اُستاد کا مقام
نیب سمیت پورے معاشرے، حکومت اور اپوزیشن اور انصاف سے متعلق اداروں کو بے حد سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
نیب کی کارکردگی کے بارے میں دونوں طرح کی رائے ملتی ہے۔ زیادہ تر لوگ اسے ایک اچھا اور لازمی محکمہ سمجھتے ہیں جب کہ کچھ لوگوں کے خیال میں اس کا طریقہ کار متنازعہ اور ناقص ہے اور حکومتیں اسے انصاف کے بجائے سیاسی انتقام کے ایک آلے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
اتفاق سے ان دونوں باتوں میں جزوی صداقت موجود ہے۔ سو یہاں بھی وہی مسئلہ آڑے آتا ہے کہ جس جھوٹ میں سچ یا سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ ہو اس پر تبصرہ بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر اپنے آپ کو ایک پہلے گروپ میں پاتا ہوں جس کے نزدیک نیب کے مثبت پہلو اس کے منفی پہلوئوں سے زیادہ ہیں۔ لیکن گزشتہ دنوں کے اخبارات اور میڈیا میں سرگودھا اور پنجاب یونیورسٹیوں کے لائق تعظیم وائس چانسلر صاحبان اور رجسٹرار کے عہدوں پر کام کرنے والے معزز اساتذہ کو جس طرح ہتھکڑیاں ڈال کر اس مقدس پیشے اور عزت دار لوگوں کو رسوا کیا گیا ہے اس نے ہر اہل دل کو لرزا کے رکھ دیا ہے۔
اس سے قطع نظر کہ ان میں سے بیشتر احباب کے ساتھ میرا ذاتی تعارف نہیں ہے اور میں اس پوزیشن میں بھی نہیں ہوں کہ ان سے دوران ملازمت کوئی دانستہ یا نادانستہ غلطی ہوئی ہے یا نہیں۔ میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا علم کے یہ سرچشمے نیب کے قانون کی نظر میں ڈاکوئوں، قاتلوں، فراڈیوں اور ملکی دولت کو بے دردی سے لوٹنے والوں سے بھی گئے گزرے ہیں کہ ان لوگوں کو ہتھکڑیاں لگانا تو کیا باقاعدہ پروٹوکول میں لایا لے جایا جاتا ہے اور فزکس کے عظیم استاد اسکالر اور کئی اہم کتابوں کے مصنف ڈاکٹر مجاہد کامران اور عربی زبان کے ماہر استاد اور بے مثل ماہر تعلیم ڈاکٹر اکرم چوہدری کے ہاتھوں میں سربازار ہتھکڑیاں ڈال دی جاتی ہیں جن کی وائس چانسلری کے دوران دونوں یونیورسٹیاں مسلسل فروغ پذیر رہیں بلکہ ڈاکٹر اکرم چوہدری نے تو سرگودھا کالج کو جس طرح سے ایک کامیاب، مقبول، علم دوست اور مستقبل گیر ادارے کی شکل دی وہ اپنی جگہ پر کسی کارنامے سے کم نہیں جب کہ برادرم ڈاکٹر مجاہد کامران نے تقریباً نو برس پنجاب یونیورسٹی جیسی تاریخی، عظیم اور مشکل درسگاہ کو حاکمان پنجاب کی مسلسل دخل اندازی کے باوجود جس طرح سے چلایا اور اس کے تعلیمی معیار کو بلند اور اساتذہ کے وقار کو بحال کیا وہ بھی کوئی معمولی بات نہیں۔
یہ خبر سنتے ہی میں نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ آرٹ اینڈ ڈیزائن کے پروفیسر اور برادر عزیز ڈاکٹر احمد بلال کو فون کیا کہ ان کا تعلق یونیورسٹی کی کسی انتظامی کمیٹی سے بھی ہے اور اس معاملے کی تفصیل اور اور تصدیق چاہی مگر وہ تو خود ایک سکتے کے سے عالم میں تھے کہ یہ خبر اور منظر واقعی انتہائی ناقابل یقین اور غیر متوقع تھے۔ اس نوع کے الزامات پر ایسے قابل عزت لوگوں کو اس طرح سے گرفتار کرنا اور پھر عدالت کا ان کا دس روز کا جسمانی ریمانڈ بھی منظور کرنا ایسی باتیں ہیں جو کسی مہذب تو کیا نیم مہذب معاشرے کو بھی زیب نہیں دیتیں۔
میں نے NAB کے کچھ افسران سے اس معاملے کی تفصیل پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس ایف آئی نے تیار کر کے ان کے پاس بھیجے ہیں۔ چنانچہ ان کے لیے ان پر کارروائی کرنا ایک قانونی ذمے داری تھی لیکن جہاں تک ہتھکڑیاں ڈالنے کا تعلق ہے یہ کام جوڈیشل پولیس کا ہے جو ہماری واضح ہدایات کے باوجود کہ اس نوع کے ملزمان کو ہتھکڑیاں نہ لگائی جائیں باز نہیں آتے اور گرفتاریوں سے متعلق اپنے مخصوص قوانین اور طریقہ کار کی آڑ لیتے ہیں کہ ایسا کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس پولیس اور اس کے نام نہاد متعلقہ قوانین کی موجودگی میں رائو انوار اور بے حد سنگین الزامات میں گرفتار ''معززین'' کو باقاعدہ پروٹوکول کے ساتھ لایا لے جایا جا سکتا ہے تو ان ماہرین تعلیم، ریٹائرڈ بزرگ اور سچ مچ کے قابل احترام لوگوں سے کس بات کا خدشہ تھا کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔ رائو انوار سے یاد آیا کہ اسی معاملے کے حوالے سے فیس بک پر کسی نے ایک ایسی عمدہ فکر انگیز اور تکلیف دہ پوسٹ کی ہے کہ جس کو پڑھ کر آنکھوں میں آنے والے آنسو اس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ان کا تعلق ہنسی سے ہے یا ماتم سے۔ آپ ہی اس کا فیصلہ کیجیے۔
''سوال: رائو انوار صاحب تشریف لے آئے ہیں؟
جواب: جی نہیں۔
سوال: 35 ارب کی منی لانڈرنگ والے شرفاء آگئے ہیں؟
جواب: جی نہیں۔
سوال: چلو پھر ان پروفیسروں ڈاکٹر مجاہد کامران، چوہدری اکرم اور ان کے ساتھیوں کو ہی گھسیٹ کر لے آئو کچھ کام تو کریں۔''
ان تمام معززین کو جن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے ان کی نوعیت جو بھی ہو، میں اپنے زندگی بھر کے تجربے اور ہمارے جیسے معاشروں کے اداروں کی صورتحال کو قریب سے دیکھنے کے بعد یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنے بھی غلط کاموں کو ان سے منسوب کیا جا رہا ہے ان میں سے 95% ایسے ہوں گے جن کے اصل مجرم کوئی اور ہیں یا وہ سسٹم ہے جس کے تحت انھیں نوکریاں کرنا پڑتی ہیں۔ 5% فیصلوں میں ذاتی پسند ناپسند یا معاملے کی صحیح تفہیم نہ ہونے کا عمل دخل ہو سکتا ہے مگر یہ مارجن کہاں نہیں ہے اور معاشرے اور سرکار کا کون سا شعبہ ہے جہاں اس سے کہیں زیادہ گزر بسر نہیں ہو رہی۔
قانونی تقاضے ضرور پورے کیجیے۔ اصولوں اور ضابطوں کی حفاظت اور پاسداری بھی بجا لیکن محترم استادوں کو اس طرح سے ہتھکڑیاں لگانا ایک ایسا ناپسندیدہ اور افسوسناک فعل ہے جس پر NAB سمیت پورے معاشرے، حکومت اور اپوزیشن اور انصاف سے متعلق اداروں کو بے حد سنجیدگی سے سوچنا چاہیے تا کہ آئندہ کبھی اس کا اعادہ نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ باپ کے بعد استاد (روحانی باپ) کا مقام ہوتا ہے اور جو معاشرہ اپنے اساتذہ کی تعظیم اور حفاظت نہیں کرسکتا وہ جنگل کے معاشرے سے بھی بدتر ہے کہ بزرگوں سے ایسا سلوک تو جانور بھی نہیں کرتے۔