برسات‘ درخت اور تقسیم اسکوائر
سویرے جو کل آنکھ میری کھلی تو دیکھا کہ رم جھم بارش ہو رہی ہے۔ ہم نے سوچا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔ ایک بارش کل پرسوں ہو۔۔۔
سویرے جو کل آنکھ میری کھلی تو دیکھا کہ رم جھم بارش ہو رہی ہے۔ ہم نے سوچا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔ ایک بارش کل پرسوں ہو چکی ہے۔ قیامت کی گرمی پڑ رہی تھی۔ موسم تھوڑا ٹھنڈا ہو گیا۔ اب یہ دوسری پھوار ہے۔ اس سے گرمی کا دن تھوڑا اور مر جائے گا۔ مگر جب مینھ لگا تار برسے چلا گیا اور ہمارے لان میں پانی امنڈنے لگا اور چڑھنے لگا تب ہمیں خوشگوار قسم کی حیرت ہوئی کہ ارے یہ تو بالکل برسات والی بارش ہے۔ کیا واقعی برسات اس برس اتنی عجلت میں ہے کہ اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہی آن دھمکی۔
مگر جب اخبار آیا تو اس نے ہمیں اطمینان دلایا' معاف کیجیے اخبار نے نہیں بلکہ ہمارے محکمہ موسمیات نے بتایا کہ یہ جو اب بارش کا ریلا آیا ہے اس کا ہماری روایتی برسات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مون سون کی سواری ابھی دور ہے۔ اس کی سواری باد بہاری تو انشاء اللہ یکم جولائی کو یہاں پہنچے گی۔ یہ ماقبل مون سون بارش ہے۔ کچھ آوارہ ہوائیں ہیں بوندوں سے لدی پھندی جو اپنے طور پر چل پڑی ہیں مگر ان کے جلو میں جو بارش شروع ہوئی ہے وہ ایسی ویسی بارش نہیں بلکہ موسلا دھار بارش ہوگی اور پورے ملک میں ہو گی۔
مگر صاحب یہ تو بہت غلط بات ہے۔ خلاف ضابطہ حرکت۔ ہمارے موسموں کو آخر اب کیا ہو گیا ہے۔ وہ جو موسموں کی دنیا میں قاعدے قانون چلے آ رہے تھے اب وہ ان کا احترام ہی نہیں کرتے۔ یعنی جو انتشار ہماری آپ کی زندگی میں اس وقت پھیلا ہوا ہے وہی اب ہمارے موسموں کی دنیا میں بھی برپا ہے۔ کتنے زمانے سے یہ طے چلا آ رہا تھا کہ مئی کے مہینے میں گرمی شروع ہو گی، اس رنگ سے کہ ؎
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
رفتہ رفتہ گرمی زور پکڑے گی۔ جون کے مہینے میں لوئیں چلیں گی اور گرمی اس کڑاکے کی پڑے گی کہ خلقت بولا جائے گی۔ باران رحمت کے لیے دعائیں مانگی جائیں گی۔ آخر قدرت کا دل پسیجے گا اور کالی گھٹا ابر رحمت بن کر امنڈے گی۔ لیجیے ناصر کاظمی کے ایک دو شعر اس ذیل میں یاد آ گئے؎
چہرہ افروزہوئی پہلی جھڑی ہم نفسو شکر کرو
دل کی افسردگی کچھ کم تو ہوئی ہم نفسو شکر کرو
آج پھر دیر کی سوئی ہوئی ندی میں نئی لہر آئی
دیر کے بعد کوئی نائو چلی ہم نفسو شکر کرو
لیجیے شکر ادا ہو رہا ہے۔ گرم چولہوں پہ کڑہائی چڑھ گئی۔ پکوان تلے جانے لگے۔ پھلکیاں' پکوڑے' نمک پارے' شکر پارے' پوریاں' دال کے پراٹھے۔ وغیرہ وغیرہ۔
ادھر آم بھی گدرا گئے ہیں۔ جامنیں بھی اب ہری سے اووی ہو گئی ہیں۔ ہاں جھولے بھی پڑ گئے ہیں۔ جھولے اور ساون کے گیت۔ ساون آیا رے ایسے بولوں سے فضا گونجنے لگی ہے۔ مگر اب جھولے اور ساون کے گیت دیہات تک ہیں۔
خیر ہم کہہ رہے ہیں کہ اب بیشک اس کے بعد جھڑی لگے اور اتنا طول پکڑے کہ نمازیں پڑھ کر دعائیں مانگی جائیں کہ بس الٰہی بس۔
مگر اب جس طرح برسات آتی ہے، وہ تو سراسر خلاف ضابطہ ہے۔ ویسے تو ہمیں یہ برسات ہی نظر آ رہی ہے۔ مگر محکمہ موسمیات والے بتا رہے ہیں کہ دھوکا مت کھائو' یہ برسات نہیں ہے۔ برسات تو جولائی میں آئے گی۔ اگر یہ برسات نہیں ہے اور بارشیں موسمیاتی پیشگوئی کے مطابق اس زور کی ہونگی کہ ندی نالے چڑھ جائیں گے۔ اگر ایسا ہی ہونا ہے تو پھر برسات آ کر کیا کرے گی۔ ارے یہ تو محکمہ موسمیات کے چو چلے ہیں کہ یہ مون سون کی بارشیں نہیں ہیں۔ ماقبل مون سون بارشیں ہیں۔ جیسی بھی ہیں بارشیں تو ہیں۔ برسات اور کسے کہتے ہیں۔ اور برسات کا جشن منانے والوں کے حساب سے یہ برکھا بہار ہے۔ تو اب چٹوروں کو پھلکی پکوڑے سموسے کھانے سے کون روک سکتا ہے۔ اور شہر سے باہر کہیں دیہات ہیں جھولوں کا رواج ابھی تک موجود ہے تو جھولا جھولنے والیوں کو جھولا جھولنے سے اور ساون کے گیت گانے سے کیسے باز رکھا جا سکتا ہے۔ تو گویا جب واقعی برسات آئے گی تو وہ دیکھ کر کتنا سٹپٹائے گی کہ برسات کی ساری بہار تو ماقبل مون سون بارشیں لوٹ کر لے گئیں۔
جھولے سے ہمارا دھیان نیم کے پیڑ کی طرف گیا۔ جھولا ویسے کسی بھی پیڑ کی شاخ میں ڈال لو۔ مگر جھولے کی اصلی شان نیم کے پڑ سے وابستہ ہے۔ ویسے نیم کے پیڑ کے سوا آم جامن کے پیڑ بھی برسات میں اپنی بہار دکھاتے ہیں اور اپنے پھلوں سے خلقت کو نوازتے ہیں۔
لو ایک پیڑ کو تو ہم بھولے ہی جا رہے ہیں جو برسات سے پہلے پہلے تپتی دھوپ میں اپنی بہار دکھاتا ہے۔ یہ ہے املتاس کا پیڑ۔ ایک زردی بسنت بہار میں پھولتی ہے اور ایک زردی موسم گرما کی دھوپ میں پھولتی ہے۔ اسے موسم گرما کی بسنت کہہ لو۔
درختوں کا ذکر نکل ہی آیا ہے تو استنبول کے تقسیم اسکوائر کا بھی تھوڑا ذکر ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ تقسیم اسکوائر کے پیڑ اس وقت سخت مشکل میں ہیں۔ مشکل یہ آ پڑی ہے کہ طیب اردگان کی اسلامی حکومت کے دماغ میں اچانک یہ سمائی ہے کہ اس چوک میں جو درخت اپنی بہار دکھا رہے ہیں، انھیں قلم کر کے یہاں فوجی بارکیں تعمیر کی جائیں۔ ان درختوں پر آرے چلنے لگے تھے کہ عین وقت پر وہاں کے ماحولیات پسندوں نے جھرجھری لی۔ اور پھر نوجوان بیچ میں کود پڑے کہ یہ درخت ہم نہیں کٹنے دیں گے۔ احتجاج درختوں سے شروع ہوا تھا۔ اب اس سے اور شاخسانے بھی پھوٹ پڑے ہیں۔
ارے سب سے بڑھ کر تو پاکستان میں درخت مشکل سے دو چار تھے۔ یہاں تو جنگل کے جنگل صاف ہو گئے۔ خود لاہور شہر میں ہمارے دیکھتے دیکھتے کتنے درخت کٹ گئے۔ یہاں جو درختوں کے حامیوں نے ان کی حمایت میں تحریک شروع کر رکھی ہے وہ بس واجبی واجبی ہے۔ ارے درختوںکے لیے لڑائی ایسے لڑی جاتی ہے جیسے ترکی میں لڑی جا رہی ہے۔ شروع میں تو اردگان صاحب نے تیزی ترکی بہت دکھائی تھی اور درختوں کے حامیوں کو بہت ڈرایا دھمکایا تھا مگر درخت پرستوں نے ان دھمکیوں کا جواب ترکی بہ ترکی دیا اور احتجاج نے اتنا زور باندھا کہ اب اس حکومت کی ترکی تمام ہوتی نظر آ رہی ہے۔
وہ دن پاکستان میں کب آئے گا جب یہاں درختوں کو کٹتا دیکھ کر لوگوں کا خون جوش مارے گا اور وہ اپنی دھرتی کے درختوں کی حمایت میں کمربستہ ہو کر سامنے آئیں گے۔