راتیں تھیں چاندنی جوبن پہ تھی بہار

یہ گیت گلوکار رفیق غزنوی اور اس دورکی مشہور گلوکارہ امیر بائی کرناٹکی نے گایا تھا۔


یونس ہمدم October 14, 2018
[email protected]

ایک زمانے میں آل انڈیا ریڈیو سے ایک گیت کی بڑی دھوم مچی تھی اور اس گیت کی اتنی شہرت ہوئی کہ اس فلم کے شاعر کو بمبئی بلایا گیا اور اس گیت کو فلم ''میرے ساجن'' کے لیے ریکارڈ کیا گیا جس کی موسیقی خان مستانہ نے دی تھی یہ گیت گلوکار رفیق غزنوی اور اس دورکی مشہور گلوکارہ امیر بائی کرناٹکی نے گایا تھا۔ گیت کے بول تھے:

راتیں تھیں چاندنی جو بن پہ تھی بہار

باغوں میں پھول جھوم رہے تھے خوشی کے ساتھ

ہنستا تھا پات پات

یہ ایک طویل نظم تھی جو دس منٹ کی تھی ۔ اس نظم کو پھر مختصرکرکے فلم کی زینت بنایا گیا تھا اور اس گیت کے شاعر تھے واحد اکبر قریشی ، واحد ان کا تخلص تھا ۔ اس شاعر کو بہت کم لوگ جانتے تھے مگر اس کے لکھے ہوئے گیت کی سارے ہندوستان میں شہرت پھیلی ہوئی تھی، ایک ہی گیت کی مقبولیت نے بڑا جادو جگایا تھا۔ اب میں واحد قریشی کی ابتدائی زندگی کی طرف آتا ہوں، ابھی ہندوستان تقسیم نہیں ہوا تھا ۔ بمبئی، کلکتہ اور لاہور میں فلم انڈسٹری کا وجود اپنا رنگ دکھا رہا تھا۔

لاہور کی فلم انڈسٹری میں بحیثیت کہانی نویس، مکالمہ نگار اور شاعر ولی صاحب مشہور فلم ساز و ہدایت کار روپ کے شوری کی فلم پروڈکشن سے وابستہ تھے۔ اس دوران انھوں نے لاہور میں بہت سی فلمیں لکھی تھیں پھر جب شہرت ان کے گلے کا ہار بنی تو یہ بھی فلم سازوہدایت کار مشہور ہوتے چلے گئے اس دوران انھوں نے اپنی کئی ذاتی فلمیں بنائیں۔ سوہنی کمہارن، منگنی، خزانچی اس دوران واحد قریشی ان کے اسکرپٹ ڈپارٹمنٹ میں شامل تھے اور ان کے معاون بھی تھے پھر جب ولی صاحب مشہور ہدایت کار بن کر بمبئی کی فلم انڈسٹری میں گئے تو وہاں بھی ولی صاحب کی شہرت کے ڈنکے بجنے لگے تھے ۔

واحد قریشی یہاں بھی ولی صاحب کے کافی عرصے تک معاون رہے پھر جب ان کے ریڈیو کے لیے لکھے گئے گیت کو شہرت ملی تو انھیں بھی فلم ''میرے ساجن'' میں بحیثیت شاعر اور مکالمہ نگار لیا گیا۔ فلم ''میرے ساجن'' کو تو زیادہ کامیابی نہ مل سکی مگر واحد قریشی کی شہرت کا سفر آگے بڑھتا رہا پھر جب ان کی مصروفیت بڑھنے لگی تو انھوں نے ولی صاحب کی پروڈکشن چھوڑ دی اور فلم ساز ادارے ہریش چندر آرٹ پروڈکشن سے وابستہ ہوگئے اس دوران انھوں نے کہانیاں لکھیں کچھ کہانیاں درست بھی کیں اورکچھ فلموں کے مکالمے بھی لکھے اس دوران ان کو بحیثیت رائٹر فلم ''رنگیلا مزدور'' فل فلیش لکھنے کو ملی یہ فلم اپنے نام کی وجہ سے عوام میں بڑی پسند کی گئی۔

اس کی کہانی بڑی دلچسپ تھی پھر آئینہ پکچرز کی فلم ''دل کی بستی'' کا اسکرپٹ اور گیت لکھے بلکہ ان کی محنت اور ذہانت کی وجہ سے مذکورہ فلم کی ڈائریکشن بھی انھی مل گئی ''دل کی بستی'' کے فلم ساز ایس۔ایم یوسف تھے جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے تھے ۔ ''دل کی بستی'' کی کہانی بڑی جاندار تھی۔ اس میں واحد قریشی کا لکھا ہوا ایک گیت بھی ان دنوں بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:

دل کی بستی عجیب بستی ہے

روز بستی ہے روز اجڑتی ہے

یہ فلم بھی عوام اور خواص میں بھی بڑی پسند کی گئی تھی۔ اس فلم کے بعد بمبئی کے نامور فلم ساز ایس۔ایم یوسف نے واحد قریشی کو اپنی پروڈکشن میں باقاعدہ شامل کرلیا تھا۔ انھیں ایک محنتی اور اچھے ہدایت کار قلم کار کی ضرورت تھی۔ اور پھر واحد بخش کو ڈائریکشن کا بھی کافی تجربہ ہوگیا تھا۔ ایس ایم یوسف کا اس زمانے میں بڑا طوطی بولتا تھا۔

مسلم سوشل فلمیں بنانے میں بھی بمبئی میں ان کا بڑا نام تھا اس دوران ایس ایم یوسف کی بنائی گئی مشہور فلموں گرہستی، گماشتہ، دیور، مہندی، آئینہ، دربان اور نیک پروین میں کہانیوں کے ساتھ ساتھ مکالمے اور گیت بھی واحد قریشی کی ذہنی کاوشوں کا نتیجہ تھے۔ فلم ''نیک پروین'' میں ان کی لکھی ہوئی ایک حمد کو بڑی شہرت ملی تھی وہ حمد اس دور کی گلوکارہ حمیدہ بانو اور کورس کی لڑکیوں نے گائی تھی۔ اس کی موسیقی فیروز نظامی کی تھی :

تیری ذات پاک ہے اے خدا

تیری شان جل جلالہ

نہیں تجھ سا کوئی بھی دوسرا

تیری شان جل جلالہ

یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ سارے برصغیر میں اس کو شہرت ملی اور شاعر واحد قریشی کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ پھر اس کو ہزاروں لوگوں نے ترنم دینی محافل میں پڑھا۔ فلم ساز ایس۔ایم یوسف کی مسلم سوشل فلم ''گرہستی'' نے بھی بے مثال کامیابی حاصل کی تھی جس میں واحد قریشی کے مکالمے اور گیت تھے ایک گیت ان دنوں بڑا مقبول ہوا تھا:

واہ ری دنیا واہ رے زمانے

اپنے ہوگئے ہیں بے گانے

اس گیت کی موسیقی غلام محمد نے دی تھی اور اسے گلوکارہ شمشاد بیگم نے گایا تھا۔ اسی دور میں بمبئی میں حبیب ولی محمد نے اپنا میوزک البم لانچ کیا تھا جس میں حبیب ولی محمد نے واحد قریشی کا گیت بھی شامل کیا تھا۔ راتیں تھیں چاندنی جوبن پہ تھی بہار۔ پھر جب حبیب ولی محمد پاکستان آئے تو اس گیت کی شہرت انھیں موسیقار سہیل رعنا کے قریب لے آئی۔ سہیل رعنا ان دنوں فلم ساز و ہدایت کار اقبال شہزاد کی فلم ''بازی'' کی موسیقی دے رہے تھے۔

فلم ''بازی'' میں حبیب ولی محمد کی آواز میں واحد قریشی کے شہرہ آفاق گیت کو بھی شامل کیا گیا جو فلم میں اداکار نیلم پر عکس بند کیا گیا تھا۔ فلم ساز ایس ایم یوسف ہندوستان کی تقسیم کے بعد مسلمان فنکاروں کے ساتھ عدم تعاون کی فضا سے گھبرا کر پاکستان آگئے تھے۔ یوسف صاحب نے واحد قریشی کو بھی پاکستان چلنے کی دعوت دی مگر وہ بمبئی کی محبت میں اس وقت ایسا نہ کرسکے تھے مگر جب انھوں نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو انھوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اور وہ بھی پاکستان آگئے اور پھر اپنے دیرینہ محسن ایس۔ایم یوسف کی پروڈکشن سے وابستہ ہوگئے تھے۔

اس دوران ایس۔ایم یوسف کے بیٹے اقبال یوسف بھی اپنے والد کا بازو بن گئے تھے اور انھوں نے اپنے والد کا کافی کام سنبھالا ہوا تھا بعد میں اقبال یوسف بھی ایک کامیاب ہدایت کار کے روپ میں پاکستان انڈسٹری میں اپنا جداگانہ مقام بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ فلم ساز و ہدایت کار ایس۔ایم یوسف نے اس دوران سہیلی، اولاد، پاک دامن اور عید مبارک جیسی سپرہٹ فلمیں بنائی تھیں۔

واحد قریشی کی ایس ایم یوسف کے ساتھ 25 سال کی رفاقت تھی۔ جب وہ پاکستان آئے تھے تو یوسف صاحب نے بڑی خوشی کے ساتھ واحد قریشی کو اپنے ادارے کی بہت سی ذمے داریاں سونپ دی تھیں ان کے ادارے میں مصنف حسرت لکھنوی بھی تھے پھر انھوں نے اپنی ایک فلم ''ہونہار'' لکھنے کے لیے واحد قریشی کو دی ۔ اس فلم کی کہانی، مکالمے واحد قریشی ہی نے لکھے تھے۔

فلم ''ہونہار'' خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی تھی پھر واحد قریشی کو بمبئی کی یادیں ستانے لگی تھیں وہ یوسف صاحب سے اکثر کہا کرتے تھے مجھے بمبئی واپس جانا ہے مگر ایس ایم یوسف ہر بار ان کو سمجھا بجھا کر پاکستان میں رکنے پر مجبور کردیا کرتے تھے۔ اسی دوران واحد قریشی شدید بیمار ہوگئے وہ بمبئی جانے کے لیے بالکل تیار ہوگئے تھے مگر قدرت کو یہ منظور نہیں تھا۔ پاکستان کی مٹی کی محبت ان کی روح میں سرائیت کرچکی تھی۔ ان کی بیماری ہی ان کے آڑے آگئی اور ایک دن دل کا شدید دورہ پڑا پھر وہ جانبر نہ ہوسکے تھے اور کراچی ہی میں انتقال کرگئے تھے انھوں نے فلمی دنیا میں گراں قدر کام کیا تھا۔

بے شمار فلموں کی کہانیاں اور گیت لکھے تھے، جب کہ ان کا ایک ہی گیت، دیگر بہت سے گیت نگاروں کے گیتوں پر بھاری تھا۔ راتیں تھیں چاندنی جوبن پہ تھی بہار۔ جسے ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں ہزاروں آوازوں نے اپنایا اور اس گیت کے ذریعے شہرت کی بلندی تک پہنچے۔ اللہ واحد قریشی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں