ذرا تھر کو دیکھ ایک نظر
تھر کے مرتے ہوئے انسانوں کو بچانا آج کا سب سے بڑا انسانی فریضہ ہے۔
تھرپارکر میں 2018 میں ستمبر تک 823 بچے اور بڑے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ 16 لاکھ انسان اور 70 لاکھ چرند وپرند متاثر ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کراچی کے بچوں کے اسپتال کی انتظامیہ کو 3 ماہ سے تنخواہیں ادا نہ کرنے پر وہ کام چھوڑ ہڑتال پر ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں بچے بیماریوں سے بلبلا اٹھے ہیں۔
اس ملک میں 2017 میں 40 ہزار خواتین چھاتی کے کینسر سے جان سے جاتی رہیں (یہ اعداد وشمار دنیا میں سب سے زیادہ ہیں)، تھر سے عوام اپنے مویشیوں سمیت نقل مکانی کر رہے ہیں، یہاں صحت کا بجٹ 0.8 فیصد ہے اور دفاعی بجٹ میں 19 فیصد اضافہ کرکے 13 کھرب روپے کردیا گیا ہے۔ خیراتی ڈیم کو تو بنتے بنتے برسوں لگ جائیں گے، مگر آج ان بھوک و پیاس سے مرتے ہوئے بچوں کو کیونکر بچایا جائے۔
ہمارے ہی ملک کے علاقوں ڈیفنس کراچی، سیٹلائٹ ٹاؤن کوئٹہ، ماڈل ٹاؤن لاہور اور حیات آباد پشاور میں روزانہ صرف پھولوں کے باغات میں لاکھوں گیلن پانی کا چھڑکاؤ ہوتا ہے، لاکھوں کروڑوں گاڑیوں کی دھلائی پر بھی کروڑوں گیلن پانی ضایع ہوتا ہے۔
ہم قومی اخراجات میں 50 فیصد کمی کرکے تھرپارکر میں ٹیوب ویل اور نہروں کے ذریعے بڑے پیمانے پر پانی عوام کو فراہم کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف سرکاری اور غیر سرکاری اعلامیے ہیں۔ مثلاً وفاق نے تھر میں35 ہزار ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، گورنر سندھ عمران اسمعایل کا کہنا ہے کہ حکومت تھر کی صورتحال سے واقف ہے، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ تھر میں غربت کی وجہ خشک سالی ہے۔ 1917 میں سوویت یونین میں محنت کشوں اور پیداواری قوتوں کے انقلاب کے بعد سائیبیریا کے بڑے ریگستانی علاقوں کو پانی سے سیراب کیا گیا اور چند برسوں میں لہلہاتے ہوئے کھیت امڈ آئے، چہار طرف انگور، تربوز، آلو، گندم، سیب اور سبزیوں سے ریگستان نخلستان میں تبدیل ہوگیا۔
ہمارا یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا میں سب سے کم صحت اور تعلیم کا بجٹ ہے۔ معیشت دیوالیہ ہونے جارہی ہے، ملازمین کو تنخواہیں نہیں دے پارہے ہیں، ڈیم بنانے کے لیے پیسے نہیں ہیں، عوام کو روزگار نہیں دے پا رہے ہیں، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ عوام تمام مسائل (بھوک، افلاس، غربت، جہالت، بے گھری، لاعلاجی، کرپشن، قتل و غارت گری، قحط) اور بدترین ماحولیات سمیت ہر شعبے میں دنیا کے تمام ملکوں سے آگے آگے ہیں۔ دنیا کے چار جہالت والے ممالک میں سے ایک پاکستان ہے، دنیا کے چار کرپٹ ترین ممالک میں ایک پاکستان ہے، دنیا کے چار غربت زدہ ملکوں میں ایک پاکستان ہے۔ ماحولیات کے بدترین حالات میں افریقی ممالک سے بھی آگے پاکستان ہے، مگر اسلحہ کی پیداوار اور تجارت میں دنیا میں گیارہواں نمبر ہے، جب کہ تعلیم میں 132 واں اور صحت میں 134 واں نمبر ہے۔
ذرا غور تو کریں کہ جس ملک میں کروڑوں کسان بے زمین ہوں، کروڑوں مزدور بے روزگار ہوں، تھر میں روزانہ دو چار بچے بھوک اور عدم علاج سے مر رہے ہوں، وہاں ہم کھربوں ڈالر خرچ کرکے ایٹم بم بنا رہے ہیں۔ شاید اسی سلسلے میں ساحر لدھیانوی نے کہا تھا کہ خون اپنا ہو یا پرایا ہو، نسل آدم کا خون ہے آخر، جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں، امن عالم کا خون ہے آخر۔ بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر، روح تعمیر زخم کھاتی ہے، کھیت اپنے جلیں یا اوروں کے، زیست فاقوں سے تلملاتی ہے، ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں، کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے۔ اس لیے اے شریف انسانو! جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے، آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں شمع جلتی رہے تو بہتر ہے۔
تھر کے مرتے ہوئے انسانوں کو بچانا آج کا سب سے بڑا انسانی فریضہ ہے۔ اگر پاکستان کے تمام لوگ کیمیائی مشروبات اور معدنی پانی پینا چھوڑ دیں تو یہی رقم تھر کے پیاسے عوام کو فراہم کی جاسکتی ہے۔ اگر پاکستان کے عوام صرف سگریٹ، نسوار اور شراب پینا چھوڑ دیں تو بھی تھری عوام بھوک سے بچ سکتے ہیں۔ اگر ہم کاسمیٹک کی اشیا کی درآمدات بند کردیں تو بھی تھری عوام کو صحت اور غذا دے سکتے ہیں۔ انسان کو جینے کے لیے سب سے پہلے غذا، پانی، علاج اور رہائش پھر تعلیم چاہیے۔ ہم کیسے لوگ ہیں کہ ہمارے سامنے بچے تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ ہم سب کچھ کرسکتے ہیں مگر دولت کی ہوس اور ذاتی عیش و عشرت آڑے آتی ہیں۔ اور یہ سب کچھ طبقاتی نظام کی دین ہے۔ جب طبقاتی نظام نہیں تھا تو ریاست کا وجود بھی نہیں تھا اور اس کی رکھوالی کے لیے پہرے دار یا فوج کی ضرورت بھی نہیں تھی۔
چند روز پہلے بی بی سی اردو ریڈیو رپورٹ میں ایک تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ایک معتبر سائنسی ادارے نے جنگل میں رہنے والے کروڑوں ننگ دھڑنگ لوگوں میں سے ایک ہزار لوگوں کا خون ٹیسٹ کیا، ان میں سے کسی ایک میں بھی کولیسٹرول، ذیابیطیس، کینسر، گردے یا دل کے امراض نہیں پائے گئے۔
تحقیق کاروں کا کہنا تھا کہ یہ روزانہ بارہ سے سولہ ہزار قدم چلتے ہیں، گندے ہاتھوں اور گندے جسم کے ساتھ گزارا کرتے ہیں، لیکن بیمار نہیں ہوتے، اس لیے کہ ان میں جراثیم کش مزاحمت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ جب کہ دور جدید کے صنعتی ترقی یافتہ ملکوں میں یہ بیماریاں عام ہیں اور اس دنیا میں ہزاروں لوگ ان امراض میں مر رہے ہیں۔ سائنسی اور تکنیکی ترقی کی وجہ سے فضا آلودہ ہوگئی ہے، جنگلات ختم ہونے کی جانب گامزن ہیں، دریا خشک ہورہے ہیں، دھوئیں یعنی کاربن نے دنیا کو موت کی آغوش میں لے رکھا ہے۔ ہر کھانا، ہر غذا اور مشروب ملاوٹ کا شکار ہے۔ جہاں ملاوٹ نہیں ہے وہاں کیمیائی اور جی ایم (جینیٹک موڈیفائیڈ) نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔
یورپی ممالک نے آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، امریکا، ایشیا، افریقہ خصوصاً چین اور ہندوستان کے وسائل کو لوٹا، وہاں کے کروڑوں انسانوں کو بے دردی اور انسانیت سوز طریقوں سے قتل عام کرکے مقامی آبادی کو تہس نہس کرکے یورپیوں کو منتقل کیا گیا۔ آج نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکا میں مقامی آبادی تقریباً ناپید ہوگئے ہیں۔
ان کی ثقافت، زبان اور مذہب کو بھی چھین لیا گیا ہے۔ ان مظالم کے خلاف گزشتہ برس کینیڈا کے وزیراعظم نے فرسٹ سٹیزن یعنی مقامی آبادی سے معافی مانگی ہے۔ جب آپ کروڑوں انسانوں کو قتل کرکے ان کی لاشوں پر جشن منائیں اور ترقی یافتہ ہونے کے دعویدار بنیں تو انسانیت کو شرمساری کے سوا اور کچھ نہیں مل سکتا۔ ان تمام مسائل کا واحد حل دنیا کو پھر سے ایک کرنا ہے۔ سرحدوں، ملکیت، جائیداد، خاندان اور دیگر تفریق کو ختم کرکے دنیا کو تمام لوگوں کی ایک دنیا بنانا ہے۔