سیپ اور تسطیر
ٹیکنالوجی کی وجہ سے نئے کھلنے والے راستوں پر ایک ایسی بھیڑ جمع ہوگئی ہے جسے خود بھی پتہ نہیں کہ وہ کیا چاہتی ہے؟
ISLAMABAD:
دور حاضر میں ادب اور ادبی رسائل کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، سنجیدہ اور خالص ادب میں اگر فیس بک پر پیش کی جانے والے تحریروں کو بھی شامل کرلیا جائے تب بھی یہ تعداد اتنی کم ہے کہ اگر اس معاشرے اور ادبی ماحول کو ''ادب گریز'' کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
جہاں تک ادب کے قارئین کے حلقے کا تعلق ہے یہ بھی مسلسل سکڑتا اور بکھرتا جارہا ہے کہ Cold Print کی شکل میں چھپنے اور پڑھی جانے والی تحریروں کی تعداد مسلسل کم ہوتی جارہی ہے جب کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے نئے کھلنے والے راستوں پر ایک ایسی بھیڑ جمع ہوگئی ہے جسے خود بھی پتہ نہیں کہ وہ کیا چاہتی ہے؟
ایسے میں ''سیپ'' اور ''تسطیر'' جیسے خالص ادبی اور نسبتاً ضخیم رسائل کی اوپر تلے اشاعت یقینا ایک ایسی خبر ہے جسے انگریزی محاورے میں Pleasant Surprise کہا جاسکتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ فی الوقت اپنی اشاعت کے سلسلے کو قائم رکھنے والے صرف دو ادبی مجلے ایسے ہیں جن کی عمر نصف صدی سے زیادہ ہوچکی ہے۔ میری مراد احمد ندیم قاسمی مرحوم کے ''فنون'' اور برادرم نسیم درانی کے ''سیپ'' سے ہے کہ ''نقوش'' سمیت بیشتر ضخیم ادبی رسائل کسی نہ کسی وجہ سے بند ہوچکے ہیں۔ اسلام آباد سے شایع ہونے والے ممتاز شیخ کے ''لوح'' کے علاوہ کراچی اور دیگر شہروں سے کچھ رسائل شایع تو ہورہے ہیں مگر وہ ایک کو چھوڑ کر باقی سب کے ضمن میں تسلسل اور مدت عمر کا معاملہ محل نظر ہی رہتا ہے۔
اس وقت میرے سامنے ''سیپ'' اور تسطیر (کتابی شکل میں اشاعت نو نمبر5) کے تازہ پرچے رکھے ہیں۔ ''سیپ'' کا یہ شمارہ ترتیب کے اعتبار سے 87 واں ہے اور عمر کے اعتبار سے یہ اپنی اشاعت کے 55 ویں برس میں ہے یعنی ؎
نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں
اس ''خاص نمبر'' میں بھی ہمیشہ کی طرح مختلف عنوانات کے تحت خوبصورت، وقیع اور تازہ تر تحریروں کو جمع کیا گیا ہے لیکن اس میں ایک منفرد بات یہ ہے کہ اس کے مدیر برادرم نسیم درانی نے ایک بہت دلچسپ عنوان کا اضافہ کیا ہے جس کا نام انھوں نے ''خود نمائی'' رکھا ہے جس کے تحت سلطان جمیل نسیم (قصہ سیپ درانی کا) ڈاکٹر سلیم اختر (''سیپ'' کا موتی) اظہر جاوید (زمانہ نام والا پٹھان مرد) اقبال خورشید (سیپ، نصف صدی کا قصہ) اقبال نظر(نسیم درانی، ایک پتنگ باز سجنا) اور شبی فاروقی (کلاوتی کا پیار) کے سیپ اور مدیر سیپ سے متعلق بہت دلچسپ، مزیدار اور معلومات آفرین مضامین شامل کیے گئے ہیں جن کے مطالعے سے آپ گزری ہوئی نصف صدی کے ماحول، تقاضوں اور ادبی مسائل کے بعض ایسے پہلوئوں سے بھی آگاہ ہوتے ہیں جو اب کی موجودہ صورتحال کو ایک وسیع تر تناظر میں آپ کے سامنے لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سلطان جمیل نسیم کے مضمون کا یہ اقتباس!
''ان سرمایہ دار ممالک نے تقریباً ہر پسماندہ یا غیر ترقی یافتہ ملکوں کے متوسط طبقہ کے نوجوان کو دال روٹی، ڈکٹیٹروں، بادشاہوں اور دہشت گردوں کے ساتھ ویزوں کے پھندے میں ایسے پھنسا رکھا ہے کہ اس کا ادب اور کتاب سے فاصلہ بڑھتا ہی جارہا ہے جب کہ اپنے ملک کے ہر شہر میں لائبریریوں کا جال بچھا رکھا ہے اور ادب کے ساتھ دوسرے شعبوں کو لاکھوں کے انعامات سے نتھی کردیا ہے۔''
اتفاق کی بات ہے کہ ''تسطیر'' کی مہمان اداریہ نویس صنوبر الطاف نے بھی اسی مسئلے کو اپنا موضوع بنایا ہے ''ہم ادب تخلیق کیوں نہیں کرتے'' کے زیر عنوان وہ لکھتی ہیں '' کیا ہمارے ہاں ایسی کتابیں ہیں جو اس امر پر روشنی ڈالیں کہ لکھنے والے کو کب، کیا اور کیسے پڑھنا چاہیے؟ جن میں اچھی نثر اور اچھی تنقید لکھنے کے لیے رہنما اصول ہوں! کیا تخلیقی عمل اور تخلیقی سرگرمی کے حوالے سے کچھ نصابی کتابیں ترتیب دی گئی ہیں؟ ہمارے کورسز میں کتنے ایسے عملی مضامین ہیں جو طالب عملوں کو تخلیق کی طرف راغب کرسکیں؟ کیا ہم ہائی اسکول اور کالج کی سطح پر کری ایٹو رائٹنگ، پوئٹری اور پروز رائٹنگ، کمیونیکیشن سکل وغیرہ کے عملی مضامین پڑھاتے ہیں؟''
اس اداریے میں بھی آگے چل کر فیس بک پر کی جانے والی نام نہاد ادبی سرگرمی کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا ایسے ادب کو ''ادب'' کا درجہ دیا جا سکتا ہے جو معیاری ادبی رسائل میں چھپنے کے تقاضوں کو پورا نہ کرتا ہو اور کیا یہ فیس بک کی ستائش باہمی ہمارے بہت سے اچھے اور امکانات سے معمور لکھاریوں کو گمراہ نہیں کر رہی کہ وہ اپنی استعداد کو بڑھانے اور فن پر دسترس حاصل کرنے کے بجائے تماش بینوں ، دوستوں اور ادب سے غیر متعلق لوگوں کی واہ واہ میں گم ہو کر نہ صرف اپنا رستہ کھو بیٹھتے ہیں بلکہ اپنی خداداد صلاحیتوں سے بھی انصاف نہیں کر پاتے۔
''تسطیر'' کے ایڈیٹر برادرم نصیر احمد ناصر اس رسالے میں مستند ادیبوں کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کو بھی خاص طور پر جگہ دیتے ہیں جو ایک بہت ہی خوش آیند اور مستحسن بات ہے اور ان کے ساتھ ساتھ ہمارے بک کارنر جہلم کے دوست بھائی امر اور گگن شاہد بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اشاعت کے معاملات میں نصیر احمد ناصر کی نہ صرف معاونت کی بلکہ بہت عمدہ اندازمیں اسے ادب کے قارئین تک پہنچا بھی رہے ہیں۔
''تسطیر'' کی ایک اور نمایاں خوبی اس کا معاصر ادبی رویوں اور عالمی ادب سے ارتباط بھی ہے کہ اس میں شامل بہت سی تحریریں ہمیں اس عالمی گاؤں کا حصہ بھی بناتی ہیں جس میں ہم رہتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر موجودہ شمارے کا ''لمس رفتہ'' والا حصہ سب سے زیادہ اچھا لگا ہے کہ اس میں رفتگاں کو صرف یاد ہی نہیں کیا گیا بلکہ ان کی شخصیت اور فکر و فن کو بھی اس طرح سے اجاگر کیا گیا ہے کہ آنے والی نسلیں ان کے مقام اور مرتبے کو پہچان سکیں۔ آخر میں ان دو ادبی رسائل کے ساتھ ساتھ تمام تر ادبی فضا کے فروغ اور بحالی کی دعا کے ساتھ برادر عزیز فواز نیاز کا بھجوایا ہوا یہ خوبصورت اور خیال افروز پیغام کہ
''آپ اس وقت تک سمندر کو پار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک آپ میں چھوڑے ہوئے سائل کو نگاہوں سے گم کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت نہ ہو''۔