انسان مریخ پر ضرور جائے گا لیکن…
زندگی اٹھتی ہے اور ایک کے اندر تو داخل ہوجاتی ہے لیکن دوسرے کو اپنی اثر پذیری سے محروم رکھتی ہے
ہمارے بالکل قریب ایک اور دنیا آباد ہے۔ انتہائی پرجلال، پرشکوہ اور شاندار۔ یہ ہمارا قریب ترین پڑوسی سیارہ مریخ ہے جس کی سطح کا مشاہدہ ہم معمولی چھوٹی دوربین سے بھی کرسکتے ہیں۔ نظام شمسی کی برادری میں شامل یہ سیارہ ہماری زمین سے بہت مشابہ ہے۔ یہ ایک نظام شمسی میں رہنے والے دو بھائی ہیں، سوتیلے نہیں سگے ہیں، ایک ہی خون ہے، بظاہر دونوں کی مدت قیام ایک ہے، دونوں کا عرصہ تسلسل بھی ایک ہے، دونوں ہی سورج کی روشنی سے اثر لیتے ہیں۔
زندگی اٹھتی ہے اور ایک کے اندر تو داخل ہوجاتی ہے لیکن دوسرے کو اپنی اثر پذیری سے محروم رکھتی ہے... آخر کیوں؟ یہ فرق کیوں ہے؟ یہی وہ اہم و القاوی سوال ہے، تھا جس نے دنیائے سائنس میں ایک عرصے ہلچل مچائے رکھی اور عشاق مریخ پر مشتمل اہل سائنس کی ایک مخصوص تعداد ہر دور میں بضد رہی کہ مریخی ماحول حیات آفریں اور حیاتیاتی نقطہ نظر سے سازگار ہے، وہاں پانی بھی وافر مقدار میں موجود ہے، نہریں بہتی ہیں، بادل برستے ہیں اور زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رونق افروز ہے۔
مورخہ 2 جون بروز اتوار 2013 ہر چھوٹے بڑے اخبار کے سرورق پر یہ اہم خبر شایع ہوئی کہ مریخ پر پانی کی موجودگی کے حتمی ثبوت مل گئے ہیں، سرخ سیارے کے ڈیڑھ سو کلومیٹر چوڑے گپل گڑھے کے فرش پر گول کنکر ملے ہیں جس میں زمین کے دریاؤں میں ملنے والی بجری کی شباہت ہے، بی بی سی کے مطابق مریخ پر مشن کے لیے بھیجی گئی خصوصی گاڑی کیوریسٹی نے گپل گڑھے میں کئی چٹانوں میں اس قسم کے مظاہر کی تصاویر کھینچی ہیں، مریخ کے مدار سے نظر آنے والی وادیوں، گزرگاہوں اور ڈیلٹا کے بارے میں بہت عرصے سے خیال تھا کہ یہ پانی سے بنے ہیں لیکن اب کیوریسٹی نے اس بات کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔
امریکا کے پلینٹری سائنس انسٹیٹیوٹ کی ڈاکٹر ریبیکا ولیمز نے کہا ہے کہ ہم عشروں سے اندازے لگا رہے تھے کہ مریخ کی سطح کو پانی نے ڈھالا ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ ہم ندی کے پانی کے بہاؤ کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا (NASA) نے سب سے پہلے گزشتہ برس ستمبر میں کنکروں کی دریافت کی خبر دی تھی، مریخ پر ارضی مظاہر کی عمر کا درست تخمینہ لگانا ممکن نہیں لیکن مریخ گاڑی نے جو چٹانیں دیکھی ہیں وہ یقیناً 3 ارب سال سے پرانی ہیں، ان تصاویر کی مدد سے بخوبی پانی کی گہرائی اور رفتار کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو کبھی مریخ کی سطح پر رواں دواں تھا۔
اہل سائنس کے مریخ پر زندگی کے آثار کے حوالے سے مختلف نظریات رہے، ہم صرف اس زندگی کو جانتے ہیں جس کا ہمیں خود تجربہ ہے اور جو ہماری زمین پر پائی جاتی ہے، ممکن ہے کہ زندگی کی کوئی اور قسم بھی ہو جو کائنات کے کسی اور گوشے میں کسی اور انداز اور صورت میں پائی جاتی ہو، مریخ پر غیر ارضی تہذیب کی تلاش میں کچھ رپورٹس سے قبل بھی کئی اہم قابل ذکر مشن بھیجے گئے۔ ان مہمات سے بھی عجائبات کی ایک نئی دنیا کا انکشاف ہوا۔ ایک اتنی بڑی اور گہری وادی کا سراغ ملا جو نیویارک سے فرانسیکو تک نیچے ہی نیچے پھیلتی چلی گئی ہو۔
بہت بڑے بڑے قدیم آتش فشاؤں کا انکشاف ہوا۔ قطبی برفستان کی اندرونی تہوں نے اپنے راز اگلے، جس سے مریخ کے موسم کے تغیر و تبدل پر روشنی پڑی، صدیوں سے چلنے والی آندھیوں کے گرد و غبار سے سطح پر گہرے اور کٹے پھٹے نشانوں کے مطالعے میں مدد ملی، موسموں کی ایسی خاموش حشر خیزی بھی سامنے آئی کہ اگر زمین پر ایٹمی جنگ ہو تو اس کے ذرات کے اثر سے اس میں فلیتہ لگ سکتا ہے۔
مریخ پر باقاعدہ اہرام کھڑے ہیں، یہ کسی غیر ارضی تہذیب کے بنائے ہوئے ہیں یا خود بخود بن گئے یہ بھی ایک الگ لیکن دلچسپ قصہ ہے، سیکڑوں کی تعداد میں بل کھاتی نہریں، قدیم خشک دریا، دریائی وادیاں، یہ سب کروڑوں سال پہلے کی سی وہ کیفیت ہے جو اتنی ہی مدت قبل ہماری زمین کی تھی۔ مریخ کی فضا، مریخ کی سطح، مریخ کے اندرون کے مشاہدے، انکشاف و دریافت سے سائنس کو نئے نئے تحفے ملے ہیں اور یقیناً واضح طور پر چند عملی فائدے بھی حاصل ہوئے ہیں، اس سے بڑا عملی فائدہ کیا ہوسکتا ہے کہ مریخ کی تفہیم سے ہماری بے چاری زمین کی بہتر تفہیم ہوئی ہے۔
لیکن اہل سائنس مریخ کے مزید انکشافات سے باز آنے والے نہیں وہ مزید سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے اور تحقیق کے نئے باب وا کرنے میں رات دن مصروف عمل ہیں۔ انکشاف و جستجو انسان کا مقدر ہے اور ضرورت بھی۔ روز اول سے ہماری متجسس و متلاش روح ہمارے بطن میں سمائی ہوئی ہے۔
نامعلوم سی جستجو خواہ ہم خود کریں یا اپنے بنائے ہوئے روبوٹ اور آلات کے ذریعے کریں، نمایاں مفہوم ہے۔ ہم فطرت و قدرت کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ معلوم کریں، دریافت کریں، منکشف کریں، یعنی ذرا تصور کرکے تو دیکھیے کہ ہمارے بنائے ہوئے بے جان جرثوموں سے آزاد بڑے برق رفتار خلائی جہاز اور ان کے اندر پیوست آلات اور روبوٹ مریخ جیسے دور دراز سیاروں پر جاکر ان کے اندرونی راز ہائے سربستہ معلوم کررہے ہیں، ہمارے گھروں میں ٹیلی ویژن پر ہر نئے ہفتے ایک سے بڑھ کر چونکا دینے والے عجائبات و انکشافات کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں، سارا سال یہی قصہ چلتا رہتا ہے۔ ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مریخ بظاہر ہماری زمین جیسا ہے تو یقیناً کچھ اور مشابہت بھی پیدا ہوںگی جن کا انکشاف مزید تحقیق پر منحصر ہے۔
مریخ پر انسان کب جائے گا، چونکہ ہر مہم پر اس قدر اخراجات ہوتے ہیں کہ محض سائنس کی بنیاد پر اس سوال کا جواب دینا قدرے مشکل ہے، معاشیات اور اس کی بہن سیاسیات بھی اس جواب میں شریک ہے، کیا عجب اہل زمین پر ایک روز خوش قسمتی نازل ہوجائے اور پتہ چلے کہ نئی زندگی کا آغاز ہورہا ہے، ایسی نئی زندگی جو جنگ و جدال اور اس پر ضایع ہونے والے بے پناہ اخراجات سے قطعی پاک ہو، ایک بھرپور جنگی مہم پر جو اخراجات فضول خرچی کی نذر ہوجاتے ہیں ان کی بدولت مریخ کی جانب انسان بردار خلائی مہم کا خواب بخوبی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے، اگر تمام بڑی عالمی طاقتیں بنی نوع انسان کی مہماتی تاریخ میں انقلابی بات رقم کرنے کے لیے باہمی تعاون کے جذبے سے مشترکہ مہماتی پروگرامز بناکر مریخ پر اور دیگر سیاروں پر انسان بردار خلائی جہاز پہنچانے کی جدوجہد میں متحد و منظم ہوجائیں تو یہ نسل انسانی کی ایک بہت بڑی خدمت ہوگی۔ مشترکہ خلائی پروگرام بنائے جائیں گے تو فضا میں جنگی جنون پیدا کرنے کے بجائے خلائیات کی صنعت میں بھی امن و سکون اور تاریخ ساز کامیابیوں کے نئے باب رقم ہوں گے اور خوفناک اسلحے پر جو بے بہا رقم آج کل خرچ کی جارہی ہے وہ بچے گی اور تحقیقی و ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوگی۔
اگر سیاست نے معاشیات سے مشورہ کرکے ایسا کیا تو ہم کہیں گے، جی ہاں انسان مریخ پر ضرور جائے گا اور جلدی جائے گا، وہ ٹیکنالوجی جو ایک خوفناک ہتھیار کو ایک براعظم سے ا ٹھاکر دوسرے براعظم پر گراسکتی ہے وہی ٹیکنالوجی ایک انسان کو زمین سے اٹھاکر مریخ پر بھی لے جاسکتی ہے، خوفناک اسلحہ سازی اور ایٹمی جنگ کے خطرے سے بچ کر ہم جو رقم بچائیں گے اس کا واحد اور بہترین استعمال یہی نہیں کہ انسان کو مریخ یا دوسرے سیاروں پر بھیجا جائے بلکہ اس کے اور بھی کئی اچھے استعمال موجود ہیں، البتہ مریخ پر انسان بردار خلائی جہاز بھیجنے کے مشن پر جو خرچہ ہوگا اس سے ہمیں خوشی ضرور حاصل ہوگی کہ ہم نے جنگ و جدال اور کشت و خون کے قدیم دیوتا کو زیر کرکے امن و امان سے بھرپور ایک انوکھے اور نئے دور کا آغاز کیا۔ کاش! کہ ایسا ہوپائے...!!