عمران خان کا ’آغاز‘
مشکل وقت کا بتا دیا گیا ہے اور یہ مشکل وقت عوام پر ہی آتا ہے عوام ہی مشکلات کا سامنا کرتے اور ان کو جھیلتے ہیں۔
PARIS:
وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے گزشتہ روز لاہور میں پہلی باقاعدہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انھوں نے حکومت کے آیندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بھی کھل کر اظہار خیال کیا۔
وزیر اعظم عمران خان ملک کے چاروں صوبوں کویکساں توجہ دے رہے ہیں ان کی توجہ سے لگتا یہی ہے کہ کوئی صوبہ ان کے لیے پسندیدہ کا درجہ نہیں رکھتا بلکہ بطور وزیر اعظم پاکستان وہ تمام صوبوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں ۔ان کی پسندہی کہی جا سکتی ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد وہ کراچی اور کوئٹہ کے دورے بھی کر رہے ہیںاور ساتھ ہی اپنے سیاسی مرکزپنجاب میں حکومت کے معاملات بھی دیکھ رہے ہیں ۔
عمران خان کی ایک خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کا ماضی ملک کے دوسرے سیاستدانوں کی نسبت پاک صاف ہے اور ان کے دامن پر ابھی تک سیاست کی وجہ سے کوئی داغ نہیں جم سکا۔یہ وہ اضافی وصف ہے جس کا عمران خان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ماضی میں ان کی پارٹی کی حکومت خیبر پختونخوا میں رہی جس سے انھوں نے نیک نامی ہی کمائی اور کوئی ایسی برائی ان کے ذمے نہیں لگی جس کا ان کو سیاسی نقصان ہو۔ اس لیے وہ ببانگ دہل اپنے سیاسی حریفوں کو للکارتے ہیں اور عوام کے سامنے ان کے کچے چٹھے کھول رہے ہیں ۔
ان کا ذہن صاف اور کسی قسم کی منفی سیاست سے پاک ہے ۔ ان کی حکومت کے بارے منفی پروپیگنڈہ اورچہ میگویاں شروع دن سے ہی جاری ہیں لیکن وہ اور ان کے ساتھی اپنے لیے مقررہ کردہ پہلے سو دن کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جس پر پیشرفت کے متعلق اظہار انھوں نے لاہور میں صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں بھی کیا وہ دراصل اپنی حکومت کی سمت اور ترجیحات عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت اگلے پانچ برسوں میں عوام کے لیے کیا کرے گی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ تھا کہ تحریک انصاف کے کسی بڑے عہدے دار کو صوبائی اسمبلی میں لاکر ان کو عہدے سے ہٹا دیا جائے گا اوران بڑے عہدیداروں میں شاہ محمود قریشی اور علیم خان زیادہ فیورٹ تھے لیکن وزیر اعظم عمران خان نے ایسی تما م چہ مگویوں اور پروپیگنڈہ کویہ کہہ کر رد کر دیا کہ جب تک تحریک انصاف کی حکومت رہے گی عثمان بزدار ہی وزیر اعلیٰ رہیں گے۔
وزیر اعظم عثمان بزدار کی تقرری کو ہی تبدیلی کہتے ہیں ان کی ایمانداری کی گواہی بھی دیتے ہیں ۔ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے اس وضاحت کے بعد امید ہے کہ اب پنجاب میں سیاسی اور انتظامی امور میں بہتری آئے گی انتظامیہ اب اپنا کا م شروع کرے گی اور وزارت اعلیٰ کے متوقع امیدوار بھی اپنے کام سے کام رکھیں گے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے قیام نے ملک کے جماندرو سیاستدانوں کی سیاست کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا اور ابھی تک ان کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ انہونی کیسے ہو گئی ۔ اس انہونی کی جتنی جلد ان جماندرو سیاستدانوں کو سمجھ آجائے ان کے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا کیونکہ اس سے ان کو اگلے پانچ برس کے لیے اپنے سیاسی راستے متعین کرنے میں مدد ملے گی۔
عمران خان کی حکومت کا واحد ایجنڈا ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور کرپشن کے خاتمے کے لیے احتساب ناگریز ہے وہ اس کام کے لیے کسی کی سننے کو تیار نہیں دوسرے لفظوں میں وہ کوئی سیاسی سمجھوتہ نہیں کر رہے ان کے بیانات کے سیاق و سباق یہ بتا رہے ہیں کہ پر عزم اور مستقل مزاجی سے ہی ملک کے مسائل کا حل ممکن ہے اس کے لیے وہ ہر ہفتے اپنی کابینہ کے ارکان سے مشاورت بھی کر رہے ہیں اور ان کے بقول ایک نیا قانون بھی لاگو کیا جا رہا ہے جس میں بدعنوانی کی اطلاع دینے والے کو غبن کی رقم کی وصولی سے بیس فیصد حصہ بھی ملے گا انھوں نے صحافیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ بھی اس مہم کا حصہ بنیں کرپشن کرنے والوں کی نشاندہی کریں اور اس سے اپنا مخبری کاحصہ وصول کریں۔
پہلے بھی عرض کیا ہے کہ عمران خان کی حکومت عمران خان کے ارد گرد ہی گھومتی ہے یعنی حکومت کا نام عمران خان ہے اس لیے عوام کی نظریں اگر کسی حکومتی شخصیت کی جانب اٹھتی ہیں تو وہ شخصیت عمران خان کی ہے۔ اس بات کا ان کو اندازہ ہے اس لیے وہ خود یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا پیغام عوام تک ان کی زبان میں ہی پہنچے۔ ان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ان کو ابلاغ کے وہ تمام ذرایع میسر ہیں جو آج سے کچھ عرصہ قبل تک ان کے پیشروؤں کو میسر نہ تھے وہ اپنا پیغام با آسانی عوام تک پہنچا رہے ہیں ۔
ان کی پہلی باضابطہ پریس کانفرنس سے یہ لب لباب سامنے آیا ہے کہ حکومت احتساب کے ذریعے ملک کی لوٹی گئی دولت کو اکٹھا کر کے ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ وزیر اعظم نے یہ اعتراف بھی کیاہے کہ مہنگائی نہ بڑھائیں تو قرضے مزید بڑھ جائیں گے ۔ انھوں نے مختلف محکموں کے بارے میں جو ہوشرباء تفصیلات بیان کی ہیں ان کو سن کر لگتا ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں ان محکموں کو لوٹا ہی گیا اور ان کی بہتری کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا ۔
جن گردشی قرضوں کا شور ہمارے سابق مفرور وزیر خزانہ اسحاق ڈار مچاتے تھے اب معلوم ہوا ہے کہ وہ بارہ سو ارب کا صرف بجلی کا گردشی قرضہ چھوڑ کر لندن میں سیر سپاٹے کر رہے ہیں ۔ کئی بار پہلے بھی لکھا تھا کہ جب ملک کی تقدیر ایک اکائونٹنٹ کے حوالے کر دی جائے گی تو پھر یہی کچھ ہو گا جو اس ملک کی معیشت اور اس کے اداروں کی معاشی حالت کے بارے میں ہم سن اور پڑھ رہے ہیں ۔ ان کو واپس لا کر کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھنا چاہیے کہ پاکستان نے ان کے ساتھ کون سی زیادتی کی تھی جس کا انھوں نے اتنا ظالمانہ بدلہ لیا ہے۔
وزیر اعظم کی پریس کانفرنس کا اتنا فائدہ شائد حکومت کو نہیں پہنچے گا جتنا اپوزیشن کو ہوگا کیونکہ انھوں نے دل کھول کر ملک کی حالت بیان کی ہے اور اس حالت کو سدھارنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت بھی بتا دی ہے۔ حکومتی سخت اقدامات اپوزیشن کے لیے کھل کر کھیلنے کے دن ہوتے ہیں۔ اس لیے عمران خان کی جانب سے ان کے حامیوں کے لیے کوئی زیادہ اچھی خبریں نہیں ہیں۔
مشکل وقت کا بتا دیا گیا ہے اور یہ مشکل وقت عوام پر ہی آتا ہے عوام ہی مشکلات کا سامنا کرتے اور ان کو جھیلتے ہیں۔ ایک اچھے مستقبل کی خوشخبری بھی سنائی گئی ہے لیکن یہ سب احتساب کے عمل سے مشروط ہے ۔ ایک بے رحم احتساب !