یہ تو وہی جگہ ہے…
آئی ایم ایف کیا کہتا ہے، وہ یہی کہتا ہے کہ اپنی آمدنی اور اخراجات میں توازن لائو اور اس کے لیے نسخہ بتاتا ہے۔
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے۔ میاں صاحب گئے، مشرف آئے زرمبادلہ کے ذخائر خالی ۔ ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے، مشرف گئے تو زرداری آئے، خزانہ پھر خالی، ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے، زرداری گئے میاں صاحب آئے اور آج جب میاں صاحب گئے اور عمران خان آئے تو وہ بھی آئی ایم ایف کے پاس !کیا کرتے اگر نہیں جاتے؟ اب لوگ سادہ ہیں، اس میں آئی ایم ایف کا توکوئی قصور نہیں۔
آئی ایم ایف ایک اعتبار سے دنیا کا سینٹرل بینک ہے۔ جن کو ادائیگیوں میں دشواری ہوتی ہے وہ ان کے پاس جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کیا کہتا ہے، وہ یہی کہتا ہے کہ اپنی آمدنی اور اخراجات میں توازن لائو اور اس کے لیے نسخہ بتاتا ہے۔ اس میں روپے کی قدرگرانا بھی ہوتا ہے، اخراجات کم اورآمدنی بڑھانا بھی۔اس نسخے کے کچھ مفروضات یا یوں کہیے سائیڈ افیکٹس بھی ہوتے ہیں یعنی افراط زر۔ افراط زر یہ نہیں کہ چیزیں مہنگی ہورہی ہوتی ہیں دراصل جس ذریعے سے آپ چیزیں خرید رہے ہوتے ہیں، اس کی قدرگرجاتی ہے اور بے چارا بے قدر روپیہ بازار میں اپنی نیلامی دیکھ رہا ہوتا ہے۔
وہ رسوائی جو ہماری اشرافیہ اور ان کے مفادات نے اس کو دی ہوتی ہے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ بناتی ہوئی پالیسیوں کے تناظر میں۔ اور ہم اس سے چھٹکارا حاصل ہی نہیں کرسکتے ۔ جب پاکستان بنا تھا تو ڈالر ڈیڑھ روپے کے قریب تھا اور آج ڈیڑھ سو تک پہنچ رہا ہے،کوئی بری بات نہیں ۔ ہاں مگر جو اس کے مضر اثرات ہیں یعنی افراط زر وہ غریبوں کو بھگتنے ہوں گے۔ آپ کو کیا نان دس روپے سے پندرہ روپے کا ہوجائے مگر جس کی جیب میں ہی دس روپے ہوں اس کو اپنے نان کا چوتھا حصہ قربان کرنا پڑجائے گا۔
دوسرا زاویہ یہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں دنیا کی تقریبا تمام ابھرتی منڈیاںemerging market میں جس میں ہم بھی آتے ہیں، ادائیگیوں کے مسائل میں گھری ہوئی ہیں ۔ ہندوستان کے روپے کی قدر بھی گررہی ہے ۔ انڈونیشیا، ترکی، ارجنٹائن اور برازیل اور ایسے اور بھی ملک ہیں جیسا کہ وینز ویلا جہاں افراط زرکی ایسی حالت سے خانہ جنگی چھڑجاتی ہے۔ یہی حالات ہوتے ہیں جب جرمنی میں ہٹلر جیسے لوگ جنم لیتے ہیں۔
بنیادی طور پر بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ جب میاں صاحب تھے تو چالیس ڈالرکے ارد گرد فی بیرل تیل کی قیمت تھی اورآج اسی ڈالر ہے ۔آئندہ مہینوں میں شاید سو ڈالر ہونے کا امکان ہے۔ ہمارا فیول بل لگ بھگ گیارہ ارب ڈالر تھا اور اس طرح یہ بیس سے پچیس فیصد مزید بڑھ جائے گا اور بڑھا بھی ہے۔ جب زرداری گئے تھے اس وقت ہمارے بیرونی قرضے پچاس ارب ڈالرکے قریب تھے اور آج یہ سو ارب ڈالر ہیں ۔ ان قرضوں کے اندر جو پہلے بڑی مدت کے لیے تھے وہ کم ہوگئے اب جو چھوٹی مدت کے لیے ہیں وہ اور بڑھ گئے۔ اس سے ڈالرکی مد میں جو قرضوں کی اقساط کی ادائیگیاں ہیں وہ بھی بڑھ گئیں۔
ہمارے ڈارصاحب نے جو انٹرنیشنل بانڈ مارکیٹ میں بانڈ کے ذریعے ڈالر اٹھائے تھے ان کی سود کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ ہمارے قرضوں کی اقساط کی ادائیگیاں میاں صاحب کی مہربانیوں سے دگنی ہو چکی ہے ۔ہم نے چین سے سی پیک کے حوالے سے جو قرضے لیے اس کے علاوہ ہم نے چین کے بینکوں سے چھوٹی مد ت والے ڈالر میں قرضے لیے ان کی ادائیگیاں بھی اور 2020ء کے بعد چین کو سی پیک کے حوالے سے جو قرضے ہیں وہ بھی پانچ ارب ڈالر ہر سال مزید ادا کرنے ہوں گے۔ چینی قرضوں کا امریکی بھونپو بھی بج رہا ہے۔
تیسرا اہم فیکٹر یہ ہے کہ امریکا کی معیشت کی شرح نمو بہت تیز ہے جس کی وجہ سے امریکا کے سینٹرل بینک نے انٹرسٹ ریٹ بڑھا دیا ہے۔ جس کا مطلب بہت سارا ڈالر واپس امریکا کی بینکوں میں دنیا سے جا رہا ہے کیونکہ وہاں profit مارجن زیادہ ہے اور اب پاکستان کے حالات یہ ہیں کہ وہ بانڈ مارکیٹ سے ڈالر نہیں اٹھاسکتا کیونکہ انٹرسٹ کی شرح بہت زیادہ ہوگی ۔ ہم سعودی عرب گئے اور ان سے ناتجربہ کاری اور احمقانہ انداز میں سات آٹھ ارب ڈالر مانگ لیے، وہ بھلا ہمیں کیوں دیں گے؟
یہ کافی نہیں کہ وہ پیٹرول ہمیں deferred payment میں دے دیں۔ہمیں چین سے بھی پیسے نہیں ملے اور بلآخر ہم آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہوگئے یا شاید ہم نے جانے میں دیرکردی ۔ مارکیٹ میں یہ خبر صحیح طریقے سے نہیں پہنچی اور اسٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی ۔کچھ اسی طرح ایک کساد بازاری recession آئی ہوئی ہے اور اس سال ہماری شرح نمو اگر تین فیصد تک ٹھہر جائے تو غنیمت جانیں۔
چوتھا فیکٹر ڈالرکی کساد بازاری میں کرپشن ہے۔ ہمارے شرفا، افسر شاہی، اپنی کمیشن کے پیسے یا تو رئیل اسٹیٹ میں لگاتے ہیں یا ڈالرخریدتے ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو ڈالر باہر لے جاتے ہیں۔ یعنی کرپشن کا پیسہ رپیوں میں ملتا ہے اور وہ کرپشن کا پیسہ ڈالر میں تبدیل ہوتا ہے اور وہ ڈالر جو ہم ایکسپورٹ کے ذریعے یا قرضوں کی صورت میں باہر سے لیتے ہیں۔
اب ہر طرف سب ڈالرکے خریدار ہیں۔اس کوکہتے ہیں dollarization of economy ۔ لوگ جو پہلے بھی چھوٹا موٹا کام روپیوں میں کرتے تھے اب وہ ڈالر میں کیا کریں گے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے، ہمارا یہی سلسلہ ہے ۔ پہلے پاک امریکا کی دوستی پر قرضے اور امداد ملتی تھی ۔ ان کی شرائط پھر بھی آسان تھیں لیکن پھر آئی ایم ایف کا وجود میں آنا اور اس کی شرائط جس میں ہم اب تک جکڑے ہوئے ہیں ۔ پاکستان میں جو حکمران بنے وہ امریکا کے آشیر باد سے بنے۔
اب دنیا میں چین دوسری بڑی سپر پاور بن کر ابھر رہا ہے۔ یہ ہماری خوش نصیبی بھی ہے مگر لگتا ایسے ہے کہ شاید وہ بھی ہمیں صحیح طریقے سے استعمال نہ کرسکے اوریہ خدشہ ہے کہ کہیں پاک چین دوستی بھی وہی انداز نہ اپنائے جو پاک امریکا دوستی نے اپنایا۔ بہر حال پاک چین دوستی پر آسیب کا سایہ نہیں پڑنا چاہیے۔
ہماری اشرافیہ ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ جہاں اقتدار وہاں اشرافیہ۔کل یہ میاں صاحب کے ساتھ تھے اور آج یہ عمران خان کے ساتھ۔ اس اشرافیہ کے ذاتی مفادات ہیں جو ملکی مفادات کے ٹکرائو میں ہیں۔ ملک سے پیسہ لوٹو اور باہر اثاثے بنائو۔ اس سے کم نقصان دہ ملک کے لیے شاید وہ ہوگا جو یہاں سے پیسہ لوٹے اور یہیں اثاثے بنائے کیونکہ کہیں نہ کہیں یہ اثاثہ جات ملک کی معشیت میں استعمال میں ہوتے ہونگے۔ان میں بھی دو category ہوتی ہیں ایک وہ جو پیسوں کو real estate میں لگائے اور ایک وہ جوصنعت وکاروبار میں لگائے۔
پاکستان کی دوسری بڑی ٹریجڈی progressive taxes میں ناہمواری ہے۔ تمام اندرونی قرضوں کی ادائیگی indirect taxes کی آمدنی سے ہوتی ہے اور یہ ٹیکسز پاکستان کے غریب بھرتے ہیں۔آپ ٹیکس بڑھاتے ہیں، مہنگائی بڑھتی ہے جس کا بوجھ براہ راست غریب عوام پر پڑتا ہے ان کی آمدنی کم اور اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان دنیا کے ممالک میں کم ٹیکس بھرنے والا ملک ہے۔ بائیس کروڑ عوام کا یہ ملک صرف پچیس ارب ڈالرکی ایکسپورٹ کرتا ہے اور اس میں بھی value add کا حصہ کم ہے، ہم نے اپنے لوگوں میں سرمایہ کاری نہ کی۔ انھیں ہنر مند نہیں بنایا، بہترین بنیادی سہولتیں جیسے صحت، صاف پینے کا پانی، تعلیم وغیرہ فراہم نہیں کیں اس ملک کو سستا انصاف نہیں دیا اور جب اس معیشت کا نظام اسی طرح چلنا ہے تو پھر راہ فرارکے لیے یہاں کے شرفاء جواقتدار پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اپنے مفادات کی خاطر بیانیے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں اور پھر یہ بگڑا ہوا بیانیہ اس معیشت کے نظام کے ساتھ مل کر بیروزگاری، بھوک و افلاس پیدا کرتا ہے اور یوں ملک میں خانہ جنگی کے لیے راہیں کھلتی ہیں۔