کراچی یونیورسٹی ماضی کے اوراق آخری حصہ
وائس چانسلر نے عابد علی سید کو سمجھایا کہ انھوں نے یہ عہدہ نہ چھوڑا تو ان کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔
KARACHI:
جب 1968 میں پورے ملک میں جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک زوروں پر تھی۔ ڈھاکا، لاہور، کراچی، راولپنڈی اور پشاور میں طلبا، مزدور، کسان اور سیاسی جماعتیں احتجاجی تحریک چلارہی تھیں تو کراچی میں عابد علی سید کو طلبا ایکشن کمیٹی کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ عابد علی سید شعبہ ریاضی کے طالب علم تھے۔ انھیں وائس چانسلر آفس طلب کیا گیا۔
وائس چانسلر نے عابد علی سید کو سمجھایا کہ انھوں نے یہ عہدہ نہ چھوڑا تو ان کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ عابد علی سید نے وائس چانسلر کی اس بات پر توجہ نہیں دی، یوں عابد علی سید کو کم حاضری کی بنیاد پر سالانہ امتحان سے روک دیا گیا۔ جب حسین نقی طلبا یونین کے صدر منتخب ہوئے تو طلبہ کونسل میں این ایس ایف کے حمایت یافتہ کونسلر اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ این ایس ایف کے رہنما خرم مرزا مرحوم اس کونسل کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے حسین نقی کے اخراج کے ساتھ بغیر کسی جواز کے اس کونسل کو توڑ دیا اور خرم مرزا کو بھی ہٹادیا گیا۔
1969 میں کراچی یونیورسٹی طلبہ یونین کے انتخابات منعقد ہوئے۔ این ایس ایف سے صدر کے لیے عبدالباری خان اور اسلامی جمعیت طلبہ کے امیدوار اعجاز شفیع گیلانی تھے۔ این ایس ایف پورے ملک میں جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھی۔ اس بات کے قوی امکانات تھے کہ این ایس ایف کے امیدوار کامیاب ہوں گے۔ انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ این ایس ایف نے اس دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا۔ این ایس ایف کے کارکنوں سید حسنین حیدر شاہ بخاری، طارق فتح، زاہد حسین اور خواجہ شریف بھوک ہڑتال کرنے والوں میں شامل تھے۔
اس وقت کے شعبہ سیاسیات کے طالب علم شہریار مرزا بتاتے ہیں کہ جنوری کی سخت سردی میں 6دن تک بھوک ہڑتال جاری رہی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی ہدایت پر پولیس نے شہریار مرزا سمیت بھوک ہڑتالیوں کو گرفتار کیا۔ ان طلبا کے خلاف سرسری سماعت کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ یونیورسٹی کی سیکیورٹی کے انچارج نے قرآن پر حلف اٹھانے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کے ان طلبا پر لگائے گئے الزامات کو غلط قرار دیا مگر عدالت سے ان طلبا کو 9 ماہ سے ایک سال کی سزا دی گئی۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے ایک اخباری انٹرویو میں بتایا کہ یہ طلبا سردی میں پڑے ہوئے تھے، میں نے انھیں اسپتال بھجوایا۔ این ایس ایف نے کراچی یونیورسٹی کے طلبا کی رہائی کے لیے مہم شروع کی۔ پولیس نے این ایس ایف کے صدر ڈاکٹر رشید حسن خان، امیر حیدر کاظمی، علی یاور، اور الطاف صدیقی وغیرہ کو گرفتار کرلیا۔ پولیس نے رشید حسن خان پر اتنا تشدد کیا کہ ان کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا۔ ترقی پسند اساتذہ کے لیے کراچی یونیورسٹی کے دروازے بند کیے گئے۔
ان میں اردو کے معروف نقاد پروفیسر ممتاز حسین،بلوچستان یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر کرار حسین اور سیاسیات کے معروف استاد ڈاکٹر حسان شامل ہیں، جنھیں کراچی یونیورسٹی میں ملازمت نہیں دی گئی۔ اسی طرح نوجوان اساتذہ میں فزکس کے استاد ڈاکٹر اے ایچ نیئر وغیرہ بھی اس سلوک کا شکار ہوئے۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کی انجمن پر بھی مستقل دباؤ رکھا گیا مگر جب سینئر استاد ڈاکٹر افضال قادری انجمن کے صدر منتخب ہوئے تو ان کی قیادت میں انجمن اساتذہ نے آزادانہ سرگرمیاں شروع کیں۔
شعبہ ابلاغ عامہ کے معروف پروفیسر ذکریا ساجد کا کہنا ہے کہ جب کراچی کے کالجوں کے اساتذہ نے اپنے مطالبات کے لیے سرسید کالج پر بھوک ہڑتال کی تو یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی دفعہ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ نے ان اساتذہ سے یکجہتی کے لیے گرومندر سے ناظم آباد تک مارچ کیا، جلوس کے شرکاء نے وائس چانسلر کی ناراضگی مول لی۔ ایک صاحب جو کراچی یونیورسٹی میں ملازمت سے قبل اردو کالج کے پرنسپل تھے۔ اس وقت انجمن ترقی اردو پاکستان کے سربراہ مولوی عبدالحق حیات تھے۔
مولوی عبدالحق نے انجمن ترقی اردو کا المیہ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی۔ اس کتاب میں ان کے ساتھ روا رکھے گئے افسوسناک سلوک کی روداد بیان ہے۔ مولوی عبدالحق سے برا سلوک کرنے والوں میں بہت سے لوگ شامل تھے۔ جن صاحبان کو دلچسپی ہے، وہ انجمن کے دفتر سے یہ کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی میں نادرشاہی فیصلے کیے گئے۔ حکم جاری کیا گیا کہ طالب علم اور طالبات اپنے درمیان تین فٹ کا فاصلہ قائم رکھیں۔اس حکم پر عملدرآمد کے لیے اہلکار مقرر کیے گئے، یوں ایک طرف تو مخالف طلبہ اور طالبات کو ہراساں کرنے کا ایک نیا ہتھیار سامنے آیا تو دوسری طرف اس حکم سے کراچی یونیورسٹی پوری دنیا میں بدنام ہوئی۔ اس زمانے کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ اس وقت کی یونیورسٹی انتظامیہ نے صرف بائیں بازو کے طلبا کو ہی ہراساں نہیں کیا بلکہ دیگر عام طالب علموں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ا
یک بااختیار صاحب کی رخصتی کے بعد طلبا کے اخلاق درست کرنے کی ذمے داری ایک مذہبی تنظیم نے سنبھال لی اور تھنڈر اسکواڈ وجود میں آیا۔ اس تھنڈر اسکواڈ کی بازگشت اب بھی کراچی یونیورسٹی اور ذرایع ابلاغ پر سنائی دیتی ہے۔
انتظامیہ کی اس پالیسی کے نتیجے میں مخصوص فکر رکھنے والے افراد کو اساتذہ اور غیر تدریسی عہدوں پر فائز کیا گیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ کراچی یونیورسٹی میں آزادانہ بحث و مباحثہ اور آزادانہ تحقیق کا ادارہ ارتقاء پذیر نہیں ہو پایا۔ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی اداروں کی ترقی کے لیے جو کردار ادا کرسکتی تھی وہ کردار ادا نہ کرپائی۔
ہمارے ایک محترم دوست نے میرے احفاظ الرحمن سے متعلق آرٹیکل پر کچھ اعتراضات کیے تھے، لہٰذا چند حقائق پیش کیے گئے ہیں۔ اس آرٹیکل کا مقصد کسی شخصیت کی ہتک کرنا ہرگز نہیں بلکہ حقائق کو درست انداز میں پیش کرنا ہے تاکہ مستقبل میں ایسی غلطیاں نہ ہوسکیں۔