ہمارا حق ہمارا ہے
جس قوم کا حق ستر برس سے مارا جا رہا ہو اور وہ خاموش ہو اس حق کو کوئی کیوں نہ مارے۔
ایک پاکستانی جو ملک کے انتہائی مخدوش حالات سے ڈرا سہما ہے یہ دعا کرتا ہے کہ خدا ملک کے حکمرانوں کو عقل سلیم عطا کرے اور وہ مزید مسائل پیدا کیے بغیر پہلے سے موجود مسائل کے حل کی کوئی سبیل نکالیں۔ ایسے نمائشی اور وقتی اقدامات سے گریز کریں جو ان کے وہم و خیال میں تو ان کی مقبولیت کا سبب بنتے ہیں مگر فی الحقیقت وہ ان کی تضحیک کا باعث بن جاتے ہیں۔
ایسی دعائوں کی ضرورت یوں رہی ہے کہ حکومت اور سول انتظامیہ ایک پیچ پر نہیں لگ رہی اور ہماری افسر شاہی اپنے رنگ دکھا رہی ہے جو حکومت کے لیے بدنامی کا سبب بھی بن رہا ہے۔ یہ یاد رہے کہ دعائیں ان کی قبول ہوتی ہیں جو ان سے پہلے تمام عملی کوششیں کر چکے ہوتے ہیں دنیا اور عالم اسباب کے تمام دوا داروکو چکھنے کے بعد جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ جواب آجائے لیکن سول ملازمین کی بے عزتی کر کے اور انھیں حقارت کا نشانہ بنانے سے نہ آج تک کسی انتظامیہ کی اصلاح ہو سکی ہے اور نہ ہی کبھی ہو سکے گی۔
ریل ہو پی آئی اے ہو یا اسٹیل مل ہو یا کوئی اور سرکاری محکمہ ان کے امراض واضح اور تشخیص شدہ ہیں اس پر مغز ماری کی ضرورت نہیں ہے صرف دیانتدارانہ عمل کی ضرورت ہے ۔ہمت مردانہ کی جرات مومنانہ کی ۔اگر بڑھک کے پیچھے سچ کی دھمک ہو تو نصف حالات تو عمل کرنے سے پہلے ہی درست ہو جاتے ہیں۔ جیسے ان دنوں سرکاری اہلکار عوام سے خوفزدہ ہیں کہ ان کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی دے دی گئی ہے اور آگاہی دینے والے حکمران بن بیٹھے ہیں انھی کا خوف ہے جو افسرشاہی پر سوار ہو چکا ہے اور وہ اب حیلوں بہانوں سے اس خوف کو دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اناڑی حکمران اس کا آسان شکار ہیں۔
ایک مدت کے بعد اس ملک میں ایسا حکمران آیا ہے جس نے عوام کو اپنے حق کی بات کرنا سکھایا ہے اور اب لوگ اپنا حق جاننے لگ گئے ہیں اور اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کو یہ بات باور کرائی جا چکی ہے کہ اگر آج آپ اپنا جائز حق چھوڑ دیں گے تو کل آپ کو کوئی اپنے حق کی بات بھی نہیں کرنے دے گا۔ اور اگر آپ نے جائز حق چھوڑنے کو گواراکرنا شروع کر دیا تو پھر حق مارنے والے آپ کا کوئی حق بھی واپس نہیں کریں گے۔ وہ ہر حق کو غصب کر لیں گے کیونکہ جس کا حق وہ چھین رہے ہیں وہ اسے چھوڑنے پر تیار ہے ۔اس معاشرے میں تو اس کا حق بھی چھن جاتا ہے جو اسے چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا اور جو تیار ہوتا ہے اس کو اس کا حق کون دیتا ہے۔
قبضہ گروپ کسی کا رشتہ دار نہیں ہوتا یہ قبضہ گروپ بازاروں میں بھی ملتا ہے عام زندگی میں بھی دکھائی دیتا ہے اور مسند اقتدار پر بھی جلوہ گر ہوتا ہے اور ان لوگوں کے سہارے اپنا کاروبار چلاتا ہے جو حق سے دستبردار ہونا گوارا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو اپنا حق لینے کے لیے طویل جدوجہد کرتے ہیں اور اس جدوجہد سے باز نہیں آتے اور لے کے رہیں گے اپنا حق کے نعرے پر عمل کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں پاکستان میں ہر قدم پر ہمارا حق کوئی نہ کوئی مار لیتا ہے، بل غلط بنا کر حق مارتا ہے، جائیداد پر قبضہ کر کے حق مارتا ہے کوئی وعدہ کر کے اسے وفا نہ کر کے حق مارتا ہے ،جھوٹ بول کر حق مارتا ہے اور کسی خریداری کی بقایا ریز گاری دبا کر بھی حق مار لیتا ہے ۔ کئی حق ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہم چاہنے کے باوجود نہیں لے سکتے مثلاً آپ کو کوئی غلط بل موصول ہو گیا ہے میٹر سے زائد ریڈنگ ہے لیکن آپ دفتروں کے چکر سے بچنے کے لیے اپنا حق چھوڑ دیتے ہیں جس سے حق تلفی کرنے والوں کو مزید شہ ملتی ہے اور یوں آپ حق تلفیوں کا شکار بن جاتے ہیں۔
اب اگر کوئی میرا حق مارتا ہے تو اسے شاید یہ حق پہنچتا ہے کہ میرے جیسے حق کی قدرو قیمت نہ جاننے والے کا حق مارتا رہے ۔ یہ میری اس بے حسی کی سزا ہے جو مجھے ملنی چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں اس سزا کا حقدار ہوں کیونکہ میں ایسے دستور کو مان چکا ہوں اور اپنا سر جھکا چکا ہوں۔
جس قوم کا حق ستر برس سے مارا جا رہا ہو اور وہ خاموش ہو اس حق کو کوئی کیوں نہ مارے بلکہ ایسا نہ کرے تو اس سے گیا گزرا کوئی نہیں ہو گا۔ ہماری اجتماعی بے حسی اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ ہم خود کشی تک کر لیتے ہیں مگر اس کے مقابلے میں حق حاصل کرنے کے لیے ذرا سی محنت نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنے اندر اپنا حق حاصل کرنے کی جرات پیدا کر لیں تو شاید ہم خود کشی نہ کریں یا موت سے بد تر زندگی گزارنے پر تیار نہ ہوں بلکہ عین ممکن ہے کہ حق مارنے کا دستور نہ چل سکے۔ اپنے ان حقوق کو یاد کیجیئے جو مارے جا چکے ہیں اور مارے جا رہے ہیں۔