اشرافیہ کا اقتدار

پاکستان میں پنجاب کو گالی دینادانشورانہ عیاشی ہے۔ چھوٹےصوبوں کے قوم پرست سیاستدان اورقلمکاردل کھول کریہ عیاشی کرتےہیں۔


Latif Chaudhry June 16, 2013
[email protected]

پاکستان میں پنجاب کو گالی دینا دانشورانہ عیاشی ہے۔ چھوٹے صوبوں کے قوم پرست سیاستدان اور قلمکار دل کھول کر یہ عیاشی کرتے ہیں۔ پنجابی فوج' پنجابی جج اور پنجابی بیورو کریسی کی اصطلاحیںعام سننے کو ملتی ہیں۔ قوم پرست اپنے صوبے کی پسماندگی' غربت اور بدحالی کا ذمے دار پنجاب کو قرار دیتے ہیں۔ میں جب طالب علم تھا' تب قوم پرست سیاستدانوں کو سوشلسٹ اور سماجی مساوات کاعلمبردار سمجھا کرتاہے۔لاہوریا ہونے کے باوجود پنجاب کو استحصالی قرار دیتا تھا لیکن پھر حقائق کچھ یوں آشکار ہوئے کہ ماضی کے خیالات لا علمی کا شکاہکار نظر آتے ہیں۔

آمریت کی تو کیا بات کریں، پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جو عوام کی جو نمایندہ حکومتیں قائم ہوتی ہیں' وہ بھی اصل میں اشرافیہ کا اقتدار ہوتا ہے۔ سیاسیات کی زبان میں اسے چند سری حکومت یا چند خاندانوں کا اقتدار بھی کہا جاتا ہے۔ بادشاہت میں تو ایک خاندان مقتدر ہوتا ہے لیکن چند سری حکومت یااریسٹوکریسی میں چند خاندان اقتدار آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ پاکستان جیسے بدحال ایٹمی ملک میں ایسی ہی حکومت قائم ہوتی ہیں۔ یہاں چند خاندان عوام کی نمایندگی کا علم اٹھا کر حکومت کرتے ہیں' پاکستان میں چاروں صوبوں میں درحقیقت چند خاندان حکمران ہوتے ہیں' کچھ خاندان انتخابات میں شکست کھا جاتے ہیں اور انھی جیسے دوسرے جیت کر حکومت چلانا شروع کر دیتے ہیں لیکن ہارنے والی بھی اسمبلیوں کے رکن منتخب ہو جاتے ہیں' جیسے چوہدری برادران اقتدار سے تو باہر ہو گئے لیکن چوہدری پرویز الٰہی اور قومی اسمبلی ان کے صاحبزادے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے ہیں' یوں وہ حکمران کلب کے بدستور رکن ہیں۔

پنجاب کے سیاسی خانوادوں کے بارے میں تو آگاہی پہلے سے تھی اور ہے' مجھے پتہ ہے کہ میاں نواز شریف خود وزیراعظم ہیں' ان کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز ایم این اے ہیں جب کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ان کے قریبی عزیز ہیں۔ سندھ کے بارے میں بھی معلوم ہے کہ آصف علی زرداری صدر ہیں' ان کی بہن فریال تالپور اور عذرا افضل قومی اسمبلی کی رکن ہیں' ان کے منہ بولے بھائی مظفر اویس ٹپی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سندھ کے ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ ہیں۔یہ اقربا پروری کی زندہ مثالیں ہیں اور اس پر کسی کو ندامت نہیں ہے' سب کچھ کھلے بندوں ، آئین و قانون اور جمہوری روایات کے تحت ہو رہا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کے قوم پرست بھی اس حمام میں ننگے ہیں۔ان کا بھی دکھ یہی تھا کہ انھیں اقتدار کا کیک کھانے کو نہیں مل رہا، جیسے ہی یہ کیک انھیں ملا، سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔

بلوچستان میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ بہت اصول پسند اور درویش سیاستدان ہیں' اس میں حقیقت بھی ہو گی اور ان کی ظاہری وضع قطع سے ظاہر بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ عوامی شخصیت ہیں لیکن وہ بھی اسی نظام کا حصہ ہیں۔ بلوچستان میں جو نیا سیاسی ارینجمنٹ بنا ہے' اس میں انھوں نے اچھا خاصا حصہ لیا ہے۔ محمود اچکزئی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور ایم این اے بھی ہیں' ان کے بھائی محمود خان اچکزئی' بلوچستان کے گورنر بن گئے ہیں' ان کے دو بھائی حامد خان اچکزئی اور مجید خان اچکزئی بلوچستان اسمبلی کے رکن ہیں۔ یہ سب بلوچستان میں بسنے والے پختونوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بی ایل اے والے جو کچھ کررہے ہیں، ان کی منزل بھی اقتدار ہی ہے اور نام غریب بلوچوں کا لیا جارہا ہے۔

خیبر پختونخوا پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی یہی چلن نظر آئے گا۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے خاندان کے کئی افراد رکن اسمبلی ہیں۔ اب سنا ہے کہ ضمنی الیکشن میں بھی وہ اپنے قریبی رشتہ دار کو ٹکٹ دلوانا چاہتے ہیں۔سیپکر خیبر پختونخوا اسمبلی بھی ضمنی الیکشن میں اپنے بھائی کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ باچا خان کے پیروکاروں کی حکومت میں بھی اقربا پروری دیکھنے میں آئی۔ غلام احمد بلور' وفاقی وزیر ریلوے' ان کے شہید بھائی بشیر احمد بلور صوبے کے سینئر وزیر اور تیسرے بھائی الیاس بلور سینیٹ کے رکن ہیں۔ محترم اسفند یار ولی خود رکن قومی اسمبلی' ان کے قریبی عزیز امیر حیدر ہوتی وزیراعلیٰ تھے اور وزیراعلیٰ کے والد محترم اعظم ہوتی سینٹر ۔

مجھے ان مقتدر خاندانوں کی دولت و اقتدار سے کوئی لینا دینا نہیں ہے' ان سب خاندانوں کے افراد کو عوام نے ووٹ دیا ہے اور وہ اسمبلیوں میں پہنچے ہیں' بات صرف اتنی ہے کہ یہ سب ایک ہی حکمران کلب کے رکن ہیں۔قوم پرستی وغیرہ سب سیاسی کھیل ہے۔ بات یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت موجود ہے لیکن عملاً یہاں لارڈز کا اقتدار ہے۔ افغانستان میں وار لارڈز ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں '' سول لارڈز''حکومت کرتے ہیں۔ بادشاہت میں ایک خاندان کے افراد بالادست ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں بادشاہت کئی خاندانوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ کوئی خاندان قوم پرستی کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے اوراپنی ہی قوم کے غریبوں کو بیوقوف بنا رہا ہے۔ کوئی مذہب کا نام لے کر خاندان کو پروان چڑھا رہا ہے۔کوئی جمہوریت اور لبرل ازم کے نام پر اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے' ان تمام حکمران خاندانوں کے نونہال ترقی یافتہ ممالک میں کاروبار کرتے ہیں اوران کے لیے ویزے وغیرہ کی بھی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ پاکستان تو ان کی جاگیرہے اوریہاں بسنے والے عوام کمی کمین ہیں۔

اب آپ ہی بتائیں' چند خاندانوں پر مشتمل یہ جمہوری حکومت اپنے مفادات کی نگہبانی کرے یا میرے اور آپ کے دکھڑے سنے ۔ آپ بجٹ کو ہی دیکھ لیں' ہائبرڈ گاڑیوں پر ڈیوٹی کم کر دی گئی لیکن جنرل سیلز ٹیکس لگا کر عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ ڈال دیا گیا۔ حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ قوم کو خوشخبری دی گئی ہے کہ مشکل فیصلے کرنے ہیں۔کاش جناب اسحاق ڈار صاحب ایک مشکل فیصلہ یہ کر لیتے کہ ایم این ایز' ایم پی ایز اور سینیٹرز کے لشکرجرار کی تنخواہیں اور مراعات کم ازکم ایک برس لے لیے ہی واپس لے لیتے' لیکن ایسا کون کرتا ہے۔ بجٹ میں زراعت کو سوتیلے بچے کی طرح حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ کیا کراچی' لاہور' راولپنڈی' اسلام آباد وغیرہ کے پوش ایریاز میں بسنے والے سول لارڈز کے بنگلوں پر ٹیکس عائد نہیں ہو سکتا تھا' فارم ہائوسز پر ٹیکس نہیں بڑھایا جا سکتا تھا' مرسڈیز' بی ایم ڈبلیوز اور دوسری مہنگی گاڑی خریدنے والوں پر خصوصی ٹیکس عائد نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن یہاں تو جی ایس ٹی میں اضافہ کر کے شیر اور بکری کو ایک ہی کھونٹے سے باندھ دیا۔ اس زیادتی پر محمود اچکزئی بولیں گے نہ آصف علی زرداری اور نہ ہی پرویز خٹک۔ کیونکہ سب کی انگلیاں گھی میں ہیں' عوام اگر آگ میں جھلس رہے ہیں تو یہ ان کا مقدر ہے، اشرافیہ کیا کر سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔