اس گھر کو آگ لگ گئی …
عام انتخابات کے بعد فاروق ستار نے ایم کیو ایم کی خراب کارکردگی کی وجہ لندن کا پارٹی سے سایہ اٹھنا قرار دیا تھا۔
کراچی میں 14 اکتوبرکے ضمنی الیکشن ، پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان کراچی کو فتح کرنے کی جنگ کا منظر پیش کر رہے تھے۔
ایسا لگ رہا تھا کہ کراچی کے عوام عام انتخابات کے بعد اب اس ضمنی الیکشن میں تیس سال تک کراچی کی پہچان بننے والی ایم کیو ایم کو اتنے بھاری ووٹوں سے کامیاب کرائیںگے کہ پی ٹی آئی کا کراچی پر حکمرانی کرانے کا خواب چکنا چور ہوکر رہ جائے گا مگر نتائج نے ثابت کردیا کہ اب کراچی کے عوام ایم کیو ایم سے دوری اختیار کرتے جا رہے ہیں اور ان کا ذہن تبدیلی کی جانب مائل ہوچکا ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا، صرف ڈھائی سال قبل کراچی اور حیدر آباد ہی کیا سندھ کے تمام شہروں میں ایم کیو ایم کو ایک مضبوط پارٹی کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور اس کے لیڈر بہ بانگ دہل یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے تھے کہ کوئی دوسری سیاسی پارٹی ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو نہیں چھین سکتی مگر آج یہ حال ہے کہ ایم کیو ایم ایک شکستہ کشتی کا منظر پیش کررہی ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ لوگ اس کی بے سمت سیاست سے تنگ آچکے تھے تو کیا لوگ اس کے عسکری ونگ کے ڈر و خوف کی وجہ سے اسے ووٹ دیتے رہے یا پھراس کے مہاجر نعرے کی کشش کا کمال تھا ۔کمال تو سارا مہاجر نعرے کا ہی تھا، مگر یہ نعرہ سراب ہی ثابت ہوا ۔ بہرحال اب حقائق یہ ہیں کہ اس وقت یہ پارٹی گھرکو آگ لگ گئی گھرکے چراغ والے مقولے کے جیتی جاگتی تصویر بنی ہوئی ہے۔ نہ 22 اگست 2016 کو پاکستان مخالف نعرہ بلند ہوتا نہ فاروق ستار پارٹی سے بغاوت پر آمادہ ہوتے اور نہ ہی پارٹی بکھرنا شروع ہوتی۔
فاروق ستارکی پوزیشن اس وقت تک مستحکم رہی جب تک لندن کا سایہ ان کے سر پر رہا مگر جب لندن کا سایہ ان کے سر سے ہٹ گیا تو ان کی پہلے جیسی قدر نہ رہی ، شاید اس لیے بھی کہ 22 اگست سے پہلے لندن کے ہر فیصلے کو لاگو کرانے میں وہ پیش پیش رہتے تھے اور یہی چیز انھیں ایم کیو ایم کے دیگر رہنمائوں سے ممتاز بناتی تھی اور عزت دلاتی تھی ۔ 22 اگست کے بعد ان کی پوزیشن مسلسل کمزور ہوتی چلی گئی اور حتیٰ کہ پارٹی کی اکثریت ایک طرف ہوگئی اور وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایک طرف کھڑے ہوگئے۔
اب چونکہ ڈروخوف کا ماحول ختم ہوچکا تھا چنانچہ ایم کیو ایم کے تمام ہی رہنما پارٹی کو جمہوری اصولوں کے مطابق چلانا چاہتے تھے جب کہ فاروق ستار اب بھی پہلے جیسے ماحول چاہتے تھے اور خود کو پہلے جیسا طاقتور رکھنا چاہتے تھے تاہم موجودہ حالات میں یہ کسی طرح بھی ممکن نہ تھا، چنانچہ انھوں نے علیحدہ ہوکر پی آئی بی دھڑا اپنا لیا ۔ ان کا خیال تھا کہ تمام ممبران ان کے ساتھ آجائیںگے اور بہادر آباد والے تنہا رہ جائیں گے مگر وہ ان کی بھول تھی۔ انھوں نے علیحدہ ہوکرکئی جلسے کیے اور انٹرا پارٹی الیکشن تک کرا ڈالے مگر ان کے تمام ہی اقدام ناکام ثابت ہوئے اس لیے کہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ ممبران کی اکثریت کو اپنی جانب راغب نہ کراسکے۔
اس ناکامی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ایک سیاستدان والی سوچ کو سامنے رکھ کر بہادر آباد کی جانب پلٹ آتے کیونکہ بہادر آباد والے ان کے پارٹی کو تقسیم کرنے جیسے سخت اقدام کے باوجود بھی ان کے خلاف نہ تھے وہ انھیں نہایت پیار اور عزت سے بہادر آباد واپس آنے کی دعوت دیتے رہے مگر وہ نہ آئے ۔ ادھر عام انتخابات بھی سر پر آگئے ایسے میں پارٹی کے مفادات کا خیال کرتے ہوئے انھیں فوراً پارٹی کی انتخابی مہم کوکامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے واپس آجانا چاہیے تھا، البتہ وہ اس وقت واپس آئے جب پارٹی کے کتنے ہی رہنما اسے چھوڑ چکے تھے اور ووٹرز بھی ان کی بہادر آباد والوں سے لڑائی سے سخت بیزار ہوکر پی ٹی آئی اور پی ایس پی کی جانب کھینچنے لگے تھے ۔
پی ٹی آئی چونکہ کراچی میں مہاجر قیادت پر مشتمل قومی جماعت ہے وہ الیکشن سے پہلے خوشحالی، امن اور دہشت گردی سے نجات کی باتیں کر رہی تھی۔ چنانچہ کراچی کے عوام کا اس کی جانب راغب ہونا قدرتی بات تھی پھر بد قسمتی سے ایم کیو ایم نے اپنے تیس سالہ اقتدار میں عوام کو سوائے بد امنی، ہڑتالوں اور لاشوں کے کچھ نہیں دیا تھا لہٰذا عام انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا تھا کہ اب کراچی کے عوام کسی لسانی تقسیم اور نفرت کے سیاست میں پڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں چنانچہ لوگوں نے گھٹن سے نکل کر تازہ ہوا کا ساتھ دیا اور یوں ایم کیو ایم صرف چار قومی او تیرہ صوبائی سیٹوں پر ہی سمٹ گئی اور پی ٹی آئی کراچی کی اکثریتی پارٹی بن گئی۔ اس کے بعد بات ضمنی الیکشن تک پہنچی۔
اس الیکشن سے صرف دو دن پہلے ہی فاروق ستار نے پھر بہادر آباد والوں کا ساتھ چھوڑ دیا اور ساتھ ہی نہیں چھوڑا بلکہ ایک نئی پارٹی ''ایم کیو ایم نظریاتی'' کے نام سے بنانے کا اعلان کردیا۔ عام انتخابات کے وقت بھی وہ بہادر آباد سے اختلاف کرکے پارٹی کو نقصان پہنچاچکے تھے۔ بہر حال اب ایم کیو ایم کا ضمنی الیکشن میں ہار جانا اور صرف سات ہزار ووٹوں تک محدود رہنا واضح طور پر یہ ظاہرکرتا ہے کہ اب پارٹی عوام میں اپنی ساکھ کھورہی ہے۔ فاروق ستار کے بارے میں 22 اگست 2016 کے بعد سے ہی یہ خبریں گردش کرنے لگی تھیں کہ وہ نظریاتی طور پر لندن کے قریب ہیں جب کہ بہادر آباد کے رہنمائوں کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ انھوں نے خود کو لندن سے قطعی دورکرلیا ہے۔
لندن کی طرف سے عام انتخابات کا کھل کر بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور کراچی و حیدر آباد کے عوام سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ 25 جولائی کو گھروں سے باہر نہ نکلیں مگر اس کے باوجود حق پرست عوام ووٹ دینے کے لیے نکلے البتہ جو گھروں سے نہیں نکلے وہ لندن کی اپیل پر عمل پیرا نہیں تھے بلکہ فاروق ستار کی بہادر آباد والوں سے چپقلش کی وجہ سے سخت صدمے میں تھے اور وہ پارٹی کے رہنمائوں کی باہمی چپقلش کا انھیں سبق سکھانا چاہتے تھے۔
عام انتخابات کے بعد فاروق ستار نے ایم کیو ایم کی خراب کارکردگی کی وجہ لندن کا پارٹی سے سایہ اٹھنا قرار دیا تھا۔ اس بیان نے ان کے لندن کنکشن کے بارے میں کافی شک و شبہ پیدا کردیا تھا۔ اب اگر وہ ایم کیو ایم نظریاتی کی بنیاد رکھتے ہیں تو اس سے ایم کیو ایم پاکستان پر تو زد پڑے گی ہی ساتھ ہی ان کے لندن سے تعلقات پر بھی ابہام ختم ہوجائے گا۔ ان کے بارے میں اب ایک اور نظریہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ وہ لندن کے لیے کام نہیں کر رہے تھے وہ در اصل در پردہ پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانے کے لیے بہادر آباد والوں سے اختلافات کو ہوا دے رہے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنمائوں کی باہمی چپقلش سے پی ٹی آئی نے پورا پورا فائدہ اٹھایا ۔
اب جہاں تک ایم کیو ایم پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے تو نہ اب اس میں عوام کے لیے کوئی کشش نظر آتی ہے اور نہ ایم کیو ایم نظریاتی کے قیام کا کوئی جواز ہے کیونکہ حالیہ انتخابات کے بعد اب لگتا ہے کہ کراچی کے عوام لسانی سیاست کو مکمل طور پر مسترد کرچکے ہیں کیونکہ اس نے انھیں بہت نقصان پہنچایا اور ان کے مسائل حل نہیں ہوسکے۔ اب کراچی کے عوام نے پی ٹی آئی سے کافی امیدیں وابستہ کرلی ہیں لیکن اس کی حکومت نے ابتدا میں ہی عوام پر مہنگائی کا بم گراکر ان کے ہوش اڑادیے ہیں اگر آگے بھی یہی صورتحال رہی تو تجزیہ کاروں کے مطابق کراچی میں پھر پی ایس پی ہی اس کی جگہ لے سکتی ہے کیونکہ وہ بھی پی ٹی آئی کی طرح لسانیت اور عصبیت سے پاک ہے البتہ ابھی اس پارٹی کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے اس کے رہنمائوں کو کافی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔