بندر قوم اور اساتذہ
ایک استاد کا کردار بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ انسان کو اچھے برے کی تمیز بتاتا ہے، نصیحت کرتا ہے۔
یہ کافی پرانی بات ہے کہ جب میرے محلے کا ایک لڑکا کسی الزام میں جیل چلا گیا، میری اس سے اچھی سلام دعا تھی، وہ لڑکا بھی بہت اچھا اور ہر ایک کے کام آنے والا تھا، چنانچہ میں ملاقات کے لیے جیل پہنچ گیا، وہاں پہنچ کر میں ملاقات کے لیے انتظار کررہا تھا، اور بھی لوگوں کا ہجوم تھا جو اپنے اپنے قیدیوں سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اسی اثناء میں پولیس کی ایک موبائل آئی۔
اس موبائل میں پولیس والے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، یہ سپاہی موبائل سے نیچے اترے، ان میںسے ایک نے موبائل کا اگلا گیٹ کھولا جہاں سے سفید کاٹن کے کلف لگے کپڑے پہنے ہوئے ایک شخص باہر نکلا، سپاہی اس کے آگے پیچھے اس طرح تھے کہ جیسے کسی وی آئی پی مہمان کو پروٹوکول دیا جا رہا ہو۔ پھر وہ شخص ٹہلتا ہوا جیل کے بڑے سے گیٹ کے چھوٹے سے دروازے سے جھک کر اندر گیا اور کچھ دیر بعد واپس آکر ایک پولیس آفیسر کے کمرے میں جا بیٹھا۔ اس شخص کا بڑا شاہانہ انداز تھا۔ مجھے تجسس ہوا کہ یہ کون شخص ہے۔ میں نے اپنے اردگرد لوگوں سے پوچھا جو کہ خود بڑی حسرت سے اس کو دیکھ رہے تھے، ایک نے جواب دیا ''ارے تم اسے نہیں جانتے، یہ فلاں کا شوہر فلاں ہے''۔
وقت گزرتا گیا، پھر میں نے میڈیا پر دیکھا کہ یہ 'فلاں' شخص ایک دن اس ملک کا صدر بنا، جب کہ وہ ایک خاتون وزیراعظم کے شوہر ہونے کا اعزاز پہلے ہی حاصل کرچکا تھا۔
پھر آج سوشل میڈیا پر میں نے ایک صاحب کی یہ پوسٹ بھی دیکھی کہ جس میں تین تصاویر پیش کی گئی تھیں۔ ایک تصویر میں پولیس افسر اور دوسری میں ایک ماڈل گرل عدالت میں پیشی کے لیے آرہے ہیں، تصویر سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ماڈل جس طرح عدالت آرہی ہے شاید کوئی شوٹنگ کرنی ہے، جب کہ پولیس افسر کا انداز ایسا ہے جیسے کسی انڈین فلم کا ہیرو بڑا کارنامہ انجام دے کر آرہا ہو اور سب سپاہی اس کا استقبال کر رہے ہوں، حالانکہ اس افسر پر بے شمار لوگوں کے قتل کا الزام ہے، جب کہ خاتون ماڈل پر ناجائز دولت بیرون ملک منتقل کرنے کا الزام ہے اور ان دونوں ملزموں پر بڑے مضبوط مقدمات دائر ہیں۔
لیکن اس پوسٹ میں تیسری تصویر بڑی دل دہلادینے والی ہے، جس میں ایک بزرگ کو جس کے بال سفید ہیں اور دیکھنے میں یہ 70، 80 سال کے بزرگ لگتے ہیں، یہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، انھیں بھی پیشی کے لیے عدالت لے جایا جارہا ہے۔ یہ بزرگ شہری محض اس ملک کا ایک عام شہری نہیں بلکہ اپنی پوری زندگی اس ملک کو سنوارنے اور مضبوط بنانے کے لیے درس و تدریس کے مقدس پیشے سے منسلک رہا ہے اور ایک جامعہ کا شیخ بھی رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے اور لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں، تاہم میرے ذہن میں صرف دو سوالات ہلچل مچا رہے ہیں۔
1۔ ملزموں کو ہتھکڑی کیوں لگائی جاتی ہے؟ کیا اس لیے کہ وہ پولیس کے گھیرے سے کسی وقت بھاگ نہ جائیں؟ یا ان کو اس قدر بے عزت کرنا ہوتا ہے کہ معاشرہ ان سے سبق سیکھے کہ دیکھو، یہ وہ لوگ ہیں کہ جن پر ابھی 'صرف الزام' لگا ہے، ثابت نہیں ہوا اورسزا بھی نہیں ہوئی، لہٰذا عوام بھی اپنے اوپر الزامات عائد ہونے کے وقت سے ڈریں۔
2۔ قانون کیا کہتا ہے؟ کیا تمام ملزموں کو عدالت میں پیشی کے وقت ہتھکڑی لگانا لازمی ہوتا ہے یا زردار، زرداریاں اور پولیس افسران وغیرہ اس سے استثنیٰ ہے اور اساتذہ اور 70، 80 سال کے بزرگوں کے لیے ہتھکڑیاں لگانا اس قدر ہی لازمی ہے جیسے انسان کا سانس لینا؟
راقم کے ان دو سوالوں کا جواب ہے کسی کے پاس؟ ملزم خواہ کوئی بھی ہو، ان کے خلاف بلاامتیاز چھان بین ہونی چاہیے، جرم ثابت ہونے پر کڑی سزا ہونی چاہیے، خواہ وہ استاد ہی کیوں نہ ہو، بلکہ استاد کو تو کوئی چھوٹ نہ دیں، مگر بات صرف یہ ہے کہ ایک استاد کی بے عزتی نہ کریں، اس کی عزت کو یوں ٹھکانے نہ لگائیں، استاد کے پاس ایک عزت کے سوا ہوتا ہی کیا ہے؟ آج جس بزرگ استاد کو اس طرح سے بے عزت کرکے، ہتھکڑیاں لگا کر جس طرح اس کی عزت کا جنازہ نکالا گیا ہے، فرض کریں کل اگر جرم ثابت نہ ہوا اور یہ استاد باعزت بری بھی کردیا گیا تو کیا وہ عزت واپس آسکے گی، جس کا پہلے ہی مرحلے میں جنازہ نکال کر زمین میں دفنا دیا گیا؟ ایک استاد حساس دل رکھتا ہے، ایک انسان کی عزت کو سمجھتا ہے، اس کے نزدیک عزت ہی سب سے بڑی متاع ہوتی ہے، وہ کوئی چور، اچکا، طوائف، قاتل یا سنگ دل کاؤنٹر کلر نہیں ہوتا، نہ ہی اربوں روپیہ کمانے والا کوئی سیاستدان ہوتا ہے کہ دس الزامات لگیں یا دس مرتبہ جیل جائے اور پھر فخر سے کھڑا ہوکر دانت نکال کر عوام کے سامنے بھی آجائے، اس کی آدھی موت تو اس وقت ہی ہوجاتی ہے جب اس کے نام پر کوئی حرف آجائے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے جو ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ یہ بات وہی سمجھ سکتے ہیں جو ایک استاد کے مقام کو سمجھتے ہوں۔
کہتے ہیں کہ تاریخ کا ایک مشہور حاکم وقت ایک مرتبہ اپنے بیٹے کو تعلیم دینے والے استاد (عالم) کے پاس گیا، کیا دیکھتا ہے کہ ان کا بیٹا اپنے استاد کے پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے اور استاد اپنے پاؤں دھو رہے ہیں، غصے میں اس حاکم نے اپنے بیٹے کو ڈانٹا، استاد کے پوچھنے پر اس حاکم نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کو اس لیے نہیں ڈانٹ رہا کہ وہ آپ کے پاؤں پر پانی کیوں ڈال رہا ہے بلکہ اس لیے سرزنش کر رہا ہوں کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے آپ کے پاؤں کیوں نہیں دھو رہا ہے۔
کالم کے اختتام پر ایک چھوٹی سی مگر اہم بات، جمعہ کا بیان ایک امام صاحب پیش کر رہے تھے، کہہ رہے تھے کہ بنی اسرائیل پر اﷲ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن مچھلی کے شکار پر پابندی لگائی۔ یہ اس قوم کا امتحان تھا کہ مچھلیاں صرف ہفتہ کے دن ہی پانی کی سطح پر بہت بڑی مقدار میں آتی تھیں اور باقی دنوں غائب ہی رہتی تھیں، چنانچہ اس قوم نے حل یہ نکالا کہ ایک بڑا گڑھا بنایا اور اس کی نالی دریا سے ملادی، چنانچہ ہفتے والے دن جب مچھلیاں آتیں تو وہ اس گڑھے میں چلی جاتیں اور اتوار کے دن وہ یہ مچھلیاں پکڑ لیتے۔ لہٰذا کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی کھلی نافرمانی ہے، کچھ اس پر خاموش تماشائی بنے رہے، پھر جب اﷲ تعالیٰ کا عذاب آیا تو دو قسم کے لوگوں پر آیا، یعنی اﷲ کے حکم کی نافرمانی کرنے والے اور وہ لوگ جو خاموش تماشائی بنے تھے اور سمجھاتے نہ تھے وہ سب بندر بنادیے گئے، جب کہ نصیحت کرنے والے اﷲ کے عذاب سے محفوظ رہے۔
ایک استاد کا کردار بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ انسان کو اچھے برے کی تمیز بتاتا ہے، نصیحت کرتا ہے، وہ تعلیم اور تربیت دونوں کرتا ہے۔ آیئے ذرا سوچیں جو معاشرے ایسے طبقے کی بے عزتی کریں اور چور ڈاکوؤں کو عزت دیں، اس کے لیے اﷲ تعالیٰ کا کیا حکم ہوسکتا ہے؟ یہی تو وہ طبقہ ہے جو انسان کو انسان بنا رہا ہے اور بندر بننے سے بچا رہا ہے۔