وزیر تعلیم اور یوم اساتذہ
رہائش کی سہولت بھی اساتذہ کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے
حال ہی میں دنیا بھر میں 'یوم اساتذہ' منایا گیا۔ اس سلسلے میں پاکستان میں بھی مختلف تقاریب منعقد ہوئیں۔ ایک تقریب میں صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے اپنی بچی کو سرکاری اسکول میں داخل کرانے کا اعلان کیا، نیز انھوں نے اپنے پرائمری کے استاد ملوک کنبھار کی (جن کو اس تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر عمرکوٹ سے بلایا تھا) پذیرائی کی، اور کہا کہ یہ وہ استاد ہیں جنھوں نے مجھے درخت کے نیچے قائم اسکول میں پڑھایا، لکھایا۔
اساتذہ کو ایسی عزت کسی زمانے میں دی جاتی تھی، آج کل تو ڈگری ملنے کے بعد لوگ بھول جاتے ہیں کہ انھیں اس مقام تک پہنچانے میں کسی استاد کا کیا کردار ہوسکتا ہے، وزیر موصوف نے اپنے استاد کو (اپنی وزارت ملنے کے بعد بھی) یاد رکھا، یہ ان کی بہت بڑی خوبی ہے اور اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ان کے استاد نے اپنے طلبا کو اس قدر محبت اور شفقت سے پڑھایا کہ وہ انھیں آج بھی یاد رکھتے ہیں۔
وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ قابل تعریف ہیں کہ انھوں نے اساتذہ کے مقام و مرتبے کو روایتی انداز میں اپنایا ہوا ہے اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی بچی کو سرکاری اسکول میں داخل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ وہ انقلابی اقدامات ہیں کہ جن کا اثر پورے معاشرے پر پڑے گا کیونکہ جو تبدیلی اوپر سے آئے اس کے ہی اثرات نیچے تک پہنچتے ہیں۔ آج کل اس کے برعکس کام کیے جاتے ہیں یعنی جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ کہنے کی باتیں اور ہوتی ہیں اور عمل کچھ اور ہوتا ہے۔ وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ کے اس عمل میں قول فعل کا کوئی تضاد نہیں ہے، چنانچہ ہم مجبور ہوئے کہ اس اہم واقعے پر کالم بھی لکھا جائے اور اساتذہ کے مسائل پر بھی کچھ تجاویز پیش کیں جائیں۔ چونکہ وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ کے قول و فعل میں فرق نظر نہیں آتا لہٰذا وہ ان تجاویز کو نہ صرف ہمدردی کی نظر سے دیکھیںگے بلکہ ان مسائل کے حل کے لیے یقیناً عملی اقدامات بھی کریں گے۔
(1) ایک زمانہ تھا کہ لوگ اساتذہ کا بے حد احترام کرتے تھے اور ان کے کام آگے بڑھ کر کرتے تھے لیکن اب فضا بدل چکی ہے، ایک استاد کسی اسکول کا ہو یا مدرسے کا، اسے اپنے سارے کام کاج خود کرنے پڑتے ہیں اور ان کی مدد اور احترام کرنے والے بھی کم ہی نظر آتے ہیں، مثلاً آج استاد کسی سرکاری اسپتال میں علاج کے لیے جائے تو وہاں بھی اسے گھنٹوں قطار میں لگنا پڑتا ہے، اس سلسلے تجویز ہے کہ جس طرح ' سینئر سٹیزن' کے لیے تمام پبلک ڈیلنگ کے اداروں میں علیحدہ کاؤنٹر قائم ہوتے ہیں، اساتذہ کے لیے بھی علیحدہ مقرر کیے جائیں، اسپتالوں میں الگ سے قطار ہو۔
(2) صحت کے مسائل سب سے زیادہ اخراجات طلب ہوتے ہیں، خاص کر آپریشن کی صورتحال میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سلسلے میں اساتذہ کو 'ہیلتھ کارڈ' جاری کیے جائیں، جس کی بنیاد پر وہ کسی بھی سرکاری و نجی اسپتال میں فوری اور مفت علاج کراسکیں۔ (واضح رہے کہ جامعہ کراچی جیسی بڑی جامعہ کے اکیس گریڈ کے پروفیسرز کو بھی یہ سہولت حاصل نہیں، کسی ایمرجنسی میں وہ کسی ہارٹ کے اسپتال میں جائیں تو انھیں پہلے اپنی جیب سے کیش رقم ادا کرنا پڑتی ہے)۔
(3) رہائش کی سہولت بھی اساتذہ کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، شہروں میں تو یہ مسئلہ سنگین ترین ہے، ایک ڈیڑھ کمرے کے کرائے بھی کسی نجی اسکول کے استاد کی ماہانہ تنخواہ سے کہیں زیادہ ہیں، سترہ گریڈ کے ایک استاد کی آدھی تنخواہ تو صرف مکان کے کرائے کی نذر ہوجاتی ہے، چنانچہ ایک عام استاد پر کیا گزرتی ہوگی اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے بے گھر افراد کو مکانات فراہم کرنے کی منصوبہ بندی جاری ہے، اگر اساتذہ کے لیے الگ سے کوئی منصوبہ سندھ حکومت بھی شروع کردے تو یہ اساتذہ کی عظیم خدمت ہوگی۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ جو اساتذہ جس ضلع میں رہتے ہیں انھیں اس ہی ضلع میں مکانات یا پلاٹس دیے جائیں تاکہ گھر کے قریب درس و تدریس کے امور انجام دے سکیں، اس سے ان کا وقت اور کنوینس بھی بچے گا۔ جن اساتذہ کو پلاٹس دیے جائیں ان کو مکان تعمیر کرنے کے لیے بلا سود قرضے بھی فراہم کیے جائیں اور قرضے کی رقم ہر ماہ ان کی تنخواہوں سے منہا کر لی جائے۔ (ملک کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ کراچی کے اساتذہ بھی کسی رہائشی اسکیم سے محروم ہیں)
(4) جو اساتذہ اپنے شعبے سے متعلق مزید تعلیم حاصل کرنا چاہیں، مثلاً ایک پرائمری اسکول کا کوئی استاد بی ایڈ، ایم ایڈ یا ایم فل وغیرہ کرنا چاہے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں کی فیس مکمل طور پر معاف کی جائے۔ اس طرح جو اساتذہ آگے پڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور مالی مشکلات کے سبب ایسا نہیں کرسکتے، وہ بھی اعلیٰ تعلیمی سند حاصل کرسکیں گے اور یہ عمل ان کی تدریسی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کا باعث بنے گا اور یوں چھوٹی جماعتوں میں بھی اعلیٰ تعلیم کے حامل اساتذہ کی تعداد بڑھے گی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار بھی بلند ہوگا۔ اس وقت سرکاری تعلیمی اداروں کا پست معیار ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
جس کے سبب خود سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کسی اور اچھے نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کریں۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، اس کے ادراک کے لیے ایک تو وہ عمل ہے جو وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے کیا، یعنی اپنے ہی بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کرانے کا اعلان کیا، اور دوسرا یہ عمل ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی علمی قابلیت میں اضافے کے اقدامات کیے جائیں، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اساتذہ کے لیے 'ری فریشر کورس'، 'ٹریننگ' اور مزید تعلیمی سند حاصل کرنے کے مفت مواقعے فراہم کیے جائیں۔ اس ضمن میں تمام سرکاری اداروں میں اساتذہ کو بالکل مفت تعلیم حاصل کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا جائے۔
یہاں راقم نے چند ایک تجاویز پیش کی ہیں وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ اس سلسلے میں اساتذہ کی مختلف تنظیموں سے مل کر مزید تجاویزات اور آرا حاصل کرسکتے ہیں اور ان پر غوروخوص کے بعد اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی بہتر خدمت کرسکتے ہیں، جس سے سندھ میں تعلیمی معیار بڑھے گا۔
عام لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ وہ تعاون کریں جو کبھی ہماری معاشرتی اقدار کا حصہ رہا ہے، جس میں ایک طالبعلم پڑھائی کے دوران بھی اپنے اساتذہ کے کام میں ہاتھ بٹاتا تھا اور استاد اگر علاج کی غرض سے کسی معالج کے پاس پہنچے تو وہ بھی نہایت عزت و احترام سے نہ صرف پیش آتا بلکہ فیس بھی نہ لیتا تھا۔ ایک مسجد یا مدرسے کے مولوی اور معلم سے سپارہ پڑھے والے بچے بھی ان کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے اور ان کے والدین بھی ان معلم کا خاص خیال رکھتے تھے، کھانا تک طالب علم لے کر حاضر ہوتے تھے۔ اب یہ معاشرتی اقدار تقریباً ختم ہو گئی ہیں، جس سے مولوی، معلم اور عام اساتذہ کے مسائل میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے، چنانچہ اس طرف معاشرے کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔