹے قابضین بھی اس شہر میں بہت بڑی تعداد میں ہیں، جن کے پس پشت بڑی بڑی مافیائیں ہیں۔ اس شہر کی سڑکیں، فٹ پاتھ سب بہت کشادہ ہیں، مگر ان پر چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے والوں کے کیبن، ٹھیلے، پتھارے ہی قائم نہیں بلکہ بڑی بڑی کمپنیوںکے جنریٹرز وغیرہ لگانے سے راستے انتہائی تنگ ہوچکے ہیں اور اس کے بعد فٹ پاتھ اور سڑکوں پر بھی تجاوزات قائم کرنے کے بعد سب سے آخر میں خود حکومتی اداروں کی جانب سے نام نہاد پارکنگ قائم کردی گئی ہیں، جس سے راستہ تنگ ہوگیا، ٹریفک جام رہنے لگا اور شہر بدصورت بن گیا ہے۔ گزشتہ ماہ شہر میں جامعہ کراچی کے مسکن گیٹ سے لے کر گلشن چورنگی تک بلدیاتی ادارے کی جانب سے اس ضمن میں کارروائی کرتے ہوئے سڑک اور فٹ پاتھ وغیرہ پر قائم تمام تجاوزات ہٹا دی گئیں، جس کے بعد یہ علاقہ دوبارہ سے کشادہ اور خوبصورت نظر آنے لگا اور سڑک بھی کشادہ ہوگئی، جس سے ٹریفک کی روانی میں آسانی ہوئی، یہ کام پورے شہر میں ہونا چاہیے۔
مندرجہ بالا جو گزارشات پیش کی گئی ہیں اور جو حقائق پیش کیے گئے ہیں، وہ صد فیصد درست ہیں، پی ٹی آئی کی حکومت پہلی دفعہ بنی ہے اور کراچی کے شہریوں نے جس طرح سے دل کھول کر اس کی پذیرائی کی ہے اس کا تقاضا ہے کہ شہریوں کے ان مسائل کو اس طرح حل کیا جائے کہ انھیں مزید پریشانی نہ ہو، بلکہ سہولت میسر آسکے۔ فواد چوہدری نے جن عزائم کا اظہار کیا ہے اور جس طرح عمران خان نے بھی کہا ہے کہ اس عمل میں کوئی سفارش نہ کرے، یعنی کام آزادانہ کرنے دیا جائے، کراچی کے شہری توقع کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت میرٹ پر یہ مسائل حل کرے گی۔