بڑے شہر اور چھوٹی سوچ والیحکمران
پہلے اقدام کے نتیجے میں پورے ملک میں صنعتکاری کی حوصلہ شکنی ہوئی۔
پاکستان میں اس وقت ایک بہت بڑا مسئلہ بڑے شہروں پر بڑھتا ہوا آبادیاتی دباؤ ہے۔ جس کے نتیجے میں ان شہروں میں بنیادی سہولتوں کے فقدان کے علاوہ امن و امان کی سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بڑے شہروں (میٹروپولیٹن اور میگا) کی سیاسی و انتظامی حرکیات (Dynamics) کے بارے میں ہر قسم کی واقفیت سے عاری ہیں۔ نتیجتاً ایسے فیصلے کیے جارہے ہیں، جو معاملات و مسائل کوحل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ اور سنگین بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی سطح پر صنعتکاری کے نتیجے میں گزشتہ دو سو برس کے دوران بالعموم جب کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے بالخصوص دنیا بھر میں شہروں کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور درجنوں ایسے شہر وجود میں آئے جن کی آبادی لاکھوں ہی نہیں کروڑوں میں جا پہنچی ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے مرتب کردہ تعریف کے مطابق ایک ملین (10لاکھ) یا اس سے زائد آبادی والا شہر میٹروپولیٹن کہلاتا ہے، جب کہ 10 ملین (ایک کروڑ) یا اس سے زائد آبادی والا شہر میگا سٹی قرار پایا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں تو بڑے شہروں کا نظم ونسق چلانے کے لیے ہر چند برس بعد ایک نئی حکمت عملی آجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے نچلے ترین انتظامی یونٹ تک اقتدار واختیار کی مزید منتقلی ممکن ہوتی ہے اور انتظام و انصرام سہل ہوجاتا ہے۔
مگر ترقی پذیر بالخصوص وہ ممالک جو نوآبادتی تسلط کا شکار رہے ہیں، وہاں جدید طرز حکمرانی کی طرف بڑھنے کی راہ میں بے شمار سیاسی، سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں درپیش رہتی ہیں۔ پاکستانی معاشرہ جو ہنوز قبائلی اور جاگیردارانہ طرز معاشرت کی زنجیروں میں بری طرح جکڑا ہوا ہے، نظم حکمرانی، قبائلی ذہنیت کی حامل بااثر اشرافیہ کی مضبوط گرفت میں ہے، جو بظاہر جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، مگر مکمل طور پر جاگیردارانہ سوچ اور آمرانہ طرز عمل کی عکاس ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بعض ایسے اقدامات ہوئے، جن کے نتیجے میں ملک مکمل طور پر فیوڈل کنٹرول میں چلاگیا۔ صنعتوں اور تعلیمی اداروں کے قومیائے جانے کے نام پر بیوروکریٹائزیشن، بیوروکریسی کے سابقہ نظام کو بھونڈے انداز میں تبدیل کرنے کی کوشش اور آئین میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی شق کی موجودگی کے باوجود مضبوط مرکزیت کے نظام پر اصرار۔
پہلے اقدام کے نتیجے میں پورے ملک میں صنعتکاری کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے دیگر حصوں میں صنعتکاری تو درکنار، خود کراچی اور کوٹری میں لگی صنعت روبہ زوال ہوئی۔ البتہ وسطی پنجاب (جی ٹی روڈ کے اطراف) جنرل ضیا کے دور میں صنعتکاری کا عمل تیز تر ہوا، مگر یہ خود رو تھا، حکومتی حکمت عملی کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ پاکستان کے مختلف ادوار میں بننے والے پنج سالہ منصوبوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صرف ابتدائی دو پنج سالہ منصوبے (51-55 اور 55-60) کی وجہ سے ملک میں ابتدائی دور میں صنعتی ترقی ہوئی اور معاشی نمو میں اضافہ ہوا۔ دیگر منصوبے محض دکھاوا تھے۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ جب چھوٹے شہروں میں روزگار کے ذرایع پیدا نہیں ہوئے تو دیہاتوں اور چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کی طرف آبادی کے بہاؤ میں بہت زیادہ تیزی آنے لگی۔ خاص طور پر 1972 کے بعد کراچی جو ملک کی واحد بندرگاہ اور معاشی مرکز تھا، آبادی کا سب سے زیادہ دباؤ آیا۔ لیکن 1980 کے عشرے کے آخری برسوں کے دوران جب کراچی میں امن وامان کی صورتحال دگرگوں ہونا شروع ہوئی، تو لوگوں نے کراچی کے بجائے لاہور، فیصل آباد اور ملتان کا رخ کرنا شروع کیا۔ مگر پنجاب حکومت کی جانب سے ان شہروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا کوئی واضح ایجنڈا تیار نہیں کیا گیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت کے بعض اقدامات کے نتیجے میں لاہور سمیت چند شہروں میں انفرااسٹرکچر کی حالت ضرور بہتر ہوئی۔ مگر ان میں کلیدی نوعیت کی ان سہولیات کا بہرحال فقدان رہا، جو عوامی نوعیت کی ہوتی ہیں، مثلاً سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ اور فراہمی ونکاسی آب وغیرہ۔
دوسری طرف کراچی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی اور غلط حکمت عملیوں کے باعث لسانی اور قومیتی بنیادوں پر تصادم کے علاوہ جرائم کا مرکز بن گیا۔ مگر اس کے باوجود پورے ملک سے آبادی کا بہاؤ اس شہر کی جانب جاری رہا۔ خاص طور پر محنت کش طبقات کے لیے یہ شہر شروع سے سونے کی چڑیا ہے۔ شہر میں 1977 کے بعد سے کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا، بلکہ شہر میں جو انفرااسٹرکچر 1960 کی دہائی میں بنایا گیا تھا، وہ بھی حکمرانوں کی نااہلی کے سبب تباہ ہوگیا۔ مثال کے طور پر قیام پاکستان سے قبل جب شہرکی آبادی 4 لاکھ تھی، انگریز سرکار نے ایک سول اسپتال قائم کیا تھا۔ اب جب کہ شہر کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، کوئی نیا سول اسپتال قائم نہیں ہوا۔ اس وقت اتنی بڑی آبادی کے لیے صرف چھ سرکاری اسپتال ہیں، جو عوام کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انتہائی ناکافی ہیں۔ جب کہ صحت کے شعبہ میں کرپشن اس کے علاوہ ہے۔ یہی کچھ حال تعلیمی اداروں کا ہے۔ سرکار کی جانب سے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کوئی نیا اسکول اور کالج قائم نہیں کیا گیا۔ اسی طرح اتنے بڑے شہر کے لیے کل چار سرکاری جامعات ہیں، جن میں تین پروفیشنل جب کہ ایک اکیڈمک ہے۔ ان جامعات میں بھی صوبے کے علاوہ پورے ملک کے طلبا کے لیے نشستیں مختص ہیں، جس سے شہر کے طلبا کی حق تلفی ہورہی ہے۔
حکمران اور اہل دانش یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ کراچی سندھ ہے۔ بے شک کراچی سندھ کا حصہ اور دارالحکومت ہے، مگر کیا ایک ہی بھینس سے سارا دودھ نچوڑ لینا دانشمندی ہے؟ اگر صوبائی حکومت نے، جس نے دس برس مکمل کرلیے ہیں، اپنے دور حکومت میں سکھر، لاڑکانہ، خیرپور، نواب شاہ اور جیکب آباد کو ترقی دی ہوتی تو کم از کم کراچی پر آبادی کا وہ دباؤ نہیں ہوتا، جو آج ہے۔ اسی طرح اگر ہر صوبائی حکومت اپنے شہروں میں روزگار کے ذرایع پیدا کرتی تو ان صوبوں سے عوام کا بہاؤ کراچی کی طرف نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں صورتحال یہ ہے کہ ہر ایک کو تیار مال پر حق جتانے کے لیے ہزار تاویلیں یاد آتی ہیں، مگر خود کچھ تیار کرنے کی نہ اہلیت ہے نہ صلاحیت۔ جس کی مثالیں روتے گاتے چھوٹے شہر ہیں۔ جہاں نہ صرف روزگار کے مواقع موجود نہیں ہیں، بلکہ شہری سہولیات کا بھی فقدان ہے۔
طرفہ تماشا یہ کہ چھوٹی بڑی سبھی جماعتیں صوبائی خودمختاری اور وفاقیت کے حق میں ایک سے بڑھ کر ایک دلائل دے رہی ہوتی ہیں، مگر جب معاملہ اس سے نچلی سطح پر اقتدار کی منتقلی کا آتا ہے، تو دودھ دینے والی بھینس کے ہاتھ سے نکل جانے کے خوف میں اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوجاتی ہیں۔ یہ معاملہ بھی کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ انیس بیس کے فرق سے ہر جماعت اسی راہ پر گامزن ہے۔
اگر پاکستان میں سیاسی جماعتیں فیوڈل مائنڈسیٹ سے نکل کر اختیارات کی نچلی ترین سطح تک منتقلی کے تصور کی حقیقت کو سمجھ لیں اور ہر قسم کی تنگ نظری سے بلند تر ہوکر چھوٹے بڑے شہروں کو اپنا انتظام و انصرام خود چلانے کا موقع فراہم کریں تو اس عمل سے نہ صرف جمہوریت مستحکم ہوگی بلکہ ان جماعتوں کے کیڈر میں بھی اضافہ ہوگا۔ مگر ان حقائق کو سمجھنے کے لیے وسیع النظری اور سیاسی بالیدگی کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہماری سیاسی قیادتوں کو چھو کر بھی نہیں گزری۔ اس لیے ان کی سوچ میں اتنی وسعت ہی نہیں کہ چھوٹے شہروں کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بناکر بڑے شہروں پر آبادیاتی دباؤ کو روکنے کی سبیل کرسکیں۔