یہ مسئلہ اہم ہے
کیا اونچی پوسٹوں پر کام کرنے والے واقعی اونچی تنخواہوں کے بھی اہل ہوتے ہیں؟
وزیر اعظم صاحب! آپ سے التماس ہے کہ پاکستان کے مزدوروں کے لیے قانون سازی کی جائے، تمام نجی کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ورکر سے آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہ لے سکیں اور ہر ورکرکی ایک دن کی اجرت کم ازکم آٹھ سو روپے مقررکی جائے، جو ماہانہ چوبیس ہزار بنتے ہیں، لیبر لا کا اطلاق کیا جائے تاکہ کسی غریب کے بچے خالی پیٹ نہ سو سکیں۔
یہ ایک کھلا خط تھا جو واٹس ایپ پر پیغام کی صورت میں موصول ہوا تھا۔ پاکستان میں تبدیلی کے حوالے سے آنے والی یہ حکومت کی پہلی باری ہے۔ اس سے پہلے کی حکومتیں اپنے مختلف منشورکے حوالوں سے آئی اورکام کیا لیکن مزدورکے حوالے سے خاص کر پیپلز پارٹی کی حکومت کے بہت دعوے تھے۔ روٹی،کپڑا اورمکان ایک غریب عام آدمی کے لیے پرکشش نعرہ ہے لیکن حقیقت میں اس پرکس حد تک عمل ہوا ہے۔
پچھلے ستر برسوں میں پاکستان میں ایک طبقہ زمین سے اٹھ کر آسمان کی بلندیوں تک ترقی کرچکا ہے۔ مثالیں اگرگننا شروع کریں تو چند مثالوں میں ہی حیرت سے منہ کھل جائے گا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ساٹھ سترکی دہائی سے صفر سے شروع کرنے والے بڑے بڑے کھاتے دار بن گئے جب کہ ایک بڑی تعداد اب بھی اوپر دیے گئے۔ خط کے تحت مجبوری کی زندگی بسرکر رہی ہے، امیر اورغریبوں کے درمیان پیدا ہونے والی خلا بڑھتی جا رہی ہے۔ اس خلا کا شکارکون ہے اور کون شکارکھیل رہا ہے۔
''میں بیس برسوں سے کام کر رہا ہوں، میری تعلیمی استعداد، تجربہ اور ہنر سے میرے اوپر والے (نگران) واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ میری وجہ سے ادارے کو فائدہ حاصل ہو رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ میری تنخواہ میں معمولی اضافہ کرنے کے بعد وہ تمام مراعات جو میرا حق تھیں کاٹ دی گئی ہیں۔ ان مراعات سے وہ ملازمین بھی متاثر ہیں جو چند برسوں بعد ریٹائر ہو رہے ہیں یہ غلط ہے بالکل ایسا نہیں ہونا چاہیے جب کہ ہمارے نگران میں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جو عملی طور پر یعنی فیلڈ میں کام نہیں کر رہے لیکن ان کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں۔ ان کو حال ہی میں رکھا گیا ہے ہم مجبور ہیں کہ کام کر رہے ہیں اور وہ ہماری مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔''
یہ صورتحال کسی ایک ادارے کی نہیں ہے پاکستان کے کئی بڑے نجی اداروں میں ایسا ہو رہا ہے، اپنے تعلقات اور سفارش کی بنیاد پر بھی اونچی پوسٹوں پر لوگوں کو فائزکیا جاتا ہے اور اس کا تاوان نچلی پوسٹوں پر کام کرنے والوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کیا اونچی پوسٹوں پر کام کرنے والے واقعی اونچی تنخواہوں کے بھی اہل ہوتے ہیں؟
خدا جانے وہ کس طرح کام کرتے ہیں، انھیں تو ناموں کی ہجے بھی نہیں آتے۔ انتہائی کوڑھ مغز ہیں باپ نے گھر بنا دیا تھا تو آرام سے رہ رہے ہیں تعلقات کی بنیاد پر نوکری بھی مل گئی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ شخص کس طرح کام کرتا ہے حالانکہ پرائیویٹ سیکٹر میں اس طرح کے لوگ کام نہیں کرتے لیکن وہ کر رہے ہیں۔
دراصل بہت سے پرائیویٹ ادارے بہت طویل عرصے سے کام کر رہے ہیں، ان کی ساکھ ہے اورکاروبار پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے ایسے اداروں کو آپ پہچان سکتے ہیں۔ ان کی شناخت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسے اداروں کے مالکان اکثر اپنے ملازمین کے مسائل سے ناواقف رہتے ہیں۔ اوپری سطح کے ملازمین چاپلوسی سے ایسا گھیرا بناتے ہیں کہ وہ نچلی سطح کے ملازمین اور مزدور طبقے کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ یہ ان کی غلطی اور اوپری سطح کے ملازمین کی بے ایمانی ہے ایسے درجوں پر اہلیت سے زیادہ تعلقات اور رشتے داری نبھائی جاتی ہے، جن سے اداروں میں بے اطمینانی کی فضا قائم ہوجاتی ہے کام کرنے کا ماحول ایسے عناصرکے باعث آلودہ ہو جاتا ہے، جس سے کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور پروڈکٹ پر بھی اثرات پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
ہمارے یہاں سرکاری اداروں میں بھی کچھ ایسا ہی حال ہے لیکن ابھی نجی اداروں کی حالت زار پر بات کی جا رہی ہے کہ جن کے بارے میں عام طور پر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہاں زیادہ توجہ دی جاتی ہے لیکن حال ہی میں بہت سے بڑے اداروں میں تبدیلی کے حوالے سے منفی باتیں سامنے آئی ہیں۔ محسوس یوں ہو رہا ہے کہ چند لوگوں کو بڑی بڑی تنخواہوں سے نوازنے کی وجہ سے کام کرنے والے مزدور، کاریگر اور افسران حضرات بے توجہی کا شکار ہو رہے ہیں اور لیبر ایکٹ کی دھجیاں بکھر رہی ہیں، کام کرنے کے اوقات کار کے علاوہ کام کرنے پر اوور ٹائم بھی نہیں دیا جاتا۔
بہت سے ایسے مظلوم لوگوں کی کہانی سن کر سخت افسوس ہوا، جنھوں نے ایک طویل عرصہ ادارے میں گزارنے اور خدمات انجام دینے کے بعد بھی کیا پایا۔ وہ ایک پڑھے لکھے اور محنتی ورکر تھے۔ بائیس برس کام کرنے کے بعد انھوں نے اپنے پیروں پر اپنی اہلیت اور قابلیت کے بل بوتے پر کھڑا ہونا چاہا اور اپنے ادارے سے مستقل چھٹی لے لی۔ ان کا خیال تھا کہ اتنے برسوں کی محنت کے بعد یقینا انھیں اتنے پیسے تو مل ہی جائیں گے کہ وہ اپنے چھوٹے سے کاروبار کو بڑھا سکیں گے لیکن جب ان کے ہاتھ میں ادارے کی جانب سے رقم کا پروانہ ملا تو افسوس اور دکھ سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
اتنے برسوں کی انتھک محنت کے بعد محض چند لاکھ پکڑا کر انھیں رخصتی کا پروانہ پکڑا دیا گیا۔یقینا کاروبار میں برکت ہے لیکن اگرکاروباری حضرات اس برکت کو سمیٹنے کے عمل میں اپنی توجہ شامل کرلیں تو کتنا ہی اچھا رہے، اگر دیکھا جائے تو یہ بڑے بڑے کاروباری ادارے چلانے میں سب سے زیادہ محنت اسی طبقے کی ہے جنھیں چند ہزار روپے مہینے پر پکڑا کر بارہ بارہ گھنٹے مشقت میں جوت دیا جاتا ہے، حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلے پر توجہ دے اور بے اطمینانی، ڈر اور خوف کی فضا کو ختم کرنے میں قدم بڑھائے جو ہمارے ملک کی ترقی میں بہت اہم ثابت ہو سکتا ہے۔