سرخاب
کسی دوسرے سے سنی ہوئی بات کو متعلقہ تفصیلات کے ساتھ من و عن پیش کرنا نہ تو ممکن ہے۔
شخصی خاکے اردو ادب سمیت دنیا بھر کے ادب میں ایک ایسی صنف ہے جو اپنی پڑھے جانے کی قوت اور کشش یعنی Readability اور مقبولیت کے اعتبار سے پہلے نمبروں پر آتی ہے کہ دوسرے لوگوں کے بارے میں جاننا اور جاننے کی کوشش کرنا انسانی فطرت کا خاصا ہے اور اگر یہ لوگ اپنی بعض منفرد خصوصیات کی وجہ سے دلچسپ، مشہور یا قابل تقلید بھی ہوں تو مطالعے کا لطف اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سوانح عمری اور شخصی خاکہ کتنا بھی بور اور کسی کا بھی کیوں نہ ہو اپنے اندر کوئی نہ کوئی نئی یا دلچسپ بات ضرور رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ سب سے کم رسک والا کام ہے۔ لیکن اس کے باوجود نسبتاً بہت کم لکھاری اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ اس میں مطالعہ، مشاہدہ، تجربہ اور بیانیہ سب کے سب ایک مخصوص معیار کے بھی طلبگار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں اصناف کی مقبولیت کے بونس پوائنٹ کے باوجود بہت کم تحریریں ایسی ہیں جنھیں ایک سے زیادہ بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔
ہمارے دوست اور تیزی سے صاحب طرز نثر نگار بنتے ہوئے ادیب اور خاکہ نگار عرفان جاوید کی شخصی خاکوں پر مشتمل دوسری کتاب ''سرخاب'' کا شمار بھی ایسی ہی منفرد کتابوں میں ہوتا ہے جن کو باربارپڑھنے کے باوجود ہر بار نیا لطف محسوس ہوتاہے۔ اس کا زیادہ کریڈٹ ان کی منتخب کردہ شخصیات کو جاتا ہے یا ان کے خوب صورت اور رواں دواں بیانیے کو اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ دونوں طرف کے ووٹ تقریباً برابر ہی نکلتے ہیں۔
اس کتاب کا نام ''سرخاب'' کیوں رکھا گیا ہے؟ یہ بھی اپنی جگہ پر ایک دلچسپ سوال ہے کہ اس کا تعلق ''سرخاب کے پر'' والے محاورے سے یوں ٹکراتا ہے کہ اس میںشامل تقریباً تمام شخصیات ایسی ہیں جن کو سچ مچ کسی نہ کسی حوالے سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ یعنی ان کی شخصیت کی چمک دمک میں کئی پہلو ایسے ہیں جن کے غیر معمولی پن میں سرخاب کے پَر والی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
ان کرداروں کا عمومی یا بنیادی تعلق شعر و ادب، صحافت یا فنون لطیفہ کے کسی نہ کسی شعبے سے ہے کہ عرفان جاوید ان کا رسیا ہے اور وہ دنیا کے دھندوں سے بچنے والا تمام تر ''اپنا وقت'' اسی فضا اور ان ہی افراد کی صحبت میں گزارنا پسند کرتا ہے۔ وہ جس بھی شخصیت کو اپنے خاکہ نما مضامین کا مرکز بناتا ہے اس کے ایسے گوشوں پر تحقیق کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے جو اس کے خیال میں اس کی داخلی قوت کے اصل اور بنیادی محرک ٹھہرتے ہیں اور یوں اس کے ان خاکوں کی معرفت ہمیں اپنے کئی جانے ہوئے لوگوں کے بارے میں نئی اور دلچسپ باتوں کا پتہ چلتا ہے۔
اگرچہ وہ ایک بہت اچھا افسانہ نگار بھی ہے لیکن وہ ان کرداروں کے ذکر میں افسانہ طرازی سے گریز کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھتا ہے کہ Reality is Stranger than Fiction کے اصول پر عمل کرتے ہوئے حقیقت کے اندر موجود افسانوی عناصر کو نظر انداز نہ ہونے دے۔ اس کی نثر بہت مرصع اور بیانیہ بہت دلچسپ ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ خوامخواہ کی جملہ بازی میں پڑ کر اسٹیج کے غیر ذمے دار ایکٹروں کی طرح Laughters کے پیچھے نہیں بھاگتا بلکہ اس ہلکی اور دبی دبی مسکراہٹ سے کام لیتا ہے جس کا براہ راست تعلق متعلقہ شخصیت یا زیر بیان واقعے سے ہو۔
اس نے ہر خاکے کا ایک الگ سے عنوان بھی رکھا ہے جو اس کے خیال میں اس شخصیت کا بنیادی تعارف ہے جس پر وہ تحریر لکھی جا رہی ہے۔ تو آئیے ایک نظر اس کتاب کے مندرجات میں ان شخصیات اور ان کے اس پہلو کو دیکھتے ہیں جس کو عرفان جاوید نے خاکے کاعنوان ٹھہرایا ہے۔ انوکھا لاڈلا (خالد حسن)، پارو(پروین شاکر)، دم دم دامن (استاد دامن)، مہا منٹو (سعادت حسن منٹو)، جون صاحب (جون ایلیا)، یادگار (منشا یاد)، جلاوطن (تصدق سہیل)، دینہ کا لال (گلزار)، وارث (امجد اسلام امجد)، کوزہ گر (محمد الیاس)، اک تارا (ایوب خاور)، ٹھیک ٹھاک آدمی (افتخار بخاری)۔
عرفان جاوید کے خیال میں ان تمام شخصیات میں کم یا زیادہ سرخاب کے وہ پَر لگے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے یہ بھیڑ میں دور سے بھی پہچانی جاتی ہیں۔ اتفاق سے منٹو صاحب کے علاوہ باقی تمام شخصیات ایسی ہیں جو عرفان جاوید کی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں کہیں نہ کہیں سانس لے رہی تھیں اور زیادہ تر سے اسے براہ راست ملنے کا موقع بلکہ مواقع ملے ہیں۔
عرفان جاوید کی یہ تحریریں تکنیک کے اعتبار سے عام شخصی خاکوں سے قدرے مختلف ہیں کہ وہ اپنے بیانیے میں جیسے سفرنامے اور رپورتاژ دونوں سے بیک وقت کام لیتا ہے۔ یعنی منظر کی بات کرتے ہوئے پس منظر اور کبھی کبھی پیش منظر کی وسعتوں میں بھی جا نکلتا ہے اور یوں وہ اس طرح بات سے بات نکالتا چلا جاتا ہے کہ زمان و مکان کی وحدت پر اس کا بیانیہ حاوی ہوتا نظر آتا ہے مگر اب یہ اس کا کمال ہے کہ وہ اس احساس کو زیادہ دیر قاری کے دماغ میں رکنے نہیں دیتا۔
کسی دوسرے سے سنی ہوئی بات کو متعلقہ تفصیلات کے ساتھ من و عن پیش کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی یہ کسی تخلیقی ادب پارے کے لیے لازمی اور ضروری ہے۔ سو عرفان جاوید نے ان سنے ہوئے دلچسپ واقعات کو عام طور پر اپنے رنگ میں اور بیانئے کی ضرورت کے مطابق استعمال کیا ہے اور تقریباً ہر جگہ اس مرحلے کو آسانی اور کامیابی سے طے کیا ہے۔
248 صفحات میں محفوظ کردہ یہ تحریریں اور شخصیات جنھیں عرفان جاوید نے ''تذکرے، خاکے اور قصے کا ذیلی عنوان دیا ہے اپنی کتابی شکل ''سرخاب'' میں ایک جگہ پر جمع تو ہو گئے ہیں مگر مصنف کا کمال یہی ہے کہ ہر کردار کی خوشبو دوسرے سے مختلف اور نمایاں ہے۔ بہت دنوں کے بعد شخصی خاکوں پر مشتمل ایک ایسی کتاب سامنے آئی ہے جسے آپ بقول ابن صفی مرحوم لائبریری کے شیلف کے بجائے اپنے تکیے کے ساتھ رکھنا پسند کرتے ہیں اور جو آپ کو مصنف کی کسی نئی تحریر کا مشتاق رکھتی ہے۔