ہمارے مسائل کیا ہیں
گزشتہ 70 برسوں میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کبھی کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہی ہوا۔
پیداواری قوتوں اور محنت کش عوام کے خوراک ، رہائش اور صحت کے مسائل ہمیشہ سے حل طلب ہیں۔ گزشتہ 70 برسوں میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کبھی کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہی ہوا۔ کھانے پینے کی بنیادی چیزوں میں آٹا، دال، چاول، تیل، دودھ، دہی، نمک، مرچ، مصالحہ، گوشت، مچھلی، سبزی اور پھلوں کے علاوہ اورکیا چاہیے باقی تمام چیزیں اضافی عیش وعشرت کے لیے ہیں۔
ریاست کے وجود میں آنے سے قبل چونکہ طبقات نہیں تھے اس لیے طبقاتی استحصال اور ذخیرہ اندوزی بھی نہیں ہوتی تھی۔ مل کر پیداوار کو جمع کرتے تھے اور کھانے پینے کے لیے آپس میں بانٹ لیتے تھے۔ اب ہمیں قدیم کمیونسٹ سماج کی بجائے جدید کمیونسٹ سماج کی ضرورت ہے جس میں کوئی ارب پتی ہو گا اور نہ کوئی گداگر۔ مگر اس سماج کے قیام کا عمل خود بخود یا شریفانہ انداز میں نہیں ہو گا بلکہ پیداواری قوتوں کو پیدا نہ کرنے والی قوتیں جو سب کچھ کی مالک ہیں سے چھیننا پڑے گا۔
سماج کے ارتقا میں طبقاتی نظام میں جتنے مراحل درپیش آئے ہر دور میں پیداواری قوتوں کا استحصال ہوا اور آج اس عالمی سرمایہ داری نے تو استحصال کی حد کردی ہے۔ ایک جانب بھوک ہے لوگ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لقمہ اجل ہورہے ہیں تو دوسری جانب دولت کا انبار لگتا جا رہا ہے۔
ہر دور میں حکومتیں یہ کہتی آرہی ہیں کہ ہم سے پہلے جو حکومت تھی اس نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے اب ہم راتوں رات تو اسے نہیں سدھار سکتے۔ مگر اقتدار میں آنے سے قبل ہر جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہم سب کچھ ٹھیک کردیں گے مگر ایسا ہوتا نہیں۔ اس لیے کہ اس سرمایہ داری نظام کا وتیرہ یہ ہے کہ محنت کشوں اور پیداواری قوتوں کا خون چوسے بغیر کروڑپتی، ارب پتی اور ارب پتی، کھرب پتی نہیں بن سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کو لے لیں۔
ابھی تو 100 روز ہی نہیں ہوئے کہ دال، چینی، آٹا، مکھن، تیل، دودھ، بیکری کے مصنوعات، بجلی، کھاد، گیس، مٹی کا تیل، ایل پی جی، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ سبزیاں اور پھل بھی مہنگے ہوگئے، عوام کو دی جانے والی رعایتیں واپس لے لیں۔ بالواسطہ عوام پر ٹیکس لگادیا۔
1300 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ اب 200 سے زیادہ اداروں کو نجی ملکیت میں لے کر بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ کردیا جائے گا۔ جب کہ عوام کو بھینس اور ہیلی کاپٹر کی ہیرا پھیری میں ملوث رکھا جا رہاہے۔ 24 لاکھ روپے کی بھینس بکی ہے جب کہ اس کی فروخت کے لیے اشتہار کے اخراجات پر 34 لاکھ روپے خرچ آئے ہیں۔
کہا جارہاہے کہ سعودی عرب گوادر میں 10 ارب ڈالرسے آئل سٹی بنائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر سعودی عرب نے انٹرنیشنل کنسور شیم کو 11 ارب ڈالر کے قرض لینے کی درخواست کیوں دے رکھی ہے۔ ہمارا تو یہ کہنا ہے کہ اگر معیشت کو بہتر کرنا ہے تو IMF اور WB کے قرضہ جات کو بحق سرکار ضبط کر لیا جائے اس لیے کہ ہم قرضوں کا جتنا سود ادا کرچکے ہیں وہ قرضوں سے زیادہ ہے۔
آپ ڈریں گے یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ پھر تو ہماری معاشی ناکہ بندی ہو جائے گی اور پھر کوریا اور ایران جیسا حشر ہو گا۔ مگر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ماؤزے تنگ کا چین، کرنل ناصر کا مصر، قذافی کا لیبیا، صدام کا عراق، کاسترو اور چی گویرا کا کیوبا مشرقی یورپ اور سوویت یونین نے جب ملکی اور غیر ملکی سرمایہ بحق سرکار ضبط کر لیا تھا تو کسی نے ان کا کیا بگاڑا۔
اب ہم میں یہ جرأت نہیں اور نہ یہ حکومت انقلابی ہی ہے۔ تو پھر اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے جاگیرداری کو ختم کرکے ساری زمینیں کروڑوں بے زمین کسانوں، کھیت مزدوروں میں تقسیم کردیں۔ جو اشیا ہم خود پیدا کرتے ہیں ان کی در آمد پر پابندی لگادیں۔
دھات سازی، برقیات اور کیمیائی مواد کے بنیادی کارخانے قائم کریں نہ کہ مینو فیکچرنگ اور اسمب لنگ پر گزارہ کریں۔ اگر ہم لاکھوں کروڑوں لوگوں کو بھوک اور بیماری سے بچانا چاہتے ہیں تو مل کارخانوں کا جال بچھادیں ۔ صنعتی ترقی کا روڈ میپ دیں۔ آج سرکاری اسپتالوں میں جاکر دیکھیں لاکھوں مریض اسپتالوں کے کوریڈور اور صحن میں اپنی باری کا انتظار کرنے پر مجبور ہیں۔
کراچی کے امراض قلب کے سرکاری اسپتال میں روزانہ ڈھائی ہزار سے زیادہ نئے مریضوں کی انٹری ہوتی ہے۔ جناح اور سول اسپتال کراچی میں گردے اور دیگر شعبوں میں پانچ پانچ سو افراد کی لائنیں لگی ہوتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم از کم ایک غیر ہنرمند مزدور کی تنخواہ 15000 روپے 90 فی صد مزدوروں کو ادا نہیں کی جاتی۔
روزانہ پاکستان میں بھوک اور بیماری سے کم از کم ایک ہزار افراد جان سے چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی رپورٹ تک نہیں ہوتی ان سب کا اس نظام میں رہتے ہوئے ایک آسان سا نسخہ ہے کہ غیر پیداواری اور دفاعی اخراجات میں 50 فی صد کی کمی کردی جائے مگر پاکستان بننے سے آج تک 0.1 فی صد کی بھی جنگی بجٹ میں کمی نہیں کی گئی۔
بجٹ میں ردوبدل کے لیے حکومت کو کئی پہلوؤں کا جائزہ لینا پڑتا ہے اور بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جب اربابِ اختیار اپنے ہاتھ بندھے ہوئے محسوس کرتے ہیں لہٰذا ان معاملات میں وہ خود کو یکسر بے بس خیال کرتے ہیں اور حالات کو ویسے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
ہمارے گوداموں میں 3 سال سے 65 لاکھ ٹن گندم فضول میں پڑی ہوئی ہے جس کی قیمت 1200 ارب روپے کی ہے انھیں سستے داموں میں آٹا بنانے والوں کو دیکر تھر اور ملک بھر میں عوام کی بھوک مٹائی جاسکتی ہے۔ ہمارے پاس زمینی رقبہ بہت ہے۔ سمندرکے پانی، گٹر اور ڈیپ ویل کے پانی کو ری سائیکلنگ کرکے کاشت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
گوادر شہر و دیہات میں پینے کا پانی تک نہیں۔ ہم نے 2017ء کے دوران 8.44 ملین ٹن سویا بین امریکا، چین، اور برازیل سے در آمد کیا جب کہ اس کی ضرورت نہیں پڑتی اگر ملک سے باہر اور اندرون ملک لوٹی دولت کو جمع کرلیں تو وہ خاصی ہوجاتی ہے مگر حکمران طبقات کے لوگ ہی ان سے کیونکر واپس لے سکتے ہیں۔