پانی سے زندگانی
وطن عزیز کے کئی علاقوں میں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے اسی طرح کی بحرانی کیفیت پائی جاتی ہے.
پانی کو اس کائنات میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ہماری زندگی کا ایک ایسا لازمی جزو ہے جس کے بغیر ہماری بقا ممکن ہی نہیں ہے۔ کوئی بھی ذی روح کھانے اور چارے کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے مگر پانی میسر نہ ہو تو کوئی بھی جان دار ماہی بے آب کی طرح تڑپ تڑپ کر مرجائے گا، اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ Water is Life یعنی پانی ہی زندگی ہے۔
دنیا کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجیے، تمام تہذیبیں دریاؤں کے کناروں پر ہی پروان چڑھی ہیں۔ مصر کی تہذیب دریائے نیل کے ساحل پر، عراق کی تہذیب دجلہ و فرات کے ساحلوں پر اور وادی سندھ کی تہذیب دریائے سندھ کے کنارے پر۔ روئے زمین کا تقریباً تین تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے بہت سے علاقوں میں پانی کا کال پڑا ہوا ہے۔ اسی لیے تو انگریزی کے ایک مشہور شاعر نے کہا تھا water water every where not a drop to drink ۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہے مگر پینے کے لیے ایک قطرہ بھی میسر نہیں ہے۔
وطن عزیز کے کئی علاقوں میں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے اسی طرح کی بحرانی کیفیت پائی جاتی ہے جن میں بلوچستان، بہاولپور ڈویژن اور سندھ کے صحرائی علاقے شامل ہیں۔ نہانا دھونا تو دور کی بات ہے بعض علاقوں میں لوگ پینے کے پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں۔ راقم الحروف کو بلوچستان کے اندرونی علاقوں میں بارہا جانے کا اتفاق ہوا ہے جن میں سے اکثر جگہوں پر پانی کی دستیابی جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے لوگوں کو پانی کی خاطر بہت دور دور تک جانا پڑتا ہے اور خاک چھاننی پڑتی ہے۔
ہمارے پیارے صوبے سندھ کے صحرائی علاقوں میں بھی پانی کی دستیابی ایک بہت بڑا اور سنگین مسئلہ ہے۔ ان میں تھر کا علاقہ سرفہرست ہے جہاں کے باسیوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان سے قبل بھی یہ علاقے حکومت اور حکمرانوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے جس کی وجہ سے کسی نے ان کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی اور صورت حال یہ رہی کہ ''آنکھ اوجھل' پہاڑ اوجھل''۔ چنانچہ جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا گیا۔ دوسری جانب آبادی میں قیامت خیز اضافے نے اسے گمبھیر تر بنادیا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ زندگی بالکل اجیرن ہوکر رہ گئی۔ اس علاقے کے مصیبت زدہ لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ پانی اگر ملتا بھی ہے تو وہ صاف نہیں ہوتا جسے پینے کے نتیجے میں پیٹ کے بہت سے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔
اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی خاتون آشا کا مسئلہ بہت گمبھیر تھا۔ یہ بے چاری تین بچوں کی ماں ہے جن کی عمریں دس، بارہ اور پندرہ سال ہیں۔ پینے کا صاف پانی دستیاب نہ ہونے کے باعث پیٹ کی بیماریوں نے ان کا جینا دوبھر کردیا۔ کسی کو گیس کی شکایت نے پریشان کردیا تو کوئی ہیپاٹائٹس کے مہلک مرض میں مبتلا ہوگیا۔ کسی کا پیچش نے برا حال کردیا تو کسی کو گردے کی تکلیف نے نڈھال کردیا۔ مامتا کی ماری آشا نراشا کا شکار ہوگئی۔ اولاد کی بیماریوں نے اس کا جینا محال کردیا۔ ان کی تیمارداری اور دواؤں کے بے تحاشا اخراجات نے اس بے چاری کو کنگال کردیا۔
سب سے زیادہ فکر اسے اپنے سب سے چھوٹے بچے کی تھی جس کی صحت روز بروز تیزی سے بگڑ رہی تھی۔ اس غریب کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان نامساعد حالات کا مقابلہ کس طرح اور کب تک کرے۔ تمام مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور راستہ نہ تھا۔ پھر یکایک اس کی اندھیروں بھری زندگی میں امید کی ایک کرن پھوٹی اور اس کی قسمت نے ایک نئی کروٹ لی۔ اس کے گاؤں پیر محفوظ میں ایک فلٹریشن پلانٹ قائم ہوگیا جس نے اس کی زندگی میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اس پلانٹ کو کام کرتے ہوئے ابھی چھ ماہ کا مختصر عرصہ گزرا تھا کہ گاؤں والوں کی صحت پر اس کے مثبت اثرات نمایاں ہونے لگے۔ فلٹریشن پلانٹ کا نلکا گاؤں کی خواتین کے لیے ایک پنگھٹ بن گیا جس پر پانی بھرنے والیوں کا دن بھر تانتا بندھا رہنے لگا۔
صوبہ سندھ میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے اس طرح کے 500 منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ ان منصوبوں سے صوبے کے تقریباً 300 غریب خاندانوں کو فائدہ پہنچے گا جن کے گھر والوں کی تعداد 1500 سے 2000 کے لگ بھگ ہوگی۔ ان منصوبے کو بروئے کار آنے کے نتیجے میں پانی کے مسئلے سے دوچار دیہی عوام کو دور دراز سے پانی لانے کی مشقت سے بھی نجات مل جائے گی۔ ان پلانٹس کو دیکھنے سے لگتا ہے کہ کسی اور ہی دنیا سے آئے ہیں۔ دیکھنے میں چھوٹے لیکن کارکردگی کے لحاظ سے بڑے ہی زبردست۔
باران رحمت سے محروم صحرائی علاقوں میں ان سے حاصل ہونے والا پینے کا صاف شفاف پانی دیہی علاقوں کے پیاسے عوام کے لیے آب حیات کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ فلٹر پلانٹس کم خرچ بھی ہیں اور بالانشین بھی۔ ان کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ انھیں بہت کم وقت میں بنایا اور نصب کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ انھیں چلانا بھی بہت آسان ہے جو کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ انھیں صرف 24 گھنٹے کے مختصر عرصے میں نصب کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ان کی تنصیب سے قبل جگہ کا جائزہ لینے اور زمین سے پانی نکالنے کے لیے بورنگ کے کام کے لیے چند ہفتے کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
یہ پلانٹس الٹرا فلٹریشن (UF) ٹیکنالوجی کی مدد سے بنائے جاتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مختلف قسم کے وائرسوں اور مضر صحت جراثیم کا خاتمہ کردیتی ہے جب کہ پانی کو صاف کرنے کے دوسرے طریقے اتنے قابل اعتماد اور کارگر نہیں ہیں۔ آج کل کراچی میں ''نائیجیریا فولری'' نامی بیماری کا بڑا چرچا ہے جو دماغ کو کھانے والے ایک خلوی جاندار ''امیبا'' کی ایک قسم کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ چند ہفتے قبل اس بیماری کا شکار ہونے والا ایک بچہ اپنے خاندان کو سوگوار چھوڑ کر موت کی وادی میں ہمیشہ کے لیے گم ہوگیا تھا۔ ''امیبا'' نامی یہ خلوی دماغ خور جرثومہ آلودہ پانی میں پیدا ہوکر ناک کے نتھنے کے ذریعے دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ دماغ کے خلیات کو کھانا شروع کردیتا ہے حتیٰ کہ متاثرہ شخص کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
یہ بیماری کراچی میں پچھلے سال مئی کے مہینے وارد ہوئی تھی اور دس افراد کی ہلاکت کا سبب بنی تھی۔ جن کی عمریں 4 سال سے 49 سال کے درمیان تھیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس بیماری میں مبتلا صرف تین خوش نصیب ایسے ہیں جو اس مہلک بیماری کے شکنجے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوسکے۔ جولائی تا اکتوبر 2011 میں پاکستان میں صرف ایک ہفتے کے دوران 22 افراد اس بیماری کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ بیماری چونکہ پانی سے پھیلتی ہے لہٰذا احتیاط کا تقاضا ہے کہ پانی کو فلٹریشن کے موثر ترین طریقے سے صاف کیا جائے۔ ماہرین کی رائے کے مطابق الٹرا فلٹریشن ٹیکنالوجی اس سلسلے میں نہایت کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف پانی کی آلودگی کو مکمل طور پر ختم کرتی ہے بلکہ ان کیمیائی اجزاء سے بھی مبرا ہے جو کینسر جیسی مہلک بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔
وطن عزیز میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی بنیاد پر الٹرا فلٹریشن کے معیاری پلانٹس نجی شعبے میں حکومت کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے تحت تیار کیے جارہے ہیں۔ ان پلانٹس نے ان علاقوں کے عوام کی زندگی محفوظ اور آسان کردی ہے جو رات دن غربت اور افلاس کی چکی میں پستے رہتے ہیں اور آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی مختلف بیماریوں کا نشانہ بننے والے اپنے خاندان کے افراد کے علاج معالجے کے مصارف برداشت کرنے کی ہمت اور سکت نہیں رکھتے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو بے چارے دو وقت کی روٹی کا بندوبست نہیں کرسکتے وہ کمر توڑ مہنگائی کے اس دور میں ڈاکٹروں کی فیس اور دواؤں کے اخراجات کے لیے مطلوبہ رقم بھلا کہاں سے لائیں گے۔
کراچی کے پسماندہ علاقے لیاری میں واقع مشرف کالونی کے رہائشی پانی کو صاف کرنے والے پلانٹ کی تنصیب سے پہلے اپنی قلیل آمدنی کا ایک بڑا حصہ ٹینکروں کے ذریعے پانی کی خریداری پر صرف کیا کرتے تھے اور یہ رقم 1 ہزار سے 3 ہزار روپے ماہانہ ہوا کرتی تھی جو پانی مافیا کی جیبوں میں جایا کرتی تھی۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ جن جن علاقوں میں واٹر فلٹریشن کے جدید پلانٹس نصب ہوچکے ہیں وہاں اسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں 70 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔