ہائبرڈ وار فیئر اور پاکستان کو درپیش چیلنجز
اس وقت پاکستان بھارت کی ہائبرڈ وار کا سب سے بڑا ہدف ہے۔
2009میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والے اجلاس کے دوران ''را'' کی دہشت گردانہ کارروایوں میں ملوث ہونے سے متعلق دستاویزاتی ثبوت اپنے ہم منصب منموہن سنگھ کے سپرد کیے۔ ان دستاویزاتی ثبوتوں میں نشان دہی کی گئی تھی کہ کس طرح بھارتی سیکیورٹی اور خفیہ ادارے افغانستان کی سرزمین سے فاٹا میں دہشت گردوں کو ترتیب اور مالی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان بھارت کی ہائبرڈ وار کا سب سے بڑا ہدف ہے اور اس ہمہ جہت جنگ کی قیادت بھارتی انٹیلی جنس ادارہ ''را'' کررہا ہے۔
بھارتی وزیر دفاع نے کانٹے سے کانٹا نکالنے کا حوالہ دے کر یہ واضح کردیا تھا کہ گزشتہ پانچ دہائیوں میں کس بے دردی سے بھارت دہشت گردوں کی پشت پناہی سے اپنے پڑوسیوں کی ناک میں دم کیے ہوئے ہے، یہ بھی بھارتی وزیر ہی نے کہا تھا ''یہ ہمیں کرنا ہوگا، ہمارے فوجی یہ سب کیوں کریں۔''بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے پاریکر کے بیان کے بعد یہ کہہ کر لیپا پوتی کرنے کی کوشش کی تھی کہ ''ان کا مقصد صلاحیت کار، آلات، حربوں سے متعلق تھا اس کے کئی معنی نکالے جاسکتے ہیں۔''بڑی رعونت کے ساتھ پاریکر نے کہا تھا ''ہم پاکستان کو اذیت پہنچائیں گے'' اور یہ کہہ کر پاکستان کے خلاف ''ہائبرڈ وار'' میں اپنے عزائم واضح کردیے تھے۔
1971میں پاکستان کا دولخت ہونا ، 1965کی جنگ کے بعد انھی بھارتی حربوں کا نتیجہ تھا۔ 30جنوری 1971کو ہم بھارت کے جال میں آگئے جب ایک بھارتی فوکر طیارہ ''گنگا'' اغوا کرکے لاہور اتارا گیا اور ظاہریہ کیا گیا کہ اغوا کار کشمیری علیحدگی پسند ہیں، جب کہ ان میں ''را'' کا ایک کارندہ بھی موجود تھا۔ اغوا کے ''ڈرامے'' سے ایک برس قبل یہ طیارہ انڈین ایئر لائن کی سروس سے نکال دیا گیا تھا، اسے دوبارہ اسی مقصد کے لیے واپس لایا گیا۔ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ اس طیارے کے سبھی مسافر یا تو ''را''، بی ایس پی یا پولیس وغیرہ کے اہل کار تھے یا ان اداروں سے تعلق رکھنے والوں کے اہل خانہ۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر مشرقی و مغربی پاکستان کے مابین فضائی رابطہ منقطع کردیا گیا۔
پاک بحریہ کی مہران بیس پر 2011میں بھاری ہتھیاروں سے لیس مسلح افراد نے حملہ کیا، پی تھری سی اوریون طیاروں کا ہینگر ان کا ہدف تھا، ان میں دو طیارے تباہ اور ایک متاثر ہوا۔ کیا کبھی کسی نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کہ دہشت گردوں نے نسبتاً بیش قیمت اور جدید طیاروں کو چھوڑ کر ہزار میٹر دور موجود پی تھری سی اوریونز ہی کو نشانہ کیوں بنایا۔ کیا دہشت گردوں کہ عزائم واضح نہیں تھے کہ وہ پاک بحریہ کو بصارت و سماعت سے محروم کرنا چاہتے تھے؟ ہماری بحریہ کو عارضی طور پر اس صلاحیت سے محروم کرنے کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کے سوا اور کسے ہوسکتا ہے؟ ان ناپاک عزائم کی تکیمل کے لیے کرائے کے دہشت حاصل کرنا ایک عام فہم سی بات ہے۔
افغان انٹیلی جنس چیف نبیل نے اتفاق سے سوویت قبضے کے دور میں بطور پناہ گزین پاکستان میں تعلیم حاصل کی۔ اس نے نیویارک ٹائمز کو ایک انٹرویو میں چانکیہ کے وضع کردہ اصول''دشمن کا دشمن دوست'' کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا جواز بیان کیا۔ افغان انٹیلی جنس اہل کاروں کے پردے میں ''را'' نے زیادہ تر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کی۔ امریکی اسپیشل فورسز نے ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اﷲ کے نائب لطیف اﷲ آفریدی کو افغان انٹیلی جنس اہل کاروں کے ساتھ کرزئی سے ملنے کابل جاتے ہوئے گرفتار کیا۔ کرزئی نے اس کی رہائی کے لیے امریکیوں سے بڑے رابطے کیے۔
یہ سہرا اشرف غنی کے سر جاتا ہے کہ امریکیوں نے لطیف آفریدی کو بعد ازاں پاکستان کے حوالے کردیا۔ اشرف غنی کے صدر بننے کے بعد افغان انٹیلی جنس( این ڈی ایس آئی) کی پاکستان مخالف سرگرمیاں ختم تو نہیں ہوئیں لیکن محدود ہوگئیں۔ یاد رہے کہ آئی ایس آئی کی نشان دہی پر افغانوں نے پشاور آرمی پبلک اسکول سانحے میں ملوث این ڈی ایس آئی کے پانچ اہل کار گرفتار کیے تھے۔ کیوں اور کیسے ملالہ کے قتل کے احکامات دینے والا ملا فضل اﷲ امریکا کے ہاتھوں مارے جانے سے قبل تک صوبہ کنڑ میں آزادانہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا۔
دہائیوں سے بلوچستان بھارتی ''ہائبرڈ وارفئیر'' کے سب سے بڑا ہدف رہا ہے۔کلبھوشن یادیو چاہ بہار کے راستے جعلی پاسپورٹ پر ویزا لگوا کر بلوچستان میں داخل ہوا۔ اسے3مارچ 2016کوگرفتار کیا گیا۔کلبھوشن بلوچستان اور پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کے مشن پر تھا۔ اس نے کراچی میں بدامنی میں بھی ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔
ملک دشمن عناصر بالخصوص بھارت نے پاکستان کے مفادات کو ٹھیس پہنچانے، شکوک، تنازعات اور بالخصوص بلوچستان کے لوگوں کو متنفر کرنے کے لیے ، سی پیک کے خلاف زہریلے پراپیگنڈے کی مہم کا آغاز کیا۔ اس پراپیگنڈے میں یہ بات پھیلائی گئی کہ چین بلوچستان کی ساحلی پٹی اور گوادر بندرگاہ پر فوجی اڈے بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے اور پاکستان چین پر معاشی انحصار اور بھاری قرضوں کے بوجھ تلے اس کی نوآبادیات بن کر رہ جائے گا۔
اسرائیل بھارت کا قریبی معاون بن کر کئی برسوں سے میڈیا اور نفسیاتی جنگ کے ذریعے پاکستان کے جوہری اثاثے غیر محفوظ ہونے اور ان کے دہشت گردوں کے قابو میں آنے جیسی غلط اطلاعات پھیلانے میں مصروف ہے۔ اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیے کہ صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہمارے جوہری اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور بھارت عزائم کے لیے سدّراہ کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
''را'' میڈیا میں بھی سرایت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ ریاست کی بقا کو درپیش خطرات ہیں جن کے ساتھ نمٹنا چاہیے، یہاں "Marquess of Queensbury" کا اصول لاگو نہیں کیا جاسکتا۔
گزشتہ برس بھارتی ہیکرز نے کراچی ، ملتان، اسلام آباد اور پشاور ایئر پورٹس کی ویب سائٹس میں نقب لگانے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے گورنمنٹ سسٹم کو متاثر کرنے اور کمپیوٹر ڈیٹا کو ناقابل رسائی اور ناقابل باز یافت بنانے کی بھی کوشش کی۔ ناگزیر خدمات کو متاثر کرنا، حکومتی ویب سائٹس سے معلومات چوری کرنا اور ریاست کے معاشی نظام کو مفلوج کرنا بھارتی سائبر حملے کا مقاصد تھے۔ اگر ضابطوں کے تحت لا کر کڑی نگرانی نہ کی جائے تو اس ڈیجیٹل دور میں مالیاتی ترسیلات کے لیے استعمال ہونے والی ٹیلکوز کو ہائبرڈ وار فیئر کا ہتھیار بنایا جاسکتا ہے۔ منی لانڈرنگ اور امریکی ڈالر لانے یا لے جانے کی صورت میں روپے کی قدر کے ساتھ کھلواڑ کرکے عوام میں معیشت کے حوالے سے بے یقینی پھیلانا ہائبرڈ وارفیئر کی معروف تکنیک ہے۔
کیا ان ٹیلکوز میں سے بعض اس بات کی تصدیق کرسکتی ہیں کہ انھیں کسی دوسرے ملک میں منی لانڈرنگ کے لیے نامزد نہیں کیا گیا؟ درحقیقت یہ ٹیلکوز ''ایسٹ انڈیا کمپنی'' کی جدید شکل ہیں ۔ پاکستان میں تاریخی، نسلی، مذہبی، سماجی و معاشی اور جغرافیائی اعتبار سے کئی ایسے اختلافات پائے جاتے ہیں، سازش کے تحت جن کا فائدہ اٹھا کر تشدد کا ماحول بنا کر ہائبرڈ وار کے لیے فضا ساز گار بنائی جاسکتی ہے۔
عالمگیریت کے اس عہد میں ، سرحدوں تک محدود قوم پرستی اور اپنی قوم کو دوسری اقوام اور افراد سے برتر تصور کرنا اب گئے دور کی بات ہے۔ روسی اسکالر دمتری لخاچیوو کہتا ہے''قوم پرستی دوسروں سے نفرت جب کہ حب الوطنی اپنی مادر وطن سے پیار ہے۔'' پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو قوم پرستی دو صورتیں اختیار کرسکتی ہے، دونوں ہی میں پاکستانی شناخت شامل ہوگی، یا پھر اسے کئی ذیلی قومی شناختوں میں دیکھا جاسکتا ہے، جو اس خطے کو ورثے میں ملیں، جیسے بلوچ، پشتون، پنجابی اور سندھی اور اسی طرح دیگر بھی۔ پاکستانی قوم پرستی کو خطر ناک حد تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قوم پرستی کی دوسری شکل کو شناخت کے بحران، علیحدگی پسندی اور دہشت گردی تک کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یہ دونوں ہی پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس لیے ہمارے نظام تعلیم اور ذرایع ابلاغ سے حب الوطنی کے تصور کی ترویج ہونی چاہیے۔
جب کھیل کی نوعیت تیزی سے اور جارحانہ انداز میں تبدیل ہورہی ہو تو نئے ضابطے اختیار کرلینے چاہییں۔ جس طرح ہماری عسکری قیادت نے ہائبرڈ وار فئیر کے وجود اور اس کے اثرات کا بروقت ادراک کیا، اداروں اور عوامی سطح پر اس سے متعلق آگاہی کے لیے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو ہم قدم ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔ پُرعزم قیادت اور اداروں کے مابین ہم آہنگی سے سول ملٹری تعاون کا فروغ جتنا آج ضروری ہے، اس سے قبل شاید اتنا کبھی نہیں رہا۔
(حال ہی میں نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں کی گئی گفتگو کے اقتباسات)