آہ قمر بھائی
مدت سے انتظار تھا کہ قمر بھائی کراچی آئیں گے اور ایک نیا سفرنامہ ہمراہ لائیں گے۔ مگر اس مرتبہ کچھ اور ہی ہوا۔۔۔
مدت سے انتظار تھا کہ قمر بھائی کراچی آئیں گے اور ایک نیا سفرنامہ ہمراہ لائیں گے۔ مگر اس مرتبہ کچھ اور ہی ہوا۔ انھوں نے اچانک رخت سفر باندھا اور چپکے سے سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ سچ مچ یہ دنیا ایک سرائے خانہ ہے اور بالآخر ہم سب کو ایک نہ ایک دن اپنی آخری منزل کی جانب روانہ ہونا ہے۔
پل دو پل کا ساتھ ہمارا، پل دو پل کی یاری
آج رکے تو کل کرنی ہے چلنے کی تیاری
قمر علی عباسی صاحب کے سانحہ ارتحال کی اندوہناک خبر سن کر تھوڑی دیر کے لیے ذہن پر بلیک آؤٹ کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ لگتا تھا کہ ذہن ماؤف ہوگیا۔ پھر جب اظہار تعزیت کے لیے امریکا فون کیا تو ان کے فرزند ارجمند وجاہت عباسی سے بات ہوئی۔ اس وقت عباسی صاحب کے جسد خاکی کو سپرد خاک کرنے کے لیے قبرستان لے جایا جارہا تھا۔
اس وقت بھی عباسی بھائی کے بارے میں اپنے احساسات و تاثرات کو رقم کرتے وقت قلب و خرمن پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہے جسے الفاظ کی شکل دینے میں بڑی دقت پیش آرہی ہے۔ ریڈیو پاکستان کے پیارے پیارے ساتھی ایک ایک کرکے بچھڑتے جارہے ہیں، جن میں دو قمر بھائی شدت سے قابل ذکر ہیں۔ ایک بھائی قمر جمیل جنھیں رخصت ہوئے ایک زمانہ ہوا اور دوسرے قمر علی عباسی جنھیں ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑے ہوئے ابھی چند روز ہی ہوئے ہیں۔ میرے یہ دونوں ہی بھائی اسم بامسمیٰ تھے یعنی چاند کی طرح سے پیارے اور ظاہر وباطن کے اعتبار سے بھی روشن روشن اور مہ تاباں کی طرح ضوفشاں۔
قمر علی عباسی کا داغ مفارقت ابھی بہت تازہ ہے۔ شاید یہ زخم کبھی مندمل نہ ہوپائے۔ سالہا سال پر محیط یہ تعلق خاطر محض کل کی سی بات ہے۔ ہم دونوں ریڈیو پاکستان میں آگے پیچھے آئے تھے۔ بس فرق صرف اتنا سا تھا کہ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز لسنرز ریسرچ کے شعبے سے کیا تھا اور ہم نے شعبہ بیرونی نشریات سے۔ جی ہاں وہی شعبہ جہاں ان کی اہلیہ محترمہ نیلوفر عباسی صاحبہ بھی پروگرام کیا کرتی تھیں۔ اس وقت وہ نیلوفر علیم کے نام سے مشہور تھیں اور قمر بھائی کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد نیلوفر عباسی کہلائیں۔
قمر بھائی کے بارے میں جو کچھ کہا جائے اور جتنا لکھا جائے وہ کم ہی ہوگا۔ بس یہی کہنے پر اکتفا کرنا ہوگا کہ ''خدا بخشے کہ کیا کیا خوبیاں تھیں مرنے والے میں''۔ سچ پوچھیے تو ایسے لوگ لافانی کہلائے جانے کے حقدار ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے ذہنوں اور دلوں میں ہی نہیں بلکہ ادب و نشریات کی تاریخ میں بھی تابہ ابد زندہ و تابندہ رہیں گے۔ قمر بھائی نے امروہہ، ضلع مرادآباد، یوپی کے ایک ممتاز خاندان میں جنم لیا۔ جی ہاں! وہی مردم خیز امروہہ جس کی مٹی سے رئیس امروہوی، جون ایلیا اور کمال امروہوی جیسے باکمال لوگ پیدا ہوئے اور پوری دنیا میں اپنا نام روشن کیا۔ ہماری طرح قمر بھائی کے منہ میں بھی پیدائش کے وقت کوئی چمچہ نہیں تھا۔ چنانچہ انھیں بھی ہماری طرح علامہ اقبال کی اس ہدایت پر عمل کرنا پڑا کہ:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
اس اعتبار سے انھیں بھی زندگی میں کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔ وہ تادم آخر انتہائی پامردی کے ساتھ موج حوادث سے ہنستے کھیلتے رہے۔ قمر بھائی یاروں کے یار تھے اور ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا جن میں خواص و عوام دونوں قسم کے لوگ شامل تھے۔ ہمارا اور ان کا ساتھ بہت پرانا اور قلبی تھا جس میں شائستہ بے تکلفی کا عنصر نمایاں تھا۔ سب سے بڑی اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ تعلق خالصتاً اخلاص کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور ہمیشہ اسی طرح برقرار بھی رہا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس پر کبھی کوئی آنچ آئی ہو یا کبھی کسی بھی قسم کی کوئی رنجش یا بدگمانی پیدا ہوئی ہو۔
ایک دوسرے کا خیال رکھنا اور احترام کرنا اس باہمی رشتے کی اساس تھا۔ قمر بھائی بڑے زندہ دل اور باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے۔ وہ مزاجاً ایک مجلسی انسان تھے، روتوں کو ہنسانے والے اور اپنے برجستہ فقروں سے اہل محفل کو لوٹ پوٹ کردینے والے۔ ان کے جملوں میں تلوار کی سی کاٹ ہوا کرتی تھی جو ان کی بذلہ سنجی کی نمایاں خوبی تھی۔ جدت طرازی ان کے خمیر میں شامل تھی جس کا عکس ان کے پروگراموں اور ان کی تحریروں میں بالکل واضح طور پر نظر آتا ہے۔ تقریر اور تحریر پر انھیں یکساں ملکہ حاصل تھا اور ان کی تحریریں بھی بولتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ بچوں سے انھیں مخصوص لگاؤ تھا اور شاید بچوں کے ادب سے ہی انھوں نے لکھنے لکھانے کا آغاز بھی کیا تھا۔ ''بہادر علی'' سے انھیں بڑی زبردست شہرت حاصل ہوئی جسے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے کراچی اسٹیشن کا ڈائریکٹر بننے کے بعد انھوں نے کئی نشریاتی تجربے بھی کیے، جن میں ''صاحب بی بی'' نامی پروگرام نے بڑی شہرت اور مقبولیت حاصل کی جس میں نامور شخصیات کے ساتھ بے تکلف ملاقات کرائی جاتی تھی اور میاں بیوی دونوں ہی شامل ہوتے تھے۔
قلم اور ریڈیو پاکستان کے حوالے سے ہمارے اور قمر بھائی کے درمیان ایک اور قدر بھی مشترک ہے کہ پے درپے تبادلوں کی صورت میں ہم دونوں نے دربدر کی خاک بھی بہت چھانی۔ اس کے علاوہ ریڈیو اور اس کے باہر ملک اور بیرونی ملک دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے بہت سے پیارے پیارے اور نہایت بے لوث دوست بھی نہ صرف ہمارے درمیان ایک قدر مشترک ہیں بلکہ ایک مشترکہ سرمایہ بھی ہیں۔ چنانچہ ان کی وفات کا غم بہت سے لوگوں نے ہمارے ساتھ شیئر بھی کیا ہے جن میں ہمارے مشترکہ PA مجاہد اور ہم دونوں کے عزیز ترین دوست اور سینئر براڈ کاسٹر بھائی ظہیر حسن سرفہرست ہیں۔ ادب و نشریات کے علاوہ قمر بھائی کا جمالیاتی ذوق بھی بہت بلند تھا۔ کراچی اسٹیشن کی باگ ڈور سنبھالتے ہی انھوں نے اس تاریخی نشریاتی مرکز کی خستہ حال عمارت کی مرمت اور تزئین و آرائش کی جانب فوری توجہ دی اور اس کے اجڑے ہوئے اور خزاں رسیدہ چمن کو گلزار بنادیا۔ شاید بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ ماچس کے لیبل جمع کرنا قمر بھائی کا محبوب مشغلہ تھا۔ ہماری ہابی بھی کسی زمانے میں یہی تھی۔
ہم دونوں جب یکجا ہوتے تھے تو دنیا جہان کی بہت سی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ نثر نگاری قمر بھائی کا اصل میدان تھا جس میں انھوں نے اپنی قلمکاری کے بہترین جوہر دکھائے اور بڑا نام پیدا کیا۔ پھر ان کے قلم نے ایک نئی کروٹ لی اور انھوں نے سفر نامہ نگاری کی صنف کا انتخاب کیا اور بہت سے اگلوں کو اس دوڑ میں پیچھے چھوڑ گئے۔ابن بطوطہ کے تعاقب میں ایسے نکلے کہ دنیا کا کونا کونا چھان مارا۔ ہم ان سے اکثر مذاقاً یہ پوچھا کرتے تھے کہ بھائی اپنے ہم نام کے سفر پر جاکر سفر نامہ کب تحریر کروگے؟ مگر ہمیں یہ توقع ہرگز نہ تھی کہ ہمارے سوال کے جواب میں وہ چاند کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے اور یک بہ یک سفر آخرت پر روانہ ہوکر اپنے تمام پیاروں کو ہمیشہ کے لیے سوگوار اور اداس چھوڑ جائیں گے۔
عالمی شہرت یافتہ سفرنامہ نگار ولیم ہزلٹ کی طرح قمر عباسی کے سفرناموں کی بھی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ قاری الفاظ کی عینک سے تمام مناظر سے تھری ڈی فلم کی طرح لمحہ بہ لمحہ لطف اندوز ہوتا ہے۔ ہمارے ملکی سفر نامہ نگاروں کی فہرست میں بھی ایک سے ایک بڑھ کر بڑے بڑے نامی گرامی لوگوں کے نام شامل ہیں مگر قمر بھائی کی بات ہی کچھ اور ہے۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر قمر بھائی کا بس چلتا تو وہ ایک روز ملک عدم سے واپس آکر ہم سب کو یہ کہہ کر حیران کردیتے کہ ''سفرنامہ بہشت'' پیش خدمت ہے اب اس کی تقریب رونمائی کا انتظام و اہتمام فرمائیے۔
اس تحریر کو سپرد قلم کرنے تک ہماری معلومات کے مطابق کراچی آرٹس کونسل کی جانب سے قمر بھائی کی یاد میں تعزیتی نشست کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی مگر ہمیں اس کے جلد انعقاد کا پورا یقین ہے۔ اﷲ تعالیٰ قمر بھائی کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ان کے اہل خانہ اور تمام متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!