کپتان کی حکومت اور سعودی عرب کا دستِ تعاون
پاکستان کے کئی اسٹرٹیجک پروگراموں میں بھی سعودی عرب کی امداد شامل رہی ہے۔
لاریب سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ہمیشہ شاندار اور قابلِ تحسین تعلقات رہے ہیں۔ ہر آزمائش کے موقع پر فرمانروایانِ مملکتِ سعودیہ نے پاکستان، پاکستانی عوام اور پاکستانی حکمرانوں کی اعانت و دستگیری فرمائی ہے۔ پاکستان کے کئی اسٹرٹیجک پروگراموں میں بھی سعودی عرب کی امداد شامل رہی ہے۔سعودی عرب میں19لاکھ پاکستانی محنت مزدوری کررہے ہیں جو پاکستان کو سالانہ ساڑھے چار ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں۔
یہ رقم پاکستانی معیشت کا بڑا سہارا ہے۔پاکستان کے 1300فوجی جوان اور افسر عسکری تربیت دینے کے لیے سعودیہ میں بروئے کار ہیں۔رواں برس ہی پاکستان نے سعودی عرب کو مزید ایک ہزار فوجی بھیجنے کا عندیہ دیا تھا۔ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کے سابق آرمی چیف ( جنرل راحیل شریف)کو متحدہ اسلامی فوج کا سربراہ بنانا ایک غیر معمولی اقدام تھا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاک، سعودیہ تعلقات کی گہرائیوں سے ساری دُنیا آشنا اور آگاہ ہے۔جنابِ عمران خان مطلعِ حکمرانی پر طلوع ہو ئے ہیں تو بھی سعودی عرب کی طرف سے برادرانہ جذبات سے مملو دستِ تعاون آگے بڑھا ہے۔ خادم الحرمین الشریفین جناب شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور اُن کے بلند اقبال صاحبزادے، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، کی طرف سے فوری طور پرعمران خان کو تہنیتی پیغامات دیے گئے۔
25جولائی کے عام انتخابات سے پانچ ہفتے قبل کپتان صاحب اپنی اہلیہ محترمہ کے ہمراہ عمرہ ادا کرنے مکہ معظمہ حاضر ہُوئے تو بھی سعودیہ کی طرف سے انھیں شاندار پروٹوکول دیا گیا تھا۔ سعودیوں نے اِس موقع پر خان صاحب سے جو سلوک کیا، قابلِ قدر تھا۔ اِس سعودی روئیے پر کپتان کو چاہنے والے کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں سعودی عرب کے لیے تکریم میں مزیداضافہ ہُوا۔25جولائی کے عام انتخابات میں برتری حاصل کرتے ہی( 26جولائی کی شام) خان صاحب نے اپنی مشہور مگر مختصر پریس بریفنگ میں جن بیرونی ممالک سے مزید اچھے تعلقات اُستوار کرنے کا واضح عندیہ دیا تھا، سعودی عرب کا نام اُن میں سرِ فہرست تھا۔
سعودی عرب کو پاکستان کے دوست اور بہی خواہ ممالک میں بلند ترین مقام حاصل ہے۔ سعودی حکام کو بھی اِس امر کا خوب احساس ہے کہ پاکستانی عوام اُن سے محبت بھی کرتے ہیں اور اُن کا اکرام بھی۔یہ اِسی احساس کا اہتمامی اظہار تھا کہ جونہی عمران خان نے انتخابات میں برتری حاصل کی، اسلام آباد میں متعین سعودی سفیر مبارکباد دینے بنی گالہ تشریف لے گئے۔ سعودی سفیر،نواف سعید المالکی صاحب، کی اوّلین ملاقات غیر معمولی تھی۔انھوں نے کپتان کو جناب شاہ سلمان کا مبارکبادی پیغام بھی پہنچایا تھا ۔ محترم نواف المالکی اور عمران خان کی اِس تہنیتی ملاقات کی تصویر پاکستان بھر کے سوشل میڈیا میں ٹاپ ٹرینڈ بن گئی تھی۔
مطلب یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو عزت مآب سعودی سفیرکی یہ ادا بہت پسند آئی کہ انھوں نے پہل کرتے ہُوئے فاتح عمران خان سے ملاقات فرمائی۔ابھی اِس ملاقات اور تصویر کی بازگشت مدہم بھی نہ پڑی تھی کہ خود خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزکی طرف سے عمران خان کو فون آ گیا ۔ شاہ سلمان کی طرف سے عمران خان کو سعودی عرب کے باقاعدہ دَورے کی دعوت بھی دی گئی چنانچہ وزیر اعظم نے سعودی عرب کا دَورہ بھی کیا اور سعودی فرمانروا سے ملاقات بھی کی۔ یہ اُن کا پہلا غیر ملکی دَورہ تھا۔
سعودی عرب کی طرف سے عمران خان کے لیے بڑھا دستِ تعاون اساسی طور پر مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اِس حوالے سے ایک اطمینان بخش خبر بھی گردش میں رہی ہے کہ اسلامی ترقیاتی بینک IsDB))کی طرف سے پاکستان کو چار ارب ڈالر دیے جانے کی پیشکش کی گئی ہے۔ یہ رقم ابھی ملی تو نہیں لیکن اگر مل جاتی ہے تو عمران خان کے نئے پاکستان کے لیے کشائش اور کشادگی کی ایک اچھی صورت نکل آئے گی۔ عمران کی حکومت کو ریلیف کا احساس بھی ہوگا۔ ہمارا روپیہ بھی قدرے مستحکم ہوگا اور پاکستان کے معاشی حالات کے بارے میں کج اندیشیاں کرنے والوں کے منہ بھی بند ہو سکیں گے۔
14 اگست2018ء کے موقع پر سعودی ولیِ عہد، شہزادہ محمد بن سلمان، کی طرف سے عمران خان کو جو فون آیا تھا، یہ بھی خان صاحب کے لیے اطمینان اور تشفی کا باعث بنا ہو گا۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے جہاں خانصاحب کو کامیابی پر مبارکباد دی، وہیں انھوں نے اِس خواہش کا بھی اظہار کیا تھا کہ سعودی عرب پاکستان کے کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ یہ پاکستانیوں کے لیے بھی خوشخبری ہے۔
جواب میں عمران خان نے بھی سعودی ولیِ عہد کی زیر نگرانی سعودی عرب میں اینٹی کرپشن اقدامات کی بجا طور پر تعریف کی۔یہ تعریف کپتان کے منہ پر سجتی بھی ہے کہ خود عمران خان کرپشن کے کھلے مخالف ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا بیان محض بیان نہیں تھا۔اِس میں عمل کا پہلا رنگ یوں بھرا گیا ہے کہ اکتوبر2018ء کے پہلے ہفتے دو اعلیٰ سطحی سرکاری سعودی وفود پاکستان آئے۔
ان میں وزرا بھی تھے۔ انھوں نے پاکستان کے کئی علاقوں میں سرمایہ کاری کے نکتہ نظر سے دَورے بھی کیے۔ بتایا گیا ہے کہ سعودیہ ''سی پیک'' کے تین اہم منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں (تیل، معدنیات اور توانائی کے منصوبوں میں) سعودی عرب کی یہ مجوزہ سرمایہ کاری دراصل سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مشہورترقیاتی منصوبے ''2030 وِژن''کا حصہ ہے۔شنید ہے کہ تین معاہدوں کے تحت سعودی عرب اب پاکستان کو202ملین ڈالر کی گرانٹ فراہم کرے گا۔
سعودی عرب کی طرف سے یہ شاندار اعلان بھی سامنے آ یا کہ وہ بلوچستان کے50طلبا کو اعلیٰ وظائف پر سعودی یونیورسٹیوں میں داخلہ دے گا۔ یہ وظائف گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ سطح کے اُن بلوچ طلبا کو دیے جائیں گے جن کا تعلق بلوچستان کے دُور دراز اور پسماندہ ترین علاقوں سے ہے۔ وظائف کا آغاز رواں برس ہی ہو جائے گا اور اگلے سال اِن کی تعداد دُگنی ہو جائے گی۔سعودی عرب ہمارے اِن بلوچ طلبا کے نہ صرف سارے تعلیمی اخراجات برداشت کرے گا، بلکہ انھیں معقول ماہانہ اعزازیہ بھی دیا جائے گا۔ پاکستان نے اس مہربانی پر سعودیہ کا شکر ادا کیا ہے ۔
سینیٹ کے چیئرمین، جناب صادق سنجرانی، نے بھی اِس پر سعودی بادشاہ، سعودی ولی عہد اور پاکستان میں سعودی سفیر کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے۔واقعی معنوں میں سعودی عرب کو مملکتِ خیر کہا جانا چاہیے۔
سعودی میڈیا(خصوصاً ''سعودی گزٹ'' اور ''عرب نیوز'' اور سعودی نیوز ایجنسی''ایس پی اے'') اور سعودی دانشور اور اخبار نویس بھی عمران خان کی طرف دستِ تعاون بڑھا رہے ہیں۔ مثال کے طور پرممتاز سعودی انگریزی اخبار ''عرب نیوز'' میں صحافی صائب کیفی کا شایع ہونے والا تازہ مفصّل آرٹیکل ۔ اِس میں جہاں عمران خان کو درپیش ممکنہ رکاوٹوں کا جائزہ لیا گیا ہے، وہیں عمران خان سے اونچی توقعات بھی وابستہ کی گئی ہیں۔
عمران خان بھی ہر قدم پر سعودی عرب سے تعاون کرنے کے خواہشمند ہیں۔ گزشتہ دنوں جب کینیڈا نے بے جا طور پر سعودی عرب کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرنے کی جسارت کی تو عمران خان نے بھی کینیڈا کے بر عکس سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونے کو ترجیح دی ۔ سعودی وزیر اطلاعات ڈاکٹر عواد بن صالح العواد کا پاکستان تشریف لانا بھی خانصاحب کی حکومت کے لیے مثبت پیغام ہے۔
ڈاکٹر عواد کے دَورئہ پاکستان کا فائدہ یہ ہُوا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اطلاعاتی اور ثقافتی شعبوں میںتعاون بڑھا ہے۔ اب پاکستان کی چنیدہ فلمیں اور ڈرامے سعودی عرب میں بھی راہ پائیں گے۔یہ ہمارے نوجوان وزیر اطلاعات، فواد چوہدری، کی بھی کامیابی ہے۔