ناقابل اختتام امن مذاکرات آخری حصہ
بات چیت کے دوران بن گوریان ایئرپورٹ پر ارشد محمد اور مائیکل گورڈن نامی صحافیوں کے دو سوال ایسے تھے کہ جان کیری کے ۔۔۔
بات چیت کے دوران بن گوریان ایئرپورٹ پر ارشد محمد اور مائیکل گورڈن نامی صحافیوں کے دو سوال ایسے تھے کہ جان کیری کے پاس ان سوالوں کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ارشد محمد نے کیری کو یاد دلایا کہ اٹلی میں انھوں نے کہا تھا کہ فریقین سنجیدہ ہیں لیکن اسرائیل نے پھر نسل پرست یہودی بستیوں کی تعمیر کا کام شروع کردیا ہے توکیا اب بھی ان کا موقف یہی ہے؟ اس طرح مائیکل گورڈن نے کہا کہ فلسطینی حکام کہتے ہیں کہ سات جون تک امن عمل میں پیشرفت کی امید ہے لیکن امریکا کے وزیر خارجہ ان دونوں سوالات کا براہ راست جواب گول کرگئے۔ کہا جاسکتا ہے کہ نہ تو اسرائیل سنجیدہ ہے اور نہ ہی سات جون تک فلسطینیوں کی امید بارآور ثابت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔جان کیری ڈھٹائی اور بے شرمی سے منظم ، مفصل ، محکم اور بارآور مذاکرات کے ڈھول بجانے میں مصروف ہیں کیونکہ ان کے اپنے الفاظ میں ان کا خطے میں قریب ترین دوست، اتحادی اور شراکت دار اسرائیل ہے۔
جہاں تک لفاظی کا تعلق ہے تو محمود عباس کے بیانات بھی انتہائی دل خوش کن ہیں۔ جان کیری،شمعون پیریز اور اردن کے شاہ عبداللہ کی موجودگی میں فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے 26 مئی کو ورلڈ اکنامک فورم برائے مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ سے خطاب کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ نسل پرست یہودیوں کے مکانات کی تعمیر، فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیلیوں کے قبضے، فلسطینیوں کی گرفتاریاں اور بیت المقدس میں تبدیلیاں دو ریاستی حل کے امکانات کو ختم کردیں گی۔
لیکن اس تنبیہ کے بعد بھی صہیونی اسرائیلی حکومت اور افواج اور غیر قانونی آباد نسل پرست یہودیوں کے مظالم جاری ہیں ۔کیا محمود عباس کے پاس کوئی ٹائم فریم ہے کہ کب تک وہ ان امکانات کو عملی طور پر بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیں گے۔ 26مئی کو ان کا جو ان کا اب تک کا آخری بیان سامنے آیا اس کے بعد 30مئی تک فلسطین کے 78فیصد علاقے پر دہشت گردی اور دھاندلی سے قبضہ کرکے ناجائز ریاست قائم کرنے والی صہیونی اسرائیلی حکومت اور اس کے آلہ کاروں نے کیا کیا ہے ، اس کے لیے درج ذیل تفصیلات ملاحظہ فرمائیں۔
محمود عباس کی حکومت کے تحت چلنے والے فلسطینی سرکاری خبررساں ادارے کی اپنی رپورٹس موجود ہیں کہ 30مئی کو بیت اللحم میں اسرائیلی فوج نے فلسطینی بچے کو چہرے پرگولی ماری، الخلیل میں کم عمر بچے کی شدید پٹائی کی، جنین کے مغرب میں واقع گاؤں رومانہ میں فلسطینیوں پر آنسوگیس کی شدید شیلنگ کی، حال ہی میں رہا کیے گئے واسم زائد کے گاؤں یمعون میں چھاپہ ، اس پر تشدد اور کئی گھنٹے اس کے رشتے داروں کو گھر سے باہر کھڑا رکھا، بیت المقدس میں 24فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا، غزہ پر اسرائیلی بحریہ نے کئی میزائل فائر کیے۔
28مئی کو الخلیل میں فلسطینیوں کی زمین پراسرائیل نے پٹرولنگ ٹاورز جب کہ نسل پرست بستیوں کے یہودیوں نے خیمے قائم کرکے راستے بلاک کردیے،مسجد اقصیٰ کو جنونی یہودی حملہ آوروں سے بچانے والا گارڈ گرفتار، بیت اللحم پر آنسو گیس شیلنگ، 27مئی کو اسرائیلی فوجیوں کی مسجد اقصیٰ پر اشتعال انگیز کارروائیاں، وادی اردن میں دو گھر اور دو شیڈز مسمار،مشرقی بیت المقدس کے علاقے شیخ الجراح میں 15فلسطینیوں کی کاروں کے ٹائر کاٹ ڈالے، دو دکانوں پر نسل پرست بستیوں میں آباد یہودیوں کا قبضہ، مغربی کنارے اور بیت المقدس سے 12فلسطینی گرفتار۔
29مئی کو غیر قانونی نسل پرست یہودی بستیوں میں آباد افراد نے کاروں کو نذر آتش کردیا ، الخلیل میں اسرائیلی فوج فلسطینیوں پر حملہ آور، مشرقی بیت المقدس میں گھر مسمار، مغربی کنارے اور بیت المقدس سے 12فلسطینی گرفتار، بیت المقدس کے شمال مشرق میں دکان مسمار اور نسل پرست بستیوں میں آباد یہودیوں نے فلسطینیوں کی کاروں کے ٹائر کاٹ ڈالے، الخلیل میں اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں پر پتھراؤ کیا اور شیشے کی بوتلوں سے بھی حملہ آور ہوئے، اسرائیلی افواج غزہ کی سرحدوں کے راستے داخل ہوئی، مغربی کنارے کے علاقے طوباس میں نسل پرست بستیوں میں آباد یہودیوں نے6کاریں نذر آتش کردیں۔
30مئی کو ایک انگریزی اخبار کے آخری صفحے پر یروشلم کی ڈیٹ لائن سے فرانسیسی خبر رساں ادارے کی وہ منہ بولتی تصویر دنیا بھر کی حکومتوں اور انسانی حقوق کے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔اس تصویر میں ایک فلسطینی خاتون اپنے کمسن بچے کو گود میں لیے بیٹھی احتجاج کررہی ہے اور بچہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے رو رہا ہے کیونکہ اسرائیلی بلڈوزر نے مشرقی بیت المقدس کے علاقے بیت حنینا میں ان کا گھر مسمار کردیا ہے۔ایسے کئی اور بچے اور ایسی کئی اور فلسطینی مائیں ہیں جن کی تصاویر شائع ہی نہیں ہوپاتیں لیکن ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوچکا ہے۔
اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکااور دیگر ممالک اور تنظیموں کا یہ بیان کہ وہ اس عمل کی حمایت نہیں کرتے یا یہ کہہ دینا کہ فلسطینیوں کے علاقے میں یہودی بستیاں غیر قانونی ہیں، کافی نہیں۔ ان بیانات ، مخالفت یا قرارداد مذمت سے نہ تو فلسطینیوں کو ان کا حق مل سکا ہے اور نہ ہی اسرائیل کے کان پر کوئی جوں رینگی ہے۔فلسطینی اس نام نہاد عالمی برادری سے خواہاں ہے کہ اسرائیل کی مرمت کی جائے کیونکہ مذمت کا تو وہ عادی ہوچکا ہے۔ اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔فی الوقت دور دور تک ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ فلسطینیوں کی اس بے بسی کے پیچھے اپنوں کی بے وفائی اور بے حسی کارفرما ہے۔
مسلمان ممالک کی نمائندگی کی دعویدار تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے قیام میں مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی نے بنیادی محرک کا کردار ادا کیا تھا۔ اس تنظیم کے نصب العین میں آج بھی تحریر ہے کہ مستقل طور پر اس کا ہیڈکوارٹر بیت المقدس میں قائم ہوگا۔ او آئی سی،عرب لیگ اور خود فلسطینی انتظامیہ بھی اعلان کرچکے ہیں کہ مشرقی بیت المقدس آزاد فلسطین کادارالحکومت ہوگا۔ان کی حکمت عملی سے فلسطین تو آزاد نہیں ہوسکا البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ نسل پرست صہیونی یہودی ریاست اسرائیل کے دہشت گرد صدر اور وزیر اعظم اپنے سرکاری گھر اور دفاتریروشلم میں قائم کرچکے ہیںجب کہ اقوام متحدہ کے قوانین کی رو سے بھی یروشلم ان کی ناجائز ریاست کا حصہ بھی نہیں ۔اقوام متحدہ کا سربراہ اور امریکی صدر بھی صہیونی صدر اور وزیر اعظم سے یروشلم میں ملاقاتیں کرچکے ہیں۔اس سے اندازہ لگالیں کہ دنیا میں قانون کی حکمرانی کے دعویدار خود بین الاقوامی قانون پر کتنا عمل کرتے ہیں۔
سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ مشرقی بیت المقدس (یروشلم) میں فلسطینیوں کے گھر کی مسماری پر اور ان کی ان علاقوں سے بے دخلی کے خلاف او آئی سی، عرب لیگ اور فلسطینی انتظامیہ کی حکمت عملی کیا ہے؟محمود عباس تو باقاعدہ اردن کے شاہ عبداللہ کے ساتھ معاہدہ کرکے بیت القدس کے حرم الشریف کا انھیں خادم حرمین شریفین تسلیم کرچکے ہیں۔ اوباما اور جان کیری بھی اردن کے اس بادشاہ کے ممنون و مشکور رہتے ہیں۔ شمعون پیریز بھی شاہ عبداللہ کے مہمان بنتے رہتے ہیں۔ کیری اور پیریز کے ساتھ محمود عباس کی تصاویر دنیا نے دیکھیں۔صدر اوباما مارچ میں خطے کا دورہ کرچکے اور مئی کے پہلے عشرے میں مسجد اقصی کے مفتی اعظم محمد حسین کو گرفتار کرلیاگیا۔ بیت المقدس پر جنونی یہودی دندنانے لگے ۔کیاورلڈ اکنامک فورم سے محمود عباس کے خطاب سے پہلے اور بعد کی صورتحال کا محمود عباس کو علم نہیں ہے؟
تو کیا امید کی جائے کہ وہ سخت رد عمل ظاہر کریں گے؟جی نہیں۔یہ سارے عرب حکمران امریکا کے سامنے بے بس ہیں۔ امریکا فلسطین کو ناقابل اختتام مذاکرات کی تلقین کرتا رہے گا۔ اورصہیونی صدر بھی کہہ چکا ہے کہ فلسطینیوں اور ان کے مابین گہرے اختلافات کے باوجود دونوں مذاکرات کی میز پر اختلافات پر گفت و شنید کرتے رہیں۔ یعنی مذاکرات برائے ناقابل اختتام مذاکرات جو فلسطین کو بند گلی میں دھکیلتے رہیں گے اور اسرائیل جو کہ فلسطینی مزاحمت کے باعث بند گلی میں پہنچ چکا ہے اس کے لیے یہ لاحاصل مذاکرات بند گلی کھولتے رہیں گے۔