تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو
ہمیں وہ زمانہ یاد آ رہا ہے جب اسی طرح الیکشن کے بعد موسم بدلا تھا اور یاروں کے عزائم یکایک بہت بلند ہو گئے تھے۔
KARACHI:
موسم کو بدلتے دیر نہیں لگتی اور جب بدلنے پہ آتا ہے تو اس رنگ سے بدلتا ہے کہ محکمہ موسمیات والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ بدلتا موسم ان کی پیشگوئیوں کا ذرہ برابر احترام نہیں کرتا۔ ارے ہم نے تو سیاسی موسم کے بھی یہی تیور دیکھے ہیں۔ الیکشن کے بعد اس رنگ سے بدلا کہ سیاسی مبصرین و منجمین منہ دیکھتے رہ گئے۔ انھوں نے تو خانہ جنگی تک کی پیشگوئی کر ڈالی تھی۔ اور کوئی بڑا خون خرابہ تو ناگزیر نظر آ رہا تھا۔ لیکن ان کی ساری قیاس آرائیاں اور پیشگوئیاں محکمہ موسمیات کی پیشگوئیاں بن کر رہ گئیں۔
موسم کیسا بدلا ہے۔ الیکشن سے پہلے یار اپنوں پرایوں سب کو اندیشہ ہائے دور دراز ستا رہے تھے۔ پتہ نہیں الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں۔ ہوئے تو کیا ووٹر ان خودکش حملوں کی فضا میں ووٹ دینے کے لیے نکلیں گے۔ بالفرض محال الیکشن ہو گئے۔ اس کے بعد کیسا کیسا ہنگامہ ہو گا، سر پھوٹیں گے، خون بہے گا۔ ارے کچھ بھی نہیں ہوا۔ جو چیرا تو ایک قطرۂ خوں نہ نکلا۔ سارا موسم ہی بدل گیا۔ کہاں وہ خوف و ہراس اور نا امیدی کی فضا اور کہاں اب ارمانوں کے بر آنے کی فضا ہے۔ ہر زید بکر امید سے ہے اور اصلاح احوال کے ڈھیر سارے منصوبے بغل میں دبائے پھرتا ہے۔
اس سے بڑھ کر جو تبدیلی نظر آ رہی ہے وہ بہت معنی خیز ہے۔ ایک نئی طاقت کا احساس۔ جیسے کسی نے طاقت کا ٹیکہ لگا دیا ہو۔ ایسے عالم میں ڈرون حملے تو بے معنی بن کر رہ گئے ہیں۔ یار کس کس شان سے للکار رہے ہیں۔ ایک سیدھا سادا حل تو یہ نظر آ رہا ہے کہ ڈرون جب اڑتا نظر آئے تو ٹھائیں سے گولی چلائو اور گرا لو، آگے جو ہو گا دیکھ لیں گے۔ اس فضا میں تو ہمارا بھی خون جوش مارنے لگا ہے۔ ہمیں اپنی وہ غلیل یاد آ رہی ہے جس سے غلہ ایسے نکلتا تھا جیسے بندوق سے گولی نکلتی ہے۔ چڑیا ایسے ڈھیر ہو جاتی تھی جیسے اس پر ڈرون حملہ ہو گیا۔
نہ ہوئی اس وقت یہ غلیل ہمارے پاس۔
خیر اس بات کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں۔ ہمیں وہ زمانہ یاد آ رہا ہے جب اسی طرح الیکشن کے بعد موسم بدلا تھا اور یاروں کے عزائم یکایک بہت بلند ہو گئے تھے۔ پیپلز پارٹی نے نیا نیا اقتدار سنبھالا تھا۔ جن اداروں سے ہماری شناسائی چلی آ رہی تھی وہاں نئی ہوائیں چل رہی تھیں۔ لاہور میں پی ٹی وی کا ایک جلسہ ہمیں یاد آ رہا ہے۔ عجب جلسہ تھا، کل تک جو ٹی وی کے لکھاری اور دانشور اس ادارے کے نفس ناطقہ تھے وہ کہیں پچھلی صفوں میں دم سادھے بیٹھے تھے۔ انقلاب زمانہ نے انھیں پچھلے دھکیل دیا تھا۔ کچھ نئے دانشور نئے عزائم اور نئے منصوبوں کے ساتھ یہاں آئے بیٹھے تھے۔ سب سے بڑھ کر ہمارے یارِ عزیز احمد بشیر تھے جو پی ٹی وی کو ایک نئے انقلابی سانچے میں ڈھالنے پر تلے نظر آتے تھے۔ اسی رنگ سے اور تقریریں بھی ہوئیں۔
شاہد ندیم تو خیر ٹی وی ہی میں تھے۔ اس حساب سے انھیں زمینی حقائق کا کسی قدر احساس تھا۔ یہ سب تقریریں سن کر وہ کھڑے ہوئے اور بولے کہ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ابھی کوئی انقلاب نہیں آیا ہے۔ جو بھی تبدیلی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ دیوار میں ایک سوراخ ہوا ہے۔
مگر احمد بشیر کی تقریر اس انتباہ کے بعد بھی جاری رہی۔
اب ایک دوسرے جلسہ کا احوال سنئے۔ یہ اکیڈمی آف لیٹرز کا جلسہ تھا۔ اب اکیڈمی پیپلز پارٹی کے دانشوروں کے عزائم کی آماجگاہ تھی۔ اس جلسہ میں انھیں عزائم کا اظہار ہو رہا تھا۔ یہاں پھر احمد بشیر اپنے انقلابی منصوبوں کے ساتھ رواں تھے۔ انھوں نے ایک منصوبہ یہ پیش کیا کہ پاکستان کی صحیح تاریخ مرتب کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اس کے لیے ایک بورڈ بنایا جائے اور موہنجو داڑو سے اب تک کی تاریخ تفصیل کے ساتھ رقم کی جائے۔ اتنی تفصیل سے کہ وہ کم و بیش آٹھ دس جلدوں میں پھیلی ہوئی ہو۔
یہ منصوبہ اور ایسی دوسری تقریریں سننے کے بعد ایک شاعر کھڑا ہوا مگر یہ اردو کا شاعر نہیں تھا۔ اردو کا شاعر تو خود مبالغہ کا بادشاہ ہوتا ہے۔ پنجابی شاعری شاید زمینی حقائق سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ تو اس شاعر نے کھڑے ہوکر کہا کہ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔ اپنے مختصر دور میں آپ جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کر لیں۔
اور اس شاعر نے ٹھیک کہا اور شاہد ندیم نے بھی ٹھیک کہا۔ کسی منصوبے کو جامۂ عمل پہنانے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ اب پی ٹی وی، اکیڈمی آف لیٹرز اور دوسرے کلچرل اداروں میں پیپلز پارٹی سے وابستہ اہل قلم اور دانشوروں کا دور دورہ ہو گیا اور بس۔ اور پھر جلد ہی بے نظیر بھٹو کی حکومت کا بستر لپٹ گیا۔
مطلب یہ کہ یہ جو موسم اب چڑھا ہے اور جو امیدوں سے لبریز نظر آ رہا ہے اور میاں نواز شریف اب قوم کے نجات دہندہ نظر آ رہے ہیں اور اس واسطے سے ان سے کتنی امیدیں وابستہ کر لی گئی ہیں تو یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں امیدوں کے ایسے موسم آتے رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر تو وہ موسم تھا جب بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا تھا۔ مگر ہر ایسا موسم زور و شور سے چڑھ کر کتنی جلدی اتر گیا۔ اور اس کے بعد پھر نا امیدی اور احساس محرومی کا لمبا موسم اور؎
پھر وہی زندگی ہماری ہے
ایسا موسم تو اسی صورت میں بار آور ہو سکتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو، جو اقتدار سنبھالتی ہیں، یہ آگاہی میسر ہو کہ قومی زندگی صرف سیاست سے عبارت نہیں ہوتی۔ جب ہی تو وہ ایسے اہل دانش، اہل علم اور اہل ہنر کی قدر کر سکے گی جو قوم زندگی کی تشکیل و تعمیر میں کوئی رول ادا کر سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حصے میں تو ایسی مخلوق اچھی تعداد میں آئی تھی۔ مگر اسے اس دولت کو سنبھال کر رکھنا اور ان سے کام لینا آیا ہی نہیں۔
کچھ ایسے لوگ موجودہ برسر اقتدار جماعت سے بھی وابستہ نظر آ رہے ہیں اور ان دنوں وہ بہت خوش بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ انھیں خوش دیکھ کر ہم بھی خوش ہیں کہ شاید ان کے واسطے سے کچھ اچھے کام ہو سکیں۔ مگر پاکستان میں ایسے موسم جس طرح چڑھتے اترے رہے ہیں، انھیں پیش نظر رکھیں توقعات ہی وابستہ کر سکتے ہیں۔ یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ سو اگر ہم سے یار پوچھیں تو ہم تو یہی کہیں گے کہ اچھی توقعات برحق۔ مگر فی الحال تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو اور یہ سوچ سوچ کر ہم ڈر بھی رہے ہیں کہ آخر میں پھر کہیں یہی پچھتاوا نہ آلے کہ؎
اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے