پرامن خطہ ترقی وخوشحالی کا ضامن
امن ہوگا تو معاشرے کا ہر فرد خوشحال ہوگا۔ منفی سرگرمیوں کا قلع قمع خود بخود روبہ عمل ہوجائے گا۔
برطانیہ کا معروف عیسائی پادری، مورخ و مصنف تھامس فلر (Thomas Fuller) 1962میں شایع ہونے والی مشہور تالیف (Worthies of England) جس کا غالبا اردو ترجمہ کچھ یوں ہوگا ''برطانیہ کی قیمتی نوادرات '' میں لکھتا ہے کہ ''دوستوں کے بغیر توگزارہ ہوسکتا ہے لیکن ہمسایوں کے بغیر نہیں ہوسکتا'' اسلامی تعلیمات کے نقطہ نظر سے مصحف پاک میں متعدد جگہوں پر ہمسائے کے ایک دوسرے پر حقوق و فرائض کا واضح طور پر تذکرہ کیا گیا ہے تاکہ ایک پرامن،خوشحال معاشرے کی تشکیل میں مدد مل سکے۔
امن ہوگا تو معاشرے کا ہر فرد خوشحال ہوگا۔ منفی سرگرمیوں کا قلع قمع خود بخود روبہ عمل ہوجائے گا۔اخلاقیات کے ضابطے مقررہوجائیں گے، عدل وانصاف کا بول بالا ہوگا۔
ترقی یافتہ ممالک کے ماضی پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی ترقی میں اس خطے کے پڑوسی ممالک نے آپس میں محبت و پیارکا رشتہ استوارکرلیا اور اپنے آس پاس کے خطے کو امن کا گہوارہ بنا دیا۔ آپ کے سامنے پورے یورپ کی زندہ مثال موجود ہے کہ انھوں نے مسلمانوں اور غیر اقوام سے جنگ وجد ل کے نتیجے میں کیا حاصل کیا ،کتنے علاقے فتح کرلیے،کتنی دوسری قوموں کو غلام بنایا۔
انسانیت کی بے حرمتی اور ان کی پامالی دیکھتے ہوئے وہ بھی ایک دن سر جوڑکر بیٹھنے پر مجبور ہوگئے اور فیصلہ کیا کہ اس مار دھاڑکے عمل سے دور رہ کر سب سے پہلے انھوں نے اپنے یورپین تمام پڑوسیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے اتحاد قائم کیا اور یوں ایک منظم یورپی یونین کا وجود ممکن ہوا اور اپنی مشترکہ کرنسی '' یورو'' کا انعقاد کیا ۔ اس وقت یورپ دنیا کا سب بڑا سیاحتی مرکز بنا ہوا ہے ۔
شب و روز اس ترقی کے عمل نے پورے یورپی معاشرے کو خوشحالی کی راہ دکھائی اور ساتھ ساتھ انھوں نے عوامی فلاحی ریاست کے تصورکو عملی جامہ پہنایا۔ قانون کی پاسداری اور معاشرے کے عام افراد کو جلد اور سستے انصاف کی فراہمی پر مبنی عدالتی و ثالثی نظام قائم کیا۔ سپرطا قت کے اتحادی کے طور پر اپنی شرکت کوکلی نہیں بلکہ جزوی طور پر یقینی بنایا تاکہ دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ان کی ترقی میں سپر طاقت کی کسی حد تک مداخلت کی روک تھام کی جاسکے۔
ہمارے ملک کا بھی یہی طریقہ کار رہا ہے، مگر یہاں ہمیں سوچنا ہوگا کہ بحیثیت مسلمان مملکت کیا ہمیں کسی مسلمان ملک کے خلاف ہونے والی جارحیت میں اس کے اتحادی بن کر اس کا ساتھ دینا چاہے یا نہیں اورجب کہ وہ مسلمان مملکت ہماری ہمسایہ بھی ہو ۔ یہی ایک ایسا نقطہ فکر ہے جو ہمارے مقتدر احباب کو ایک مربوط اور مستحکم خارجہ پالیسی کے تحت سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔
یورپ کا عظیم اتحاد کے مقابلے میں ہمارا اپنے پڑوسی ممالک سے رویہ کیسا ہوگا ۔ ہم براعظم ایشیا کے اہم خطے جنوب کی اہم سمت پر رہتے ہیںاور خوش قسمتی سے ہماری مثال اس گاڑی کی سی ہے جو اپنے چار پہیوں پرکھڑی ہے یعنی ہمارے پڑوس میں چار اہم ممالک ہیں، ایران، افغانستان، بھارت اور چین ۔ جو ثقافتی، سماجی، معاشرتی لحاظ سے ایک دوسرے سے قریب تر ہیں اور ان چاروں ممالک کے درمیان کچھ اہم مشترکہ علاقائی مفادات کا ہونا ایک فطر ی عمل ہے۔
مشرق وسطیٰ کی انقلابی ریاست ''اسلامی جمہوریہ ایران '' جس کی سرحدیں پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے منسلک ایران کے سرحدی شہر تافتان سے جا ملتی ہیں۔ ایران دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے پاکستان کی آزادی کو سب پہلے تسلیم کیا اور بھارت سے اچھے سفارتی تعلقات کے باوجود ایران نے ہمیشہ پاک بھارت جنگوں میں نہ صرف ایک مسلمان مملکت ہونے کے ناتے بلکہ ایک اچھے ہمسائیگی کے رشتے کو ذمے داری کے ساتھ استوارکرتے ہوئے پاکستان کا ہر سطح پر ساتھ دیا ۔ ایران دنیا میں پیٹرولیم ، قدرتی گیس اور دوسری قدرتی نایاب معدنیات کے بھرپور ذخائرسے مالا مال ہے ۔ یکم اپریل 1979آیت اللہ خمینی کی سربراہی میں ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے لگائی جانے والی معاشی پابندیوں کے دوران ایران اور پاکستان کے باہمی تعلقات میں خلا پیدا ہوا۔
پاکستان کے شمال مغربی سمت میں وسیع وعریض رقبے پر محیط کوہستانی مسلمان ریاست '' افغانستان '' ہے۔ افغانستان کی سرحد پاکستان کے جس حصے سے ملتی ہے وہ سارے کا سارا علاقہ آزاد قبائل پر مشتمل ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے قیام کے وقت ''ڈیورینڈ لائن'' سے پیدا ہونے والے افغان اختلافات نومولود اسلامی جمہوری ریاست کو ورثے میں ملے۔ ان اختلافات کے تاریخی پس منظرکی روشنی میں غیر منقسم برصغیرکے دور میں تاج برطانیہ کو ہر وقت یہ خدشہ لاحق رہتا تھا کہ شمال مغربی سرحد (آزاد قبائلی علاقہ جات) پر سوویت یونین (روس) کا حلقہ اثر ان علاقوں تک نہ پہنچ سکے یا خود افغانستان کی حکومت اس آزاد علاقے میں دخل اندازی نہ کرسکے۔
لہذا اس انجان اندیشوں کی وجہ سے افغان حکومت سے گفت وشنید کے بعد تاج برطانیہ کے نمایندے مقیم ہند یعنی وائسرائے ہندوستان نے 1893 میں افغان حکومت کے سا تھ سرحد بندی کا ایک عہد نامہ کیا جو تاریخ ہند میں '' ڈیورینڈ لائن '' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں دنیا کی دوسری سپرطاقت ''سوویت یونین'' نے افغانستان پر چڑھائی کی تو ہم پلہ سپر طاقت امریکا نے دنیا کا سرمایہ لگا کر سوویت یونین کو شکست فاش سے دوچارکیا اور سوویت یونین کی ریاستوں نے اس اتحاد سے علیحدگی اختیارکی اور یوں سوویت یونین سے تبدیل ہوکر صرف روس رہ گیا ۔
اس محاذ آرائی میں امریکا نے انھی آزاد قبائل کو طالبان اور القاعدہ کا مجاہد بنا کر اس جنگ میں جھونکا۔ بھارت ہمارا بہت ہی قریب ترین ہمسایہ ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے نفرتیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں ۔ اب تک ہونے والی جنگوں میں سوائے لاکھوں کی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع اور مالی نقصانات کے جن کی شماریاتی لاگت اعداد وشمارکے لحاظ سے اربوں روپے بنتی ہے، خداداد وسائل کا بے دریغ ضیاع ہمیں تباہی کے سوا کچھ نہیں دیتا، سوائے بھوک،غربت وافلاس کے۔
جنوبی ایشیا کا سرسبز اہم خطہ برصغیر پاک و ہند دو قومی نظریے کے تحت 1947 میں ایک دوسرے سے جد ا ہوگئے اور یوں اسلام کے نام پر آزاد ریاست پاکستان کا وجود ممکن ہو سکا۔ امارات مغلیہ اور سکھوں کی معاشرتی، سماجی، معاشی تہذیب کا گہوارہ اور بزرگان دین کا روحانی و نورانی آستانوی مرکز برصغیر جنگ وجدل کی تاریخ سے عبارت ہے۔
ماحولیات کی رو سے افغان جہاد اور پاک بھارت معرکوں نے اس پورے خطے کو بارودکی آماجگاہ بنا دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ایک ناسور بنا ہوا ہے۔اس خطے میں بے پناہ وسائل کے ہوتے ہوئے بھی یہ خطہ دنیا میں ہونے والی جدید ترقی کے عمل سے محروم ہے۔ مشاہدے کی بنیاد پر اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو ریاستیں نفرت کی بنیادوں پر آزادی اختیار کرتی ہیں وہ ہمیشہ کے لیے انارکی کا شکار رہتی ہیں ۔
پاکستان اور بھارت کی تقسیم بھی اسی گردش ایام کا پیش خیمہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرتیں جس کے منفی اثرات وہا ں کی عوام کو برداشت کرنا پڑتے ہیں اور پورے کا پورا معاشرہ افراتفری، دہشت گردی، منفی سرگرمیوں کا شکار رہتا ہے۔ پڑوسی ممالک کا باہمی اتفاق واتحاد ہی جدید ترقی کی ضامن ہے جو بلاشبہ وقت کی بھی اہم ضرورت ہے۔
کمیونسٹ ریاست ''چین '' جس کے کوہ ہمالیہ کے طویل سلسلے سے پاکستان کی سرحد ملتی ہے۔ دنیا کا ساتواں عجوبہ ''دیوار چین'' دونوں ملکوں کے باہمی عہدوپیمان کی گواہی دے رہے ہیں۔ چین کی اپنی قدیمی روایتی تاریخ ہے۔ یہ تاریخ بتاتی ہے کہ ''پاکستان '' چین کا ازل سے گہرا دوست ہے اور رہے گا۔ سفارتی سطح پرکبھی بھی چین سے اختلافات پیدا نہیں ہو سکے ۔ یہ دنیا کا سب سے بڑی معاشی واقتصادی حب ہے اور سپرطاقت کی لائن میں کھڑا ہے۔
چین شمالی کوریا اور ویتنام کے درمیان واقع ہے۔ پاکستان میں سی پیک،گوادرکی بندرگاہ کو جدید دنیا سے ملانا جیسے ترقیاتی پروجیکٹس روبہ عمل ہیں۔ ہمارے مقتدر رہنما اور بیوروکریسی مستحکم سفارتی اور ٹریڈ پالیسیوں کی تشکیل میں بری طرح ناکام ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام وسائل ہونے کے باوجود ہمارا وجود بھکاریوں کی جماعت سے مشابہ ہے۔ موضوع کے موقع ومناسبت سے اس وقت مجھے قاضی احسن بدایونی کا ایک شعر یاد آرہا ہے جوکچھ یوں ہے۔
بگڑے ہوئے حالات سنبھالے نہیں جاتے
پیچ ایسے پڑے ہیں کہ نکالے نہیں جاتے