غریبو اپنے بھاگ جگاؤ

گوتم بدھ نے کہا تھا ’’سات سمندرکے پانی کے مقابلے میں انسان کی آنکھوں سے زیادہ آنسو بہہ چکے ہیں‘‘ اسلامی جمہوریہ۔۔۔


Aftab Ahmed Khanzada June 08, 2013

گوتم بدھ نے کہا تھا ''سات سمندرکے پانی کے مقابلے میں انسان کی آنکھوں سے زیادہ آنسو بہہ چکے ہیں'' اسلامی جمہوریہ پاکستان کے غریبوں اور مظلوموں کی آنکھوں سے نکلے آنسوگنے نہیں جاسکتے ۔ محسوس نہیں کیے جاسکتے پاکستان کے غریب عوام بے بسی اور بے کسی کی انتہا پر پہنچ چکے ہیں ۔ وہ ہر ظلم اور ناانصافی کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار صرف آنسو بہا کر کرتے ہیں اخبارات میں ایک چھوٹی سے خبر چھپی تھی کہ مینار پاکستان سے کودکر ایک غریب آدمی نے خود کشی کرلی اور اپنی زندگی کا خا تمہ مجبوریوں اور بے بسی کے سبب اپنے ہی ہاتھوں کردیا۔ اس خود کشی کر نے والے انسان کے بزرگوں نے یقینا تحریک پاکستا ن کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہوگا۔

پاکستان بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہوگا۔ مالی و جانی قربانیاں دی ہونگی ۔ دوسرے انسانوں کو جد وجہد میں حصہ لینے پر قائل کیا ہوگا۔ خو شحالی ، آزادی ، مساوات اور اچھے مستقبل کے سپنے بسائے نئے ملک میں آبسے ہونگے ۔ لیکن اس انسان کے بزرگو ں کا خو شحالی کا سپنا بھیانک خواب بن گیا۔ کس قدر اس کے بزرگوں کی روحیں تڑپتی ہونگی ۔ اس کے بزرگ یہ بات سو چ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کی اولاد اسی مینار پاکستان سے جہاں قرار دا د پاکستان منظور ہو ئی تھی سے کو د کر اپنی غربت ، بھوک اور بے کسی سے تنگ آکر اپنے خوابو ں اور سپنوں کو اپنے ساتھ دفن کردے گی ۔ اس انسان کی خو د کشی کی وجہ غربت ، بھوک اور محرومیاں تھیں ۔

یہ و ہ بیماریاں ہیں جو کہ پاکستان کے کروڑوں غریب عوام کو لاحق ہیں ۔ خود کشی بے بسی اور مجبوریوں کی انتہا کانام ہے انسان جب اپنی زندگی میں چاروں طرف سے ما یوس بے بس اور لاچار ہو جاتا ہے تو پھر خدا کی طرف سے دی گئی سب سے قیمتی چیز زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے جب و ہ اپنی اور اپنے پیاروں کی خو اہشات پوری نہ کررہا ہو جب انسان کو اس کا حق کہیں سے نہ مل رہا ہو ۔ جب روز اسے دھتکارا جارہاہو ، روز اسے گالیاں سننے کو مل رہی ہوں ، روز اسے ذلیل کیا جارہاہو ، تو وہ انسان آخر خود کشی نہ کرے تو کیا کرے ۔ روزگا لیاں سننے، روز دھتکارے جانے اور روز ذلیل ہونے سے بہتر ہے کہ ا نسا ن سکون سے ابد ی نیند سو جائے ۔ آج ہمارے ملک میں کروڑوں لو گ بے بس ، لاچار ، پریشان ہیںاور اپنی زندگی رینگ رینگ کر گزار رہے ہیں ۔ 5 کروڑ سے زائد عوام روز بھو کے سوتے ہیں غربت اور بھوک کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کے پاس ٹما ٹر اور پیاز خریدنے تک کے پیسے نہیں ہوتے ہیں ۔

ملک میں طبقاتی کشمکش عروج پر پہنچ گئی ہیں ۔ غریب روز غریب تر ہوتا جارہاہے اور امیرروزامیر تر ہوتا جارہا ہے امیروں کو لوٹ مار کر نے کی مکمل آزادی حاصل ہے ،کافی سال پہلے ایک پڑوسی ملک کی فلم دیکھنے کا اتفاق ہواتھا ۔اس فلم میں ایک بہت بڑی حویلی کے پیچھے والے حصے میں فٹ پاتھ پر غریب لوگ رہتے اور سوتے تھے ۔ رات کو اس حویلی سے بچا کھچا کھانا فٹ پاتھ پر پھینکا جاتا تھا اور فٹ پاتھ پر سونے والے اس بچے کھچے کھانے پر ٹو ٹ پڑتے تھے اور اس بچے کھچے کھانے سے اپنے پیٹ کی آگ بجھا تے تھے اور روز اس حویلی سے بچا کھچا کھانا پھینکے جانے کا انتظار کرتے تھے ان غریبوں کوروٹی کے ایک ایک ٹکڑے اور چاول کے ایک ایک دانے کے لیے تڑپتے اورترستے دکھایا گیا تھا ۔ آج جب ہم اپنے ملک کے غریبوں کی زندگیوں کا حال دیکھتے ہیں تو ان کا حال دیکھ کر ہمیں احساس ہوتاہے کہ ہمارے ملک کے کروڑوں لوگوں کو بھکاری بنا دیاگیا ہے ۔

ملک کے غریبوں کا یہ حال دیکھ کر مجھے وہ انڈین فلم یاد آجاتی ہے۔ ہمارے ملک کے غریبوں کی حالت بالکل اس فلم میں فٹ پاتھ پر رہنے والے غریبوں جیسی کردی گئی ہے ، ہمارے ملک کے بیچارے غریب عوام ساری زندگی اسی انتظار میں گذار دیتے ہیں کہ کب امیروکبیر اپنا بچا کھچا بھیک میں انھیں دیں گے ۔ میرے پیارے ملک میں کروڑوں غریب لوگوں کا خو شحالی کی طرف سفر ختم ہوتا ہی نہیں ہے ۔ ملک میں امیروں نے غریب عوام کی تقدیر میں بھوک ، پیاس ، بیماریاں بے بسی اور غربت لکھ دی ہے ۔66سال بیتنے کے بعد بھی مینار پاکستان کے قد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے لیکن مینار پاکستان کی آغوش میں موجود عوام کے قد روز گھٹتے جارہے ہیں ۔علامہ اقبال کاخواب ہمارے ملک کے کرو ڑوں غریبوں کا حال دیکھ کر خود ہی شرمندہ ہوگیا ہے ۔

غریبوں کا خون امیر روز نچو ڑ نچو ڑ کر پی رہے ہیں اور یہ امیرغریبوں کے خو ن پر ہی زندہ ہیں بھوکے ننگے روٹی کے لیے ترستے یہ انسان ،دودھ کے لیے بلکتے یہ بچے آنچل کے لیے ترستی یہ عورتیں اور ان کے سامنے چند امیروکبیر یہ گد ھ،غریبوں کو مفلو ج بنا دیاگیا ہے ملک کے کروڑوں غریب روز اپنے آپ پر ماتم کرتے ہیں ۔ہمارے ملک میں کرپشن اور لوٹ مار عوام اور سیاست دان نہیں بلکہ امیرو کبیر اور بیورو کریسی کررہی ہے۔ عوام کے ٹیکس پر زندہ یہ لوگ عوام کو ہی مارنے پر تلے ہوئے ہیں عوام کو ذلیل کرنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔

اب بات فاقوں تک پہنچ گئی ہے ہمارے ملک کے کروڑوں غریبوں کے بچے بھی غربت کی آگ کا ایندھن بننے کے لیے دنیا میں آچکے ہیں یا آرہے ہیں ۔ آخر ان لوگوں کا قصور کیاہے ؟ آخر ان لوگوں کا جر م کیا ہے ؟ غریبوں کی بے بسی اورمجبوری اگر نفرت میں بدل گئی تو انجام میں سب کچھ غریب اپنے پیروں تلے روند ڈالیں گے ہر قیمتی اور خو بصورت چیزوں کو ۔کروڑوں غریبوں کے دلوں اور ذہنوں میں نفرت کا جو آتش فشاں پک رہا ہے اگر وہ کسی وقت پھٹ گیا تو اس سے نکلنے والے لاوے سے سب کچھ جل جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا ۔ بے بسی اور مجبوریاں ایک انتہا ہوتی ہے اس کے بعد وہ بغاوت بن جاتی ہے۔

انقلاب فرانس ہو ۔ انقلاب ایران ہو ویت نام ہو یا چین یاروس ان ممالک میں عوام بالا خر ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے نصیب بدل ڈالے اور آخری جیت ہمیشہ عوام کو ہی نصیب ہوتی ہے ۔ دنیا میں عوام سے بڑی طاقت نہ ہی ہوگی ۔جذبے ، ہمت اور ولولے سے بڑا ہتھیار نہ دنیا میں کوئی بنا ہے اور نہ ہی بنے گا ۔غریبوں کا مذاق اڑانے والوں انھیں دھتکار نے والو ں ۔ ڈرو اس وقت سے جب عوام اٹھ کھڑے ہونگے اور عوام اپنے حقوق چھین لیں گے ۔ ایک فلسفی نے کہا ہے کہ حد سے زیادہ معاشی خو شحالی اور بدحالی انسان کو بغاوت کی جانب لے جاتی ہے ملک کے کروڑوں غریبوں کے نصیب میں لکھی یہ ذلت کب مٹے گی کب یہ انسان سکون کی نیند سو سکیں گے کب ان کے سو کھے پیلے ہو نٹو ں پر مسکراہٹ بکھر ے گی کب اس اشرافیہ سے جان چھوٹے گی ۔ آخر کب آخر کب ؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں