فلمی دنیا کے فضلی برادران آخری حصہ
فضل احمد کریم فضلی کلکتہ، مشرقی پاکستان میں بھی ایک ادب دوست شخصیت کی حیثیت سے مشہور تھے۔
فضل احمد کریم فضلی اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب پر بھی بڑی دسترس رکھتے تھے۔ یہ فلمی دنیا میں بہت بعد میں آئے اور کراچی سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ کراچی آنے سے پہلے یہ کلکتہ، پھر مشرقی پاکستان میں رہے۔ یہاں ایک طویل عرصہ گزارا اور بنگالی ادب سے بھی روشناس ہوئے۔
جب یہ ہندوستان میں تھے تو ان کے گھرانے کا ادب میں بڑا نام تھا۔ اس دور کے عظیم شاعروں کا ان کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ مشاعروں کی محفلیں بھی خوب ہوتی تھیں۔ علامہ صفی لکھنوی، ظریف لکھنوی اور جگر مراد آبادی جیسے شاعروں کی ان کو رفاقت حاصل رہی تھی۔ کراچی میں جب انھوں نے سکونت اختیار کی تو اپنے گھر کا نام بیت الغزل رکھا اور پھر شعر و ادب کی آبیاری میں لگے رہے۔
فضل احمد کریم فضلی کلکتہ، مشرقی پاکستان میں بھی ایک ادب دوست شخصیت کی حیثیت سے مشہور تھے اور کراچی میں انھوں نے اپنا یہی انداز برقرار رکھا تھا۔ جب جگر مراد آبادی ہندوستان سے مشاعروں کی غرض سے پاکستان آئے تھے تو کراچی میں فضل کریم فضلی ہی کے گھر میں قیام کرتے تھے، جس طرح ڈھاکا میں ان کے تعاون سے بڑے پیمانے پر مشاعرے منعقد ہوتے تھے، اسی طرح کراچی میں بھی ان کے گھر مشاعروں کا اہتمام خاص اندازسے کیا جاتا تھا۔
کریم فضلی ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے ادیب اور ناول نگار بھی تھے۔انھوں نے مشرقی پاکستان کے پس منظر میں دو ضخیم ناول بھی لکھے جو ''خون جگر ہونے تک'' اور ''سحر ہونے تک'' کے ناموں سے منظر عام پر آئے اور پسندیدگی کی سند بنے۔ جب فلم سازی کے میدان میں قدم رکھا تو ''چراغ جلتا رہا'' کے نام سے پہلی فلم کا ایسٹرن اسٹوڈیو کراچی میں آغاز کیا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ اپنی پہلی فلم میں تمام نئے آرٹسٹوں کو کاسٹ کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔
ان کے چند قریبی دوستوں نے کہا فضلی صاحب! تمام نئے آرٹسٹوں سے فلم بنانا گھاٹے کا سودا ہوگا، تو فضلی صاحب نے کہا تھا ہر سودے میں گھاٹا بھی ہوتا ہے اور فائدہ بھی۔ میری خواہش ہے کہ میری فلم میں کام کرنے والا ہر چہرہ نیا ہو، جسے میں پتھر کی طرح تراشوں اور اسے ہیرا بناکر پیش کروں، میں فلم کی دنیا میں ایک نیا کام کرنا چاہتا ہوں اور پھر ہوا بھی کچھ یہی کہ ان کی فلم کے نئے چہرے ہیرے کی سی تراش خراش لے کر بعد میں پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے ایک جگمگاتی کہکشاں کا روپ دھار گئے۔
فلم ''چراغ جلتا رہا'' کے آرٹسٹ محمد علی، زیبا، دیبا اور کمال ایرانی فلمی دنیا کی تاریخ کا حصہ بنے اور ان نئے آرٹسٹوں کو لے کر فضل احمد کریم فضلی نے فلم دنیا میں ایک تاریخ رقم کی تھی۔ ان کے فلم ساز ادارے دبستان لمیٹڈ کی پہلی فلم نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے اور پھر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ فلم کی موسیقی کے لیے بھی ریڈیو پاکستان کے ایک موسیقار نہال عبدﷲ کو اپنی فلم کے لیے موسیقار منتخب کیا تھا، جن کی یہ پہلی فلم تھی۔
فلم کے لیے جن شہرۂ آفاق شاعروں کے کلام کا انتخاب کیا گیا ان میں حضرت امیر خسرو، مرزا غالب، میر تقی میر، جگر مراد آبادی اور مولانا ماہر القادری کے نام شامل تھے۔ یہ جرأت وہی شخص کرسکتا ہے جو خود ادب کا دیوانہ ہو اور ادب کی اہمیت سمجھتا ہو۔ اب میں آتا ہوں اس کلام کی طرف جو فلم کی زینت بنایا گیا۔ حضرت امیر خسرو کے لکھے ہوئے مشہور گیت: کاہے کو بیاہی بدلیں۔مرزا غالب کی غزل، جس کا مطلع تھا
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
گلوکار طلعت محمود کی آواز میں ریکارڈ ہوا جو ان دنوں کراچی آئے تھے اور پھر شہرہ آفاق شاعر میر تقی میر کی ایک غزل ملکہ ترنم نو جہاں کی آواز میں ریکارڈ کی گئی، جس کا مطلع تھا۔
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
پھر اپنے بزرگ دوست اور استاد شاعر جگر مراد آبادی کی ایک غزل بھی اپنی فلم کی زینت بنائی جس کا مطلع تھا
آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقشِ ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
اس غزل کو بھی ریڈیو پاکستان کے سنگر ایم کلیم سے گوایا گیا تھا۔ فلم ''چراغ جلتا رہا'' میں مولانا ماہرالقادری کا مشہور سلام بھی شامل کیا گیا تھا جس کے بول تھے۔
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
ان کی فلم میں دوسری فلموں کی نسبت گیت کچھ زیادہ تعداد میں تھے۔ فضلی صاحب کی اپنی دو غزلیں بھی فلم کی زینت بنی تھی جنھیں طلعت محمود کی آواز ملی تھی۔ ان غزلوں کے بول تھے:
٭ کچھ ہوا حاصل نہیں اب تک کوشش ناکام سے
٭ مشکل نکلا دل کا سنبھلنا
ان کی ایک غزل میڈم نور جہاں نے بھی گائی تھی، جس کے بول تھے
پڑا ہے مجھے کن بلائوں سے پالا
فلم ''چراغ جلتا رہا'' کو ایک بڑا اعزاز یہ بھی حاصل ہوا تھا کہ اس فلم کا افتتاح مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا۔ یہ فلم 9 مارچ 1962 میں کراچی کے نشاط سینما میں ریلیز ہوئی تھی اور اس دور میں کسی ایک سینما پر فلم کی سلور جوبلی ایک بڑی کامیابی سمجھی جاتی تھی۔ دبستان لمیٹڈ کی دوسری فلم تھی ''ایسا بھی ہوتا ہے'' اس فلم میں فضلی صاحب نے اداکارہ زیبا کے ساتھ اداکار کمال کو ہیرو کاسٹ کیا تھا۔ اس فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے جو ان دنوں نئے نئے ہندوستان سے پاکستان آئے تھے۔
مذکورہ فلم میں تقریباً تمام گیت فضلی صاحب نے خود ہی لکھے تھے، جب کہ اپنی دونوں فلموں کے مصنف بھی یہ خود تھے۔ فلم ''ایسا بھی ہوتا ہے'' ایک ہلکی پھلکی دلچسپ فلم تھی، جو بڑی پسند کی گی تھی، اس فلم میں بھی میڈم نورجہاں کے ساتھ احمد رشدی کی آوازوں میں گیت ریکارڈ کیے گئے تھے اور چند گیت تو اس زمانے میں ریڈیو سے روزانہ ہی دن میں کئی بار بار نشر ہوتے تھے، جن کے بول تھے:
٭ محبت میں ترے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے
٭ ہو تمنا اور کیا؟ جانِ تمنا آپ ہیں
٭ ٹکڑا وہ چاند کا رخ زیبا کہیں جسے
٭ بہار کے دن آئے سنگھار کے دن آئے
فضلی صاحب نے ہندوستان پاکستان کے درمیان ہونے والی ستمبر 1965 کی جنگ کے پس منظر میں بھی ''وقت کی پکار'' کے نام سے ایک فلم بنائی تھی مگر وہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکی تھی، کیونکہ جنگ ختم ہونے کی وجہ سے فلم کو بہت زیادہ کاٹ چھانٹ کے بعد پاس کیا گیا تھا، اس طرح فلم کافی سے زیادہ متاثر ہوئی تھی اور یہی چیز اس کی ناکامی کا باعث بنی تھی، لیکن فضلی ہمت ہارنے والی شخصیت نہیں تھے۔ انھوں نے جلد ہی پھر ''دور بھی نزدیک بھی'' کے نام سے اپنی چوتھی فلم کا آغاز کیا، ابھی فلم کے اسکرپٹ کا کام ختم ہوا تھا کہ وہ اچانک بیمار ہوگئے، جب کہ وہ مستقبل میں اپنا ذاتی فلم اسٹوڈیو بھی بنانا چاہتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے ایک بڑا قطعہ اراضی بھی خرید لیا تھا، مگر قدرت کو شاید یہ منظور نہ تھا۔
فضلی صاحب کی بیماری بڑھتی چلی گئی اور ان کی زندگی ان کے ساتھ وفا نہ کرسکی۔ وہ 18 دسمبر 1981 کو دل کا شدید دورہ پڑنے کے باعث انتقال کرگئے۔ انھیں کراچی کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا اور اس طرح فلم انڈسٹری ایک روشن دماغ اور تاریخ ساز نامور فلم ساز و ہدایت کار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئی۔ ﷲ ان کی مغفرت کرے اور اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے (آمین)