اندھی گولی

اسٹریٹ کرائم کی ایک بہت بڑی وجہ غیر قانونی اسلحہ کی آسانی سے فراہمی ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan October 06, 2018
[email protected]

اندھی گولی سے زخمی ہونے والی کمسن اقصیٰ چل بسی، یوں اندھی گولی سے ایمل نامی بچی کی ہلاکت کے بعد ایک اور بچی موت کا شکار ہوئی۔

سعید آباد ضلع غربی کی غریبوں کی ایک بستی ہے جہاں کے مکین روز محنت کرتے ہیں اور زندگی کا کاروبار چلاتے ہیں۔ اقصیٰ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھی۔ اگرچہ اس علاقے میں لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کی روایت کمزور ہے مگر اقصیٰ کے والد محمد سلیم کو بیٹیوں کی تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہے۔

محمد سلیم کی مالیاتی حیثیت اتنی نہیں کہ بچے شہر کے بڑے اسکولوں میں داخل ہوتے مگر ایک غیر سرکاری تنظیم نے جب سعید آباد میں اسکول قائم کیا تو اقصیٰ کو اس اسکول میں داخل کرادیا گیا۔ اقصیٰ اب پہلی جماعت کا امتحان پاس کرکے دوسری جماعت میں آئی تھی۔ جمعہ 29 ستمبر کو اقصیٰ اپنے ہم جماعت بچوں کے ساتھ میدان میں گئی۔ اچانک اس کی کمر اور پیٹ سے خون بہنے لگا۔ اقصیٰ کو سول اسپتال لے جایا گیا۔

ڈاکٹروں نے اقصیٰ کا معائنہ کرنے کے بعد رائے دی کہ کوئی گولی اس کے جسم میں داخل ہوئی ہے۔ اس گولی نے پیٹ کے اعضاء کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ڈاکٹروں کی ہدایت پر اقصیٰ کو قومی ادارہ برائے اطفال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کیا گیا۔ وہ دو دن زندگی کی جنگ لڑتی رہی اور پھر ہار گئی۔ اس اسکول سے متصل پولیس ٹریننگ سینٹر ہے۔

اقصیٰ کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والی خاتون ڈاکٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقصیٰ کو چھوٹے ہتھیار سے چلائی جانے والی گولی لگی۔ اس ظالم گولی نے کمر میں ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچایا، یوں اقصیٰ کی موت واقع ہوئی۔

انسانی حقوق کمیشن (HRCP) کے فعال کارکن خضر حبیب جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹیں مرتب کرنے کے ماہر ہیں، خضر، اقصیٰ کی موت کے عوامل کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سٹیزن اسکول پولیس ٹریننگ سینٹر سے متصل ہے۔ اس سینٹر میں دہشت گردی سے روکنے کے لیے آہنی دیواریں تعمیر کی گئی ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ چھوٹے ہتھیار سے قریب سے گولی چلی ہو۔ سعید آباد بلدیہ ٹاؤن سے متصل علاقہ ہے اور اتحاد ٹاؤن اس کے ساتھ ہے۔ یہ علاقہ گزشتہ کئی برسوں سے مذہبی دہشت گردی میں ملوث افراد کے اڈوں کے طور پر مشہور رہا۔

اس علاقے میں پولیس اور رینجرز نے متعدد بار دہشت گردوں کے اڈوں کے خلاف کارروائی کی۔ دہشت گردوں نے اتحاد ٹاؤن اور منگھوپیر کے علاقوں میں طالبات کے اسکولوں کو بار بار نشانہ بنایا تھا۔ اس بات کے خاصے امکانات ہیں کہ اقصیٰ یا تو پولیس ٹریننگ سینٹر کی طرف سے آنے والی گولی کا نشانہ بنی ہو یا پھر دہشت گردوں سے گولی چل گئی ہو یا پھر اسکول کی چار دیواری میں کوئی غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی ہو۔ چند ماہ قبل کورنگی روڈ پر قیوم آباد کے ٹریفک سگنل پر کار میں موجود ایمل کو اسی انداز میں گولی لگی تھی۔

ایمل کو گولی اس وقت لگی تھی جب نامعلوم افراد سگنل پر رکی گاڑیوں میں موجود افراد سے لوٹ مار کررہے تھے۔ شاید یہ گولی پولیس کے سپاہی نے چلائی تھی اور ڈاکوؤں کو نشانہ بنایا تھا۔ ایمل کی موت جناح اسپتال پہنچنے سے قبل ہوئی۔

کراچی میں پانچ سال قبل امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب تھی۔ ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی رپورٹوں کے تجزیہ سے واضح ہوتا ہے کہ 2013 میں روزانہ آٹھ سے نو افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتے تھے۔ قتل ہونے والے معروف سیاستدان، مذہبی عالم، اساتذہ، وکلاء اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار وغیرہ شامل تھے۔ آر می پبلک اسکول پشاور پر مذہبی انتہاپسندوں کے حملوں کے بعد آپریشن ضربِ عضب شروع ہوا۔

کراچی میں اس آپریشن کو جدید انداز میں منظم کیا گیا، یوں بہت سے ٹارگٹ کلر مارے گئے۔ دہشت گردی کی مختلف وارداتوں میں ملوث ملزمان گرفتار ہوئے۔ کراچی کے کئی علاقے لیاری، کٹی پہاڑی اور شیرپاؤ کالونی وغیرہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ممنوع تھے۔ لیاری میں ہونے والی گینگ وار نے شہر کے خاصے حصے کو متاثر کیا تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں عزیر بلوچ سمیت کئی گینگسٹر پولیس کے ہاتھ لگے جب کہ معروف ملزمان پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔

اس طرح کراچی میں نوگو ایریا ختم ہوئے، شہر میں امن بحال ہوا، کراچی کی روشنیاں پھر چمکنے لگیں، مگر امن وامان کی صورتحال بہتر ہوتے ہی اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں اچانک بڑھ گئیں۔ موٹر سائیکل اور کار چھیننے والے نئے گروپ ابھر کر سامنے آگئے۔ پولیس پر دباؤ بڑھا۔ پولیس افسروں نے اسٹریٹ کرائم کے بڑھنے کی مختلف وجوہات بیان کرنی شروع کردیں۔ وزیراعلیٰ کے اطلاعات کے مشیر مرتضیٰ وہاب نے یہ کہنا شروع کیا کہ اسٹریٹ کرائم میں اضافہ عبوری حکومت کے دور میں ہوا، جرائم کے بڑھنے کی ذمے داری موجودہ صوبائی حکومت پر عائد نہیں ہوتی، مگر ان جرائم کے بڑھنے کا معاملہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناقص پالیسی سے منسلک ہوتا ہے۔

اسٹریٹ کرائم کی ایک بہت بڑی وجہ غیر قانونی اسلحہ کی آسانی سے فراہمی ہے۔ کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے کراچی میں غیر قانونی اسلحہ کی بہتات ہے۔ ایک طرف ہیروئن اور دوسری نوعیت کی منشیات نہایت آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ اسلحہ ایک طرف طورخم، پشاور اور لاہور کے راستے کراچی تک پہنچتا ہے تو دوسری طرف قندھار، چمن اور کراچی کی طرف اسلحہ آنا معمول کی بات ہے۔

رینجرز کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ اسلحہ کی اسمگلنگ سمندر کے راستے بھی ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ نیٹو کے کنٹینروں سے امریکی اسلحہ چوری ہوا۔ اسلحہ کے بڑے بڑے سوداگر سکون سے اپنا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ پھر یہ اسلحہ ہر اس شخص کے پاس بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ جاتا ہے جو رقم ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

پھر منشیات کی مختلف اقسام امراء کے علاقوں سے لے کر غریبوں کے علاقوں میں دستیاب ہیں۔ کراچی میں پانچ سال قبل ایک منظم انداز میں شروع ہونے والے آپریشن میں بہت سے ٹارگٹ کلر مارے گئے، سیکڑوں ملزمان گرفتار بھی ہوئے مگر پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ہر روز، ہر ہفتے اور ہر مہینے اسلحہ کے بڑے ذخائر ملنے کے دعویٰ کرتی رہیں۔ یہ دعوے اب بھی ہورہے ہیں، مگر اسلحہ فراہم کرنے والے بڑے سوداگر اس آپریشن میں محفوظ رہے اور اب بھی ان کے کاروبار زور شور سے چل رہے ہیں۔ ابھی تک کراچی شہر کو اسلحہ سے پاک کرنے کے لیے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔

ایک وقت تھا جب ایم کیو ایم کے رہنما کراچی میں غیر قانونی اسلحہ برآمد کرنے کے لیے آپریشن کی یہ کہہ کر مخالفت کرتے تھے کہ غیر قانونی اسلحہ پورے ملک میں موجود ہے، اس بنا پر یہ آپریشن پورے ملک میں ہونا چاہیے۔ اس بحث کی بنا پر غیر قانونی اسلحہ کا معاملہ پس پشت چلا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے نیا پاکستان بنانے کا عزم کیا ہے اور تبدیلی کا یقین دلایا ہے۔ یہ تبدیلی سب سے پہلے امن و امان کے معاملے میں ہونی چاہیے۔ وفاقی حکومت کو تمام صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لے کر پورے ملک میں ناجائز اسلحہ کے ذخائر کے خاتمے کے لیے یہ مہم شروع کرنی چاہیے۔

ایمل کے بعد اقصیٰ کے قتل کی ذمے داری ایک پولیس کے سپاہی پر عائد ہوتی ہے جس کی پستول سے غلطی سے گولی چل گئی۔ مگر سارا معاملہ غیر قانونی اسلحہ کا ہے۔ اسلحہ کی برآمدگی کوئی آسان معاملہ نہیں، نہ پورے ملک میں یہ آپریشن ایک ساتھ ممکن ہے۔ پھر اس آپریشن کے مثبت نتائج کے لیے ایک قابل عمل حکمت عملی ضروری ہے۔ اس کاروبار میں بڑے بڑے لوگ ملوث ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا حکومت کھو دینے کے مترادف ہوسکتا ہے۔

اسلحہ سے پاک ریاست کا خواب مہینوں میں نہیں بلکہ برسوں پر محیط ہے، اگر وزیراعظم عمران خان اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں تو ایک دن ایسا آئے گا جب پورا پاکستان اسلحہ اور جرائم سے پاک ہوگا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ صدر، گورنر اور وزیراعلیٰ اقصیٰ کے گھر جا کر تعزیت کرلیں اور ہم سب کسی اور اقصیٰ کی موت کی خبر کے منتظر رہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں